وائٹ ہاؤس (اصل میڈیا ڈیسک) روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور چینی صدر شی جن پنگ سمیت دنیا کے تقریباً چالیس رہنماؤں کو اپریل میں مجوزہ ماحولیاتی سربراہی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے پوٹن اور شی جن پنگ کے متعلق کہا، ”انہیں معلوم ہے کہ میں نے انہیں مدعو کیا ہے۔ لیکن میری اب تک ان میں سے کسی سے براہ راست بات نہیں ہوئی ہے۔”
وائٹ ہاؤس کے مطابق یہ سربراہی کانفرنس 22 اور 23 اپریل کو منعقد ہوگی۔ واشنگٹن کو امید ہے کہ اس اجلاس سے زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی سے متعلق کاوشوں کو سِمت دینے اور ان میں تیزی پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔
بائیڈن نے جرمن چانسلر انگیلا میرکل، فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں اور برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کو بھی اس سمٹ میں شرکت کی دعوت دی ہے۔ جن دیگر اہم عالمی رہنماؤں کو اس سربراہی کانفرنس میں مدعو کیا گیا ہے ان میں سعودی عرب کے شاہ سلمان بن عبدالعزیز، برازیل کے صدر جیئر بولسونارو، بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی اور ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن شامل ہیں۔
دنیا میں کورونا وائرس کے پھیلنے سے صنعتی سرگرمیاں معطل ہو کر رہ گئی ہیں۔ کارخانوں کی چمنیوں سے ماحول کو آلودہ کرنے والے دھوئیں کے اخراج میں وقفہ پیدا ہو چکا ہے۔ نائٹروجن آکسائیڈ کا اخراج بھی کم ہو چکا ہے۔ اس باعث ہوا کی کوالٹی بہت بہتر ہو گئی ہے۔
وائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے ”اس سربراہی کانفرنس میں ایسی مثالوں کو اجاگر کیا جائے گا کہ ماحولیات کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ بہتر ملازمتوں کے مواقع کیسے پیدا کیے جاسکتے ہیں، جدید ترین اختراعی ٹیکنالوجی اور ماحولیات کے اثرات سے بچنے میں غریب ملکوں کی مدد کے طریقہ کار پر بھی غور و خوض کیا جائے گا۔”
امید ہے کہ اس موقع پر امریکا ”2030ء میں گیسوں کے اخراج کے ہدف‘‘ کے حوالے سے اپنے پرعزم پروگرام کابھی اعلان کرے گا۔
ماحولیات کا مسئلہ بائیڈن کی ٹیم کا ان کے انتخابی مہم کے آغازسے ہی ایک اہم ایجنڈا رہا ہے۔ انہوں نے توانائی کے شعبے کو سن 2035 تک اور پوری امریکی معیشت کو سن 2050 تک زہریلی گیسوں کے اخراج سے پاک بنانے کے عزم کا اظہارکیا تھا۔
سن 2002 میں آنے والے سیلاب سے ڈریسڈن زیر آب آ گیا تھا۔ اس سیلابی پانی نے کئی قیمتی نوادرات کے لیے خطرات پیدا کر دیے تھے۔ باروک طرز تعمیر کے سونگر محل میں بھی پانی داخل ہو گیا تھا۔ اب شہری انتظامیہ نے ایک ٹاسک فورس بنائی ہے تا کہ مستقبل میں ایسی سنگین موسمی صورت حال کا مقابلہ کیا جا سکے۔
امریکی صدر نے پیرس ماحولیاتی معاہدے میں دوبارہ واپسی کا عہد بھی کیا ہے جس سے ان کے پیش رو ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کو الگ کرلیا تھا۔
مجوزہ ماحولیاتی سربراہی کانفرنس یوم ارض کے موقع پر 22 اپریل کو شروع ہوگی۔ یہ کانفرنس اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں آئندہ نومبر میں اقو ام متحدہ کی جانب سے ماحولیاتی تبدیلی پر ہونے والی میٹنگ سے قبل ہورہی ہے۔
واشنگٹن میں ہونے والی یہ کانفرنس کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے آن لائن منعقد کی جائے گی اور اسے عوام کے لیے براہ راست نشر کیا جائے گا۔
بائیڈن انتظامیہ کو امید ہے کہ اس فورم سے عالمی لیڈروں کو موقع ملے گا کہ وہ اس پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے اپنے اپنے ممالک کی جانب سے زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی سے متعلق سخت اہداف مقرر کرنے کا اعلان کریں گے۔
جن سربراہوں کو مدعوکیا گیا ہے ان میں سترہ ایسے ممالک شامل ہیں جو عالمی سطح پر زہریلی گیسوں کے 80 فیصد اخراج کے لیے ذمہ دار ہیں۔
فی الحال یہ واضح نہیں کہ جن ممالک کو دعوت دی گئی ہے وہ کیا جواب دیں گے، اور کیا وہ امریکا کے ساتھ دیگر امور پر جاری تنازعات کے درمیان زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی پر تعاون کریں گے یا نہیں۔ چین اس وقت زہریلی گیسوں کے اخراج کی فہرست میں اول نمبر پر، جب کہ امریکا دوسرے اور روس چوتھے نمبر پر ہے۔
بائیڈن انتظامیہ نے سابق امریکی وزیر خارجہ جان کیری کوماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے اپنا خصوصی سفیر مقرر کیا ہے اور وہ ماحولیاتی تبدیلی کے سلسلے میں یورپی یونین کے ساتھ تعاون کے سلسلے میں کوشش کررہے ہیں۔