بڑی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ سیاست دان اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عوام کو بار بار ایک ہی لفظ، نعرہ ہا وعدے کی بنیاد پر اپنی طرف مائل کرتے ہیں۔ذولفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت ذولفقار علی بھٹو کی بیٹی محترمہ بینظیر بھٹو نے سنبھالی اور پاکستانی عوام نے اس کو بہن تصور کر کے ایک بار الیکشن میں کامیاب کروا کے پاکستان کی اقتدار ان کے حوالے کر دی۔
18دسمبر1987ء کو حاکم علی زرداری کے صاحبزادے موجودہ صدر پاکستان آصف علی زرداری کے ساتھ شادی کر لی اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی نام کے ساتھ چالاکی کر کے خود کو آصف علی زرداری کی بیوی ظاہر کرنے کے بجائے لفظ بھٹو استعمال کر نے کو ترجیح دی جو ایک غلط بات تھی۔ ہمارے معاشرے میں ایسا کبھی بھی نہیں ہو ا ہے کہ شادی کے بعد عورت اپنی شوہر کی پہچان کے بجائے باپ کی پہچان کو ظاہرکرے۔ جب تب کنواری تھی اُس وقت تک بات بنتی ہے مگر شادی کے بعد شوہر کا گھر ہی اصل و حقیقی گھر ہوتی ہے۔
ہر کی پہچان و عزت ہی اصلی پہچان ہوتی ہے۔ آصف علی زرداری او ربے نظیر آصف زرداری لفظ بھٹو استعمال کر کے سیاسی چالاکی کی ہے۔ لفظ بھٹو استعمال کرنے سے عوام کی سوچ ذولفقار علی بھٹو جو پاکستان کی تاریخ میں عظیم سیاستدان و سب سے زیادہ ووٹ بنک رکھنے والا شخص ہے کی طرف مطمئن کرنا تھا ۔ 1977ء میں اپنے والد ذولفقار علی بھٹو کی حکومت سے علیحدگی کے بعد سیاست میں قدم رکھا تب بے نظیر بھٹو ہی اصل نام تھی کیونکہ ان کی شادی نہیں ہوئی تھی۔
لفظ بھٹو استعمال کر کے محترمہ بے نظیر آصف زرداری نے عوام سے1988ء میں کے الیکشن میں ذولفقار علی بھٹو کی سیاسی ووٹ حاصل کر کے پہلی بار 2دسمبر1988ء میں(اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم) اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عالیٰ عہدے کی کرسی تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی تھی۔ جو 6اگست 1990ء تک اس عہدے پر فائز تھی ۔ 1990ء کی انتخابات میں بھی لفظ بھٹو استعمال کر کے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئی اور جس دور میں پہلی بار میاں نواز شریف 1990ء تا 1993ء تک وزیر اعظم بنے محترمہ بے نظیر آصف زرداری قائد حزب اختلاف تھی ۔ نواز شریف کی حکومت ختم کر دی گئی تھ۔
ی تب الیکشن 1993 ء میں ایک بار پھر لفظ بھٹو استعمال کر کے بے نظیر زرداری نے بھاری اکثریت کے ساتھ 1993ء میں بھی وزیر اعظم بنے گئی تھی۔ پھر 1997ء کے عام انتخابات میں بھی بے نظیر آصف زرداری نے لفظ بھٹو استعمال کر کے رکن قومی اسمبلی بنے اور میاں نواز شریف وزیر اعظم بنے تھے۔ اس دور میں بھی حالات خراب ہوئے مشرف نے نواز شریف کی اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے اہم سیاسی رہنماؤں کے پاکستا ن سے باہر کر دیا جس میں بے نظیر آصف زرداری 4 اپریل 1999ء کو جلا وطن ہوئیں۔
Asif Ali Zardari
بے نظیر آصف زرداری صاحبہ 18اکتوبر 2007ء کو 8برس بعدایک بار پھر لفظ بھٹو استعمال کر کے اقتدار میں آنے کے لئے جلاوطنی کے بعد کراچی میں پہنچے۔ پاکستان کی غریب عوام لفظ بھٹو کی خاظر شاندار استقبال میں دور دراز سے بھی شریک ہو ئے تھے۔ اسی موقع ہر قاتلانہ حملے میں بال بال بچیں۔ 2 خود کش دھماکوںمیںپاکستان لرز اٹھاجس میں 150 سے زائد لفظ بھٹو کے دیوانے جان بحق اور 550 سے زائد زخمی بھی ہوئے تھے ۔ 7 گاڑیاں بھی تباہ ہوئیں۔
بعد ازاں محترمہ بے نظیر آصف زرداری نے سیاسی جلسوں کا باقاعدہ تیزی سے آ غاز کر دی ۔ جان کو کافی خطرہ تھا مگر بہادری کی وجہ حوصلہ شکنی اور ہمت ہار نے کے بجائے ثابت قدمی میں مقام پیدا کی اور آخر کار 27 دسمبر2007 ء کو لیاقت باغ میں جلسے سے خطاب کے بعد واپسی پر فائرنگ سے شہید ہوئیں۔ جس سے سارا پاکستان ہل گیا ملک کے تمام حالات خراب ہو گئیں۔
