امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی وزارت خارجہ نے زور دے کر کہا ہے کہ صدر جو بائیڈن ایران کو کبھی بھی جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
وزارت خارجہ کے ذرائع نے مزید کہا کہ ایران نے مذاکرات کے سابقہ ادوار میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ لہذا کسی بھی قابل ذکر پیش رفت کے بارے میں بات کرنا قبل از وقت ہو گا۔
ادھر ایران کے سینئر مذاکرات کار علی باقری کنی کے مطابق ویانا مذاکرات کی کامیابی ،،، ایران پر عائد پابندی ختم کرنے سے متعلق معاہدے تک پہنچنے پر منحصر ہے۔
باقری کے مطابق مکرات میں شریک تقریبا تمام فریقوں نے ہی باور کرایا ہے کہ غیر قانونی پابندی ختم کیا جانا ترجیحی موضوع ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کی ضمانت دی جانی چاہیے کہ امریکا ایک بار پھر معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کرے گا اور ایران کے خلاف پابندیوں کے نئے اقدامات نہیں کیے جائیں گے۔
یاد رہے کہ ایران نے جولائی 2015ء میں ویانا میں چھ بڑی عالمی طاقتوں (امریکا، فرانس، برطانیہ، روس، جرمنی اور چین) کے ساتھ ایرانی جوہری پروگرام کے حوالے سے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ اس کے نتیجے میں اُس وقت تہران پر عائد بہت سی پابندیاں اٹھا لی گئی تھیں۔ اس کے مقابل ایران نے اپنی جوہری سرگرمیوں کو محدود کر لیا تھا اور اس کے پر مان ہونے کی ضمانت دی تھی۔
البتہ اس معاہدے کے مؤثر ہونا اس وقت تقریبا ختم ہو گیا جب 2018ء میں امریکا نے یک طرفہ طور پر اس سمجھوتے سے علاحدگی اختیار کر لی۔ ساتھ ہی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر کڑی پابندیاں پھر سے عائد کر دیں۔
جوہری معاہدے سے امریکی علاحدگی کے تقریبا ایک سال بعد ایران نے بھی سمجھوتے میں درج اپنی پاسداریوں پر عمل درامد بتدریج روک دیا۔ البتہ امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے سمجھوتے میں واپسی کی خواہش کا اظہار کیا بشرط یہ کہ واپسی کی پہل ایران کی طرف سے ہو۔ رواں سال اپریل میں امریکا اور ایران نے ویانا میں بالواسطہ مذاکرات کا آغاز کیا تھا۔ یورپ کے واسطے سے ہونے والے ان مذاکرات کا مقصد جوہری معاہدے کی بحالی ہے۔
یہ مذاکرات جون میں موقوف ہو گئے تھے اور پھر پانچ ماہ بعد نومبر کے اواخر میں ویانا میں ایک بار پھر دونوں ملکوں کے بیچ بالوسطہ مذاکرات کا آغاز ہوا۔