امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی صدر جو بائیڈن ایک ایسا ایگزیکٹیو آرڈر جاری کرنے کے لیے تیار ہیں جو ٹرانسجنڈرز کی فوج میں شمولیت کے لیے رکاوٹ بنی ہوئی پالیسی کو بدل کر رکھ دے گا۔
پینٹاگون کی وہ پالیسی جو بڑی حد تک ٹرانسجینڈرز کو فوج میں شامل ہونے سے روکتی ہے، دراصل سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے صدارتی دور کے پہلے سال کے دوران ہی ان کی ایک ٹوئیٹ سے منکشف ہوئی تھی۔ جس میں انہوں نے اس پابندی کا عندیہ دیا تھا۔
جو بائیڈن سے توقع کی جارہی ہے کہ وہ ٹرمپ کی زیادہ تر متنازعہ پالیسوں کو اپنے صدارتی دور کے ابتدائی دنوں میں ہی ختم کردیں گے۔ وائٹ ہاؤس کی طرف سے ان اقدام کا اعلان پیر کے روز ہوا۔ ٹرمپ کے مذکورہ آرڈرز میں تبدیلی کے جو بائیڈن کے فیصلے کے بارے میں نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک اہلکار نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا۔
امریکی سپریم کورٹ میں 2018 ء میں ٹرانسجنڈر پر فوج میں شمولیت کی پابندی سے متعلق قانون پیش کیا گیا تھا۔
ٹرمپ پالیسی کو مسترد کرنے کے اس اقدام کو بائیڈن کے سیکرٹری دفاع، ریٹائرڈ آرمی جنرل، لوئڈ آسٹن، کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ پالیسی میں تبدیلی کی تصدیق لوئڈ آسٹن نے اپنی سینیٹ کی توثیق کے دوران پچھلے ہفتے کر دی تھی۔ انہوں نے کہا تھا، ”میں صدر کے اس منصوبے یا اس پابندی کو ختم کرنے کے منصوبے کی حمایت کرتا ہوں۔‘‘ آسٹن نے فوج میں ٹرانسجینڈرز کی خدمات کے حوالے سے مزید کہا، ”اگر آپ فٹ ہیں اور آپ خدمت کرنے کے اہل ہیں اور آپ معیارات کو برقرار رکھ سکتے ہیں تو آپ کو خدمت انجام دینے کی اجازت ہونی چاہیے۔‘‘
فوج میں ٹرانسجینڈرز کی شمولیت پر لگی پابندی ہٹانے کا فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب نئے امریکی صدر جو بائیڈن اپنی تمام تر توجہ ‘اکویٹی‘ پر مبذول کیے ہوئے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ تقریباً زندگی کے تمام پہلوؤں میں جانبداری کا عنصر ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیوں کا محور رہا ہے اور اس کے سائے ہنوز چھائے ہوئے ہیں۔
بائیڈن کی وائٹ ہاؤس کی ٹیم کے چیف، ایک عرصے سے بائیڈن کے سیاسی مشیر اور قانون دان ‘رون کلین‘ نے بائیڈن کی صدارتی عہدے کی حلف برداری کی تقریب سے قبل، وائٹ ہاؤس کے چیف آف اسٹاف کی حیثیت سے ایک میمو تقسیم کیا تھا۔ جس کے تحت بائیڈن اپنے صدارتی آفس کاپہلا ہفتہ مکمل طورپر ‘اکویٹی ‘ یا ‘غیر جانبداریت‘ کے منصوبے کا خاکہ تیار کرنے میں استعمال کریں گے۔
امریکی صدر جو بائیڈن ایکویٹی کو آگے بڑھانے اور غیر سفید فام باشندوں یا ‘مختلف رنگوں اور نسلوں سے تعلق رکھنے والی برادریوں‘ اور نظر انداز کیے جانے والے طبقوں کی حمایت کرنا چاہتے ہیں۔ ٹرانسجینڈرز پر پابندی کو ختم کرنے کا اقدام بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ بائیڈن نے اپنے ابتدائی دنوں میں بطور ایگزیکیٹو اپنی اتھارٹی استعمال کرنے کی مثال سابق صدر ٹرمپ کی ‘میراث‘ کی حییت رکھنے والی تمام پالیسیوں کو ختم کرنے کا عزم کیا ہے۔ ابتدائی اقدامات میں ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے مسافروں پر عائد پابندی کو ختم کرنے کے احکامات، جن میں بہت سے مسلم ممالک بھی شامل ہیں، کے علاوہ امریکا اور میکسیکو کی سرحد پردیوار کی تعمیر کے کام کو بند کروانے اور نسل پرستی کے خاتمے کو آگے بڑھانے جیسے فیصلے ان کی ‘اکویٹی پالیسی‘ کے اہم ترین نکات ہیں۔ پیر 25 جنوری کو وائٹ ہاؤس میں بائیڈن کے معتمد اور پالیسی مشیر رون کلین کی بطور ‘ڈیفنس سیکرٹری‘ تقریب حلف برداری بھی منعقد ہوگی اور نئے صدر جو بائیڈن ان سے حلف لیں گے۔ وائٹ ہاؤس میں پہلی بار ایک سیاہ فام ‘سیکرٹری دفاع‘ اس عہدے پر فائذ ہونے جا رہے ہیں۔