وقت سے صدر پرویز مشرف ، نگران وزیر اعظم محمد میاں سومرو و الیکشن کمیشن آف پاکستان نے الیکشن ملتوی کر کے 18 فروری کے رکھے جس میں لفظ بھٹو استعمال بہت استعمال ہو ا ۔پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے بھی اپنے نام کے ساتھ لفظ بھٹو استعمال کر کے پاکستان کی عوام کے سامنے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ رکھا اور ذولفقار بھٹو کی سیاست اور بے نظیر کی شہادت کے واسطے دیکر عوام کے زہنوں میں بی بی بے نظیر کی تازہ شہادت گونجتی رہی ہے۔
ایسے علاقوں میں پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار جیتنے میں کامیاب ہوئے جہاں ایک ووٹ کی امید بھی نہیں تھا۔ عوام نے لفظ ” بھٹو” کی خاطر پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو ووٹ دیا۔ لفظ بھٹو استعمال کر کے زرداری گروپ نے 93 سے زائد قومی اسمبلی کے نشستوں پر کامیابی کے ساتھ سید یوسف رضا گیلانی کو وزیر اعظم کا عہدہ دیا اور جو ساڑھے چا سال بعد نااہل قرار پائے ۔ پھر سب سے زیادہ کرپشن کرنے والے کو اس عہدے سے نوازا گیا ۔ راجہ پرویز اشرف نے وزارعت بجلی و پانی سے اربوں روپیہ کاکرپشن کر کے زرداری پیپلز پارٹی کی دل جیت لی تھی۔
اب ایک بار پھر ہمیشہ کی طرح زرداری خاندان لفظ ” بھٹو” استعمال کرنے کے لئے بھر پو ر تیا ر ہے۔ ہونے والے عام انتخابات میں آصف علی زرداری کے بیٹے بلاول زرداری کے نام کے پیچھے لفظ بھٹو استعمال کر کے عوام کو بے وقوف بنانے کی ایک ناپاک کوشش جاری ہے ۔ مجھے حیرت ہوتی ہے جب میں آصف علی زرداری نے اپنے بہن فریال حاکم زرداری کے تالپور خاندان میں شادی دیکر اپنی بہن کو فریال تالپور کے نام سے مشہور کیا ہے۔
Benazir Bhutto
دوسری بہن عزرا تالپور کو پیچوہا خاندان میں شادی کروا کر عزرا تالپور سے عزرا پیچوہا بنا دی مگر آصف علی زرداری نے محترمہ بے نظیر بھٹو سے شادی کر کے محترمہ بے نظیر بھٹو ہی کیوں رہنے دی ؟ آصف علی زرداری نے اپنی نسل کو بھی بھٹو کی نسل بنا دی ہے کیونکہ بلاول بھٹو ، بختاور بھٹو ، آصفہ بھٹو جو آصف علی زرداری اپنی قوم زرداری کی پہچان دینے میں کیوں نہیں دیتا ہے۔
عورت شاد ی (نکا ح) کے بعد تا موت اور کفن تک اپنے شوہر کا ہوتا ہے۔ اس کو شوہر کا گھر ، نام ، عزت اور شوہر کی پہچان سے پکارا جاتا ہے نہ کہ باپ کی پہچان دی جاتی ہے جیسا کہ زرداری صاحب نے اپنی بیوی محترمہ بے نظیر بھٹو کو ذولفقار علی بھٹو کا نا م دیکر لفظ ” بھٹو” استعمال کر کے سیاسی فائدہ اٹھایا ہے جو قابل افسوس ہے خاص طور پر ایک تعلیم یافتہ و نواب خاندان کے لئے۔
بحرحال اب بلاول زرداری کو لفظ بھٹو کے ساتھ پیش کرنا اپنی پہچان مٹانے کی مترادف ہے۔ بلاول زرداری نے بلاول بھٹو بنتا ہی نہیں مگر سیاسی فائدے کے لئے کوئی کچھ بھی کر سکتا ہے اس کی مثال بے نظیر زرداری صاحبہ نے دی ہے ۔ ایسی عظیم لیڈر کو زیب تو نہیں دیتا تھا ، اگر نا کرتی تو عظیم لیڈر نہیں بن سکتی تھی ۔ لفظ بھٹو” کو استعمال کرنا زرداری کی نہیں بلکہ بے نظیرزرداری عرف بی بی بھٹو کی غلطی ہے۔ جس سے فائدے کے بعد زرداری نے اور اب بلاول بھٹو فائدہ اٹھانے کی بھر پور کوشش میں ہے۔
پاکستان کی عوام اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ورکروںکو لفظ بھٹو” کا دیوانہ بنا گیا ہے ۔لفظ بھٹو” کی خاطر نہیں دیکھتے کی ایک دس سالہ سزا یافتہ چور ہے اس کو ملک کے عالیٰ عہدے بھی دی ہے۔ اس لفظ ھٹو” کی خاطر نا اہل حکمرانوں سے وقت پورا کر کے ایک بار پھر لفظ بھٹو کے زریعے تباہی پھیلانے کی پلاننگ مکمل کر چکے ہیں۔ بلاول یا زرداری نہ بھٹو تھے نہ ہیں اور نہ ہی بھٹو جیسا بنیں گے۔
بحرحال پاکستان کی عوام میں شعور آگئی کی ضرورت ہے کہ لفظ بھٹو” استعمال کر کے پاکستان کو لوٹنے والوں سے احتساب ضروری ہے۔ بلاول زرداری کی پہچان صرف اور صرف تاحیات زرداری ہی ہے کیونکہ زرداری کی نسل صرف زرداری ہوتا ہے نہ بھٹو۔