بعض ٹرکوں کے پیچھے کما ل کے شعر یا قول لکھے ہوتے ہیں جو ذہن کے دریچے کھول کر رکھ دیتے ہیں ایک ٹرک کے پیچھے لکھا تھا ”ہارن آہستہ بجائو قوم سورہی ہے”یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کسی کو انکارممکن نہیں اس قوم کے ساتھ گذشتہ نصف صدی سے جو کچھ ہو رہا ہے اس میں ڈکٹیٹر، رہبر، راہزن،افسر شاہی الغرض سب نے دل کھول کر بھرپور حصہ ڈالا اور اس قوم کی بدقسمتی کہ کسی کو اپنے ایسے فعل یا کردار پر رتی بھر شرمندہ نہیں ہے یوں لگتاہے ہم پاکستانی ایک ہجوم ِ نابالغاں ہیں جو ہر قسم کی سوچ یا احساس سے عاری دکھائی دیتے ہیں شاید غالب نے ہمارے بارے ہی کہا تھا۔۔
اک ہنگامے پر موقوف ہے گھر کی رونق شادیٔ سحر نہ سہی غم کا نوحہ ہی سہی
سقوط ِ ڈھاکہ کے نام پر ذلت آمیز شکست، پاکستان کے 90,000 فوجیوں کو جنگی قیدی بنانا، ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی، میاں نواز شریف کی جلاوطنی اور متعدد بار مارشل لاء کا آنا ہمارے وطن کے چہرے پر بدنما داغ کیا کم تھے کہ اب ،آئے روز بم دھماکے، خودکش حملے، اولیاء کرام کے مزارات، مساجد ،امام بارگاہوں، مختلف مذاہب کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنانا۔۔
فوجی تنصیبات پر حملے، بسوں سے مسافروں کواتارکر قتل کرنا، ٹرینوں کو راکٹ لانچروں سے اڑا دینا اور دیگر ایسے بیسیوں سانحے روز ہمارے سامنے رونما ہوتے ہیں ان نے ہر پاکستانی کا سکھ چین چھین لیا ہے اور تو۔۔۔ اور اداروں کا ٹکرائو، کرپشن، مہنگائی، بیروز گاری، لوڈ شیڈنگ، مذہبی منافرت، لسانی جھگڑے ، بھتہ خوری اور اقتصادی عدم توازن نے ملکی معیشت کو تباہ کر کے ر کھ دیا ہے۔۔
ظلم در طلم یہ ہے کہ حکومتی سطح پر قابل ِ ذکر اقدامات نہ ہونے کے برابر ہے یوں لگتا ہے کہ جیسے اس ملک میں حکمران پکنک منانے آتے ہیں او ر عوام کی بے بسی نے اقتدار کی قوتوںکو بے حس بنا دیا ہے شاید اسی لئے ”ہارن آہستہ بجائو قوم سورہی ہے”کا سلوگن ایک جیتی جاگتی حقیقت بن کر ہمارا منہ چڑارہا ہے۔۔
اسی بنا ء پر کوئی سیاسی پارٹی حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا نہیں کرتی جب مراعات کی بات ہوتی ہے محمود ایاز کا فرق مٹ جا تاہے ہر حکمران نے اقتدار کو بندر بانٹ کا ذریعہ سمجھ رکھا ہے۔۔
Asif Ali Zardari
صدر زرداری تو ایک NRO کے ذریعے سیاست میں فعال ہوئے تھے پھر ان کی پارٹی اکثریت میں نہیں تھی اسی لئے انہوں نے مقاہمتی پالیسی کے تحت اپنے اقتدار کی مدت پوری کرنے میں ہی اپنی عافیت جانی میاں نواز شریف کو کس بات کا ڈر ہے وہ بھی ہیوی مینڈیٹ ملنے کے باوجود کئی چھوٹی پارٹیوں سے بلیک میل ہوکر ان میں بھی وزارتیں بانٹ رہے ہیں اور مہنگائی کی ستائی، بھوک سے بلبلاتی غریب عوام کی کمائی پر وزیروں مشیروں کی فوج ظفر موج ہماری اقتصادی صورت ِ حال پر مونگ دل رہی ہے یعنی حبیب جالب کے مطابق
حالات وہی ہیں فقیروں کے دن بدلے ہیں فقط وزیروں کے ہر بلاول ہے دیس کا مقروض پائوں ننگے ہیں بے نظیروں کے
