لاہور (خصوصی انٹرویو) معروف سیاسی وسماجی رہنمائ، ایم اے جوزف فرانسس نے کہا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری اگر پنجاب سمیت پورے پاکستان میں پاکستان پیپلزپارٹی کو دوبارہ موثراور بحال کرنا چاہتے ہیں تو انہیں پارٹی کے وفادار، سنیئر ،مخلص ، اپنے نانا اور والدہ محترمہ کے قریبی ساتھیوں کو پارٹی میں دوبارہ لانا پڑے گا کیونکہ پیپلزپارٹی کو باہرسے نہیں اندر سے مفادپرست ٹولے نے زیادہ نقصان پہنچایا۔عوامی محبت کو دیے گئے ایک انٹرویو میںانہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو پارٹی کی تاریخ سے آگاہ ہوں گے کہ پیپلزپارٹی کو پنجاب اور خصوصاً لاہور میں مذہبی اقلیتوں کے ووٹ کے باعث ہمیشہ فتح ملی۔
اقلیتوں کے فیصلہ کن ووٹوں اور ہمدرد مسیحیوں کی حمایت سے لاہور پیپلزپارٹی کاقلعہ بنتا رہا۔اسی وجہ سے ضیاء الحق نے جداگانہ انتخابات کروائے کہ اقلیتیں پیپلزپارٹی کو ووٹ نہ دے سکیں۔حالانکہ پیپلزپارٹی اگر حکمت عملی سے کام لیتی تو لاہور میں معتدد ایسے علاقے ہیں جہاں اقلیتی امیدوار جنرل نشست سے کامیاب ہوسکتے ہیںمگر بدقسمتی سے مفادپرست ٹولے اور غیرساسی سوچ رکھنے والے افراد کو اقتدار کی کرسیاں دی گئیں جبکہ قربانیاں دینے والے ساتھیوں اور عام کارکنان کو نظرانداز کردیا گیا جس کے باعث عوام کا پیپلزپارٹی سے بھی اعتبار اٹھتا گیا۔اب اس اعتماد کو بحال کرنے کے لئے بلاول بھٹو کو بڑے کڑوے فیصلے کرنے پڑیں گے۔ناراض اور حقیقی ساتھیوں کو منانا ہوگا۔اقلیتوں کے تحفظات دور کرنے ہوں گے۔ہمیں خوشی ہے کہ بلاول بھٹو ملک میں مسیحی وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں مگرملکی آئین اس کی نفی کرتا ہے اس لئے آئین میں تبدیلی کی جانی چاہیے۔پی پی کی اپنی حکومت کے دوران اٹھارویں ترمیم نے پاکستان میں بسنے والی مذہبی اقلیتوں کو دیوار سے لگادیا ہے۔ ہماری نظر میں بلاول بھٹو کی قدرواحترام اسی وجہ سے ہے کہ وہ ذولفقار علی بھٹو کے نواسے اور محترمہ بے نظیربھٹو کے بیٹے ہیں۔ان سے بھلائی کی امید کی جاسکتی ہے۔ان کے جواں عزم جذبوں سے پیپلزپارٹی کے مخلص کارکن آج بھی باہرنکل سکتے ہیں۔اس کو عملی شکل دینے کے لئے ترقی پسندانہ رویوں اورمثبت سیاسی سوچ کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ہم ببانگ دہل یہ بات کرتے ہیں کہ فخرایشیاء ذوالفقار علی بھٹو کے بعدشہیدجمہوریت بے نظیر بھٹو جیسا کوئی معاملہ فہم اور سیاسی بصیرت کاحامل لیڈر ابھی تک پاکستان کو نہیں ملا۔موجودہ حکمران تو بادشاہوں کی طرح وطن عزیز میں بادشاہت قائم کرکے جمہوریت کو فٹبال بنانے والے آمریت سے بھی بدترین لوگ ہیں۔
عوام کا رزق ان سے دور کرکے اپنی تجوریوں کو ڈالرز اورپائونڈز سے بھر کرغریبوں کو پاکستانی سکے کی پہنچ سے دور کرنے والے کسی صورت بھی عوام کے خیرخواہ نہیں ہوسکتے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کے حالیہ ریمارکس کے بعد نوازشریف حق حکمرانی کھو چکے ہیں اب ان کا اقتدار میں ٹکے رہنا بلاجواز ہے اس لیے اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اقتدار سے الگ ہو جائیں۔خورشید شاہ کو فرینڈلی اپوزیشن کی بجائے عوامی خوشحالی اور پارٹی نظریات کے ساتھ حقیقی اپوزیشن لیڈر کاکردارادا کرنا چاہیے اور اس حوالے سے بلاول بھٹو سمیت تمام قیادت کو لوگوں میں یہ تاثر بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے کہ پیپلزپارٹی مسلم لیگ ن کو سپورٹ کرتی ہے۔اسی تاثر کے سبب کارکنان کوعلاقوں میں شدید تنقید کاسامنا ہے۔انہوں نے بتایاکہ ہم نے چاردہائیاں پیپلزپارٹی کا ساتھ دیا۔ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے ساتھ پارٹی کو بنانے، منشور پھیلانے،آرگنائز کرنے میںبنیادی کردارادا کیا۔ پارٹی کواپنی جوانی اور خون دیا،قیدوبند کی صعوبتیں اٹھائیں،بے شمار خدمات دیںمگراصول ونظریات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔
ہمیں پارٹی کی طرف سے کئی بار رابطے ہوئے ہیں مگر پہلے بلاول بھٹو کوپارٹی کے اندر اصلاحاتی تبدیلی لانا ہوگی۔کام کرنے والے ساتھیوں کو منانا ہوگا۔خوشامدی اور موقع پرست ،مفادات کی سیاست کرنے والے ٹولے کو پارٹی سے نکالنا ہوگا۔ہمیں بھی دکھ ہوتا ہے جب ذوالفقار علی بھٹو اور شہید بی بی کی نظریاتی پیپلزپارٹی کو آج مفاداتی لوگوں کی پیپلزپارٹی کی صورت میں دیکھتے ہیں۔بلاول بھٹو کی نوجوان قیادت پر وہی عوام دوبارہ اعتبار کرسکتے ہیں جنہوں نے پیپلزپارٹی کو ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بنایا تھا۔