برسلز (اصل میڈیا ڈیسک) دونوں ملکوں کے مابین مختلف سیاسی او ر علاقائی امور پر اختلافات کے باوجود ترک رہنما نے ملاقات کے بعد باہمی تعلقات میں بہتری کی امید ظاہر کی ہے۔
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے کہا کہ امریکی صدر جو بائیڈن سے ان کی حالیہ ملاقات سے دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات کے ایک ”نئے دور” کا آغاز ہوا ہے۔
دونوں رہنماوں نے گزشتہ ہفتے برسلز میں نیٹو سربراہی کانفرنس کے دوران ملاقات کی تھی۔
ایردوآن نے پیر کے روز کابینہ کی ایک میٹنگ کے بعد بتایا،”ہمیں یقین ہے کہ ہم نے ایک نئے دور کے دورازے کھول دیے ہیں جو امریکا کے ساتھ مثبت اور تعمیری تعلقات پر مبنی ہیں۔”
انہوں نے مزید کہا،”ہم بائیڈن کے ساتھ اپنی بات چیت کے مثبت لہجے سے اور امریکا کے ساتھ رابطوں کے اپنے چینلوں کو مستحکم کرکے، ملک کے لیے ممکنہ زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کے تئیں پرعزم ہیں۔”
ایردوآن نے اسی کے ساتھ بتایا کہ انہوں نے بائیڈن انتظامیہ سے ایک درخواست بھی کی ہے: ”ترکی کا صرف ایک مطالبہ ہے کہ ہر شعبے میں اس کی قتصادی اور سیاسی خود مختاری کا احترام کیا جائے اور دہشت گرد تنظیموں کے خلاف ترکی کی جدوجہد میں اس کی مدد کی جائے۔”
رجب طیب ایردوآن اور جو بائیڈن نے برسلز میں نیٹو سربراہی کانفرنس کے دوران ملاقات کی تھی۔
بائیڈن اور ایردوآن میں سیاسی امور پر کیا اختلافات ہیں؟ یردوآن کے مثبت تبصروں کے باوجود دونوں ممالک کے مابین مختلف سیاسی او رعلاقائی امور پر گہرے اختلافات موجود ہیں۔
ایردوآن نے شام میں کرد گروپوں کے خلاف متعدد فوجی کارروائیاں کی ہیں۔ ترکی کا دعوی ہے کہ ان گروپوں کے ممنوعہ دہشت گرد تنظیم پی کے کے کے ساتھ تعلقات ہیں۔ امریکا، شام میں اسلامک اسٹیٹ جیسی جہادی تنظیموں کے خلاف محا ذ آرا ان کرد گروپوں میں سے بعض کی مدد کرتا ہے۔
امریکا ترکی کو روسی ساخت کے ایس 400 میزائلوں کے فروخت کا بھی سخت مخالف ہے۔ان میزائلوں سے ترکی کا دفاعی نظام مضبوط ہوجائے گا۔
ایردوآن نے اسرائیل کی حمایت کرنے کے لیے بارہا امریکا کی نکتہ چینی کی ہے۔ ترک صدر فلسطینیوں کے ساتھ اکثر اظہار یکجہتی کرتے ہوئے دیکھے جاتے رہے ہیں۔
اس برس جب بائیڈن نے عثمانی دور خلافت میں آرمینیائی شہریوں کی ہلاکتوں کو ‘قتل عام‘ قراردیا تھا تواس کے بعد بھی دونوں ملکوں کے تعلقات میں کشیدگی بڑھ گئی تھی۔
دونوں ممالک تاہم بعض دیگر شعبوں، مثلاً افغانستان سے نیٹو کی واپسی، میں ایک دوسرے کا تعاون کررہے ہیں۔ بائیڈن اورایردوآن رواں سال کے اواخر میں افغانستان سے بین الاقوامی فوج کی واپسی کے بعد دارالحکومت کابل کے ہوائی اڈے کی سکیورٹی کو یقینی بنانے میں ترکی کو اہم رول ادا کرنے کی اجازت دینے پر متفق ہوگئے ہیں۔