تحریر : سید توقیر زیدی فرزند راولپنڈی شیخ رشید اب بھی ویسی باتیں کر رہے ہیں جیسے پہلے پیشگوئی کے طور پر کرتے تھے۔ ستمبر کو ستمگر اور مارچ کو آخری مارچ قرار دیتے دیتے اب انہوں نے نئی تاریخ دے دی اور کہا ہے کہ 25 اپریل کے بعد اصل فلم چلے گی۔ وہ چبھتی بات کرنے کے عادی ہیں کہتے ہیں نوازشریف قسمت کے دھنی ہیں۔ بچ جاتے ہیں لیکن اپنے زور سے کچے گھڑے سے پھسل جاتے ہیں، ابھی تک تو ان کی خواہش پوری نہیں ہوئی اب تک بحران آتے اور ٹلتے رہے ہیں اور یہ بحران بھی بقول شخصے چائے کی پیالی میں طوفان ہے، تاہم ایک بات طے ہے کہ اس پانامہ لیکس نے کئی دریچے وا کئے ہیں، خود پاناما نے انکشاف کیا۔الزام نہیں دھرا، صرف تفصیل بتائی کہ کس کا کیا ہے۔ اس میں وزیراعظم کے حوالے سے جو کچھ بھی ہے وہ پہلی بار منظر عام پر نہیں آیا یہ الزام پہلے بھی لگتے رہے۔
اب بھی دو چار دن کے ہنگامے کے بعد کوئی اور مسئلہ مل جائے گا تو الیکٹرک میڈیا ادھر مصروف ہو جائے گا، ویسے اس بحران نے کئی جاری معاملات اوجھل کر دیئیّ کسی کو بلدیاتی ادارے یاد نہیں، مصطفی کمال کی پارٹی اور ان کی سرگرمیوں کو کوئی نہیں پوچھتا، ایم کیو ایم نے کراچی کے دونوں ضمنی انتخابات جیت لئے کچھ نہیں بنا، پنجاب میں آپریشن جاری ہے، کارروائی بہتر انداز میں آگے بڑھ رہی ہے۔ تنازعہ نہیں اور نہ ہی اب ادھر زیادہ توجہ ہے سندھ رینجرز کے ڈی جی کہتے ہیں کراچی آپریشن کے لئے اجازت ہے جو جاری ہے اگر حکومت اندرون سندھ کے لئے کہے تو وہاں بھی ہو سکتا ہے، ایسے میں شیخ رشید پھر اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہیں تو دوسری طرف بلاول بھٹو زرداری بھی جمہوریت کے تحفظ کا اعلان کر رہے ہیں وہ کہتے ہیں جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیا جائے گا شاید اسی پالیسی کی وجہ سے سید خورشید شاہ نے قومی اسمبلی میں فرینڈلی نہیں، مثبت اپوزیشن کا کردار سنبھال لیا اور ان کے اور عمران خان کے مطالبے میں فرق ہے اگرچہ الزام کی نوعیت مختلف نہیں۔
Khawaja Asif
دوسری طرف خواجہ آصف اور دوسرے وزراء پورا دفاع کرکے تحقیقاتی کمیشن پر اصرار کر رہے ہیں اور سب الزامات کو غلط قرار دے کر جوابی وار کر رہے ہیں، کیا یہ دلچسپ نہیں کہ وزیراعظم نے تحقیقاتی کمیشن بنانے کا اعلان کرکے خود کو احتساب کے لئے پیش کیا تو عمران خان نے بھی علی الاعلان خود کو پیش کیا اور کہا کہ بنی گالہ کی تحقیقات بھی کرا لی جائے، سب متفق تو پھر احتساب بل کس نے روکا ہوا ہے؟ جہاں بلاول بھٹو زرداری نے اپنے والد والی پالیسی دہرائی وہاں ان کو شائد پہلی بار یہ احساس ہوا ہوگا کہ سندھ میں واقعی سب اچھا نہیں کہ خود ان کی جماعت کے اراکین اسمبلی نے کہا، وہ خاصے برہم ہیں اسی لئے وزیراعلیٰ ہاؤس میں کھلی کچہریوں کا اعلان کر دیا ہے۔
قارئین! یہاں سب اپنی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں، کسی کو کسی سے اس کو کسی اور سے اور اسے خود اپنے سے خطرہ محسوس ہوتا ہے، یہ سب ہونے کے باوجود جمہوری طرز عمل کا سہارا نہیں لیا جاتا، پارلیمنٹ پر بھروسہ نہیں، دلیل سے کام نہیں، لٹھ مار دی جاتی ہے، مذاکراتی دروازے بند، امریکہ، چین تو اتحادی اور دوست ہیں اور ان سے تو بات ہوتی ہی رہتی ہے ،لیکن ہم تو بھارت سے بھی بات کے لئے تیار اور کوشش کرتے ہیں لیکن آپس میں ”سوتنوں” والا رویہ ہے، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ جمہوریت کا نام نہ لو، جمہوری عمل کرو اور دلیل سے بات کرو، دوسرے حکومت کو عمران خان کی نئی بات کو دھمکی قرار دے کر نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اگر ڈی چوک میں مجمع ہزار، ڈیڑھ ہزار ہو تو مذاکرات کے بعد جان چھوٹتی ہے تو عمران خان کو روکنے سے حالات خراب ہی ہوں گے ، اس لئے پارلیمانی ڈائیلاگ کا تسلسل برقرار رکھیں اور جاری کریں کہ یہی جمہوریت ہے۔