اور ہم عوام جن کی حیثیت کیڑے مکوڑے سے زیادہ نہیں جلنے ،کڑھنے کے سوا کچھ نہیں ۔۔۔ لیکن یہ سب کچھ زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا ہمیں اس صورت ِ حال سے نکلنے کیلئے کچھ نہ کچھ توکرنا چاہیے مل بیٹھ کر سب کو سو چنا ہوگا یہ دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے کہ جب تلک آپ خود انپی بہتری کیلئے کوشش نہیں کریں گے آپ کی قسمت نہیں بدل سکتی ورنہ جگہ جگہ لکھا ملے گا ”ہارن آہستہ بجائو قوم سورہی ہے” اور اس سلسلہ میں ایک کہاوت بڑی مشہور ہے ” جو سوتا ہے وہ کھوتا ہے” میرے ایک دوست تو کہا کرتے تھے درحقیت اصل میں جو سوتا ہے وہ کھوتا(گدھا) ہے۔۔ اور دیکھا جائے تو پاکستانی قوم کے پاس کھونے کو کچھ بھی نہیں ایک بات غور وفکر کی ہے کہ ناکامیاں ہمارا مقدر کیوں۔
ناکامیاں سمیٹ کر سارے جہان کی جب کچھ نہ بن سکا تو میرا دل بنا دیا ہم سب کو چاہیے کہ اجتماعی طاقت کو اپنا شعار بناکر اپنے حقوق کیلئے متحد ہو جائیں پاکستانی کی سلامتی،مسائل کے حل ، کرپشن ، ظلم اور اختیارات کے تجاوزکے خلاف آواز بلند کریں پر امن جدو جہد سے انقلاب لایا جا سکتا ہے اپنی اپنی سظح پر ہمیں غیر سیاسی ، غیر لسانی اور مذہبی منافرت سے بالاتر ہوکر کام کرنا ہوگا صرف ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کریں پاکستان کی بہتری کیلئے بھرپور جدوجہد کریں اگر آپ اس امتحان سے گذر گئے تو پھر ایک روشن مستقبل آپ کا منتظر ہوگا دنیا کے بہت سے ممالک میں عوامی مسائل کے حل کے لئے پریشر گروپ موجود ہیں اپوزیشن نے بھی شیڈو کابینہ بنا رکھی ہے جوحکومت کو ٹف ٹائم دیتی ہے۔
جبکہ حکومتی سطح پر بھی قومی امور، خارجی معاملات اور پبلک مسائل کے حل کیلئے تھنگ ٹینک مسلسل کام کرتے رہتے ہیں حکومتوں کے آنے جانے سے ان کی کارکردگی متاثر نہیں ہوتی پاکستان میں ان تمام امور کا رواج ہے نہ کوئی حکومت اتنی سر درد لینا گوارا کرتی ہے جبکہ اپوزیشن جماعتیں بھی صرف اپنے لئے آسودگیوںکی تلاش میں رہتی ہیں یہاں کسی بھی شعبے میں نام کی بھی منصوبہ بندی نہیں ایک محکمہ سڑک تعمیر کرتاہے تو اس کے چند دن بعد ہی دوسرا محکمہ یوٹیلٹی سروسز کیلئے اسے ادھیڑ کررکھ دیتاہے ہر سال کھربوں روپے کے ضیاع پر بھی کسی کے سر پر جوں تک نہیں رینگتی شاید مال ِ مفت ۔۔۔ دل ِبے رحم اسی کو کہتے ہیں ۔۔۔ سرکاری محکموںکی ایک دوسرے سے کوارڈی نیشن بہتر بنانے سے بھی معاملات بہتر ہو سکتے ہیں ترقیاتی کاموں کیلئے ان تمام اداروں ،محکموں اور کارپوریشنوں میں باہمی تبادلہ ٔ خیال ناگزیر ہے حکومتی وسائل کے ضیاع کو روکنے کیلئے اس کی بہت زیادہ اہمیت ، ضرورت اور وقت کا تقاضا ہے اس کے ساتھ ساتھ معاشی چکی میںپسے عوام موجودہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے متحمل نہیں ہیں حکمران عوام کی مشکلات کا احساس کرتے ہوئے ایسی پالیسیاں تیار کریں جس سے عوام کو ریلیف مل سکے۔