تحریر : ایم آر ملک یہ تو ہونا تھا زرداری کے خلاف 22ہزار تصدیق شدہ دستاویزات کی موجودگی میں خورشید شاہ اور شریفوں کامقرر کردہ چیئرمین نیب بے شک جانبداری دکھاتا لیکن محب وطن حلقوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ناممکن تھا اُس روز زرادری کی نیب عدالت سے 16سال بعد بریت کو عوامی اذہان نے کسی طرح قبول نہیں کیا تاہم اس بریت نے عوامی حلقوں میں ایک نئی بحث چھیڑ دی۔
عوام اس بریت پر اس سوال سے بھی نہ نکل پا ئے کہ یہ مک مکا کا پیش خیمہ ہے عوامی خد شات کو ہم تقویت کی اس نہج پر دیکھ رہے ہیں جہاں سارے عذر ،جواز اور دلائل دم توڑ دیتے ہیں بالفرض زرداری کے پیروکار اس مفاداتی ٹولے کی بات کو مان لیا جائے کہ ہماری لیڈر شپ کے خلاف تمام مقد مات سیاست کی غلام گردشوں کا نتیجہ ہیں جو سیف الرحمان کی انتقامی تفتیش کے پیٹ سے برآمد ہوئے تو کیا لندن فلیٹس کی طرح 300ایکڑ پر کھڑے90لاکھ ڈالرکے راک ووڈ ہائوس کے نام سے سرے محل کا وجود کوئی حقیقت ہے یا افسانہ ؟ کیا ہم 1999کو اس محل کی بابت ہونے والی برطانیہ میں اُس عدالتی جنگ سے بھی انکار کرسکتے ہیں؟ جس میں ایک تعمیراتی کمپنی نے دعویٰ کیا کہ اس نے ہزاروں ڈالر کا کام سرے محل میں کیا جس کا مقصدمحض تزئین و آرائش تھا اس کمپنی نے یہ الزام تک عائد کیاکہ زرداری نے یہ کام اپنے ایک ایجنٹ کے توسط سے کرایا لیکن وہ ادائیگی سے انکاری ہو گئے ایک انگلش صحافی ایسٹر لاسن نے اپنی ایک رپورٹ شائع کی کہ ”گزشتہ برسوں میں سیاست دانوں کے خلاف کرپشن کے الزامات میں بہت شدت آئی ہے ان الزامات میں ایک بڑا الزام سرے محل کی خریداری کا ہے۔
لوگوں کو اس بات پر حیرت ہے کروڑوں افراد پاکستان میں ایک کمرے کی چھت سے محروم ہیں جبکہ عوام کی خدمت کا پرچار کرنے والے سیاست دان نہ صرف کرپشن کے ذریعے دولت کمانے میں مصروف ہیں بلکہ بیرون ملک جائدادیں بھی خریدتے ہیں سرے محل بھی سیاست دانوں کے سیاہ کارناموں میں سے ایک ہے۔
تب لاسن نے تعمیراتی کمپنی کے مالک پاک کیٹنگ کے حوالے سے لکھا کہ ”تزئین و آرائش کے کام پر 3لاکھ ڈالر سے زیادہ اخراجات آئے اور اس کام کیلئے بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے ایک ایجنٹ نے اس کمپنی کی خدمات حاصل کی تھیں محل کے داخلی حصے میں نہایت قیمتی پودے لگائے گئے جبکہ ایک بہت بڑا پارکنگ ایریا بھی بنایا گیا اس محل میں بیس کشادہ کمرے ہیں دو فارم اور اُن سے منسلک راہائش گاہیں اور سٹاف کے رہائشی حصے ہیں پال نے اس کی تزئین و آرائش 9برسوں میں مکمل کی تب اس کی مالیت ایک کروڑ ڈالر تک جاپہنچی پال کا بل ادا کرنے پر کوئی بھی آمادہ نہ ہوا حتیٰ کی ذمہ داری تک قبول کرنے سے انکار کردیا گیا اس کا کہنا تھا کہ بل ادا کرنے کی ذمہ داری آصف علی زرداری کی ہے جو اس کی ملکیت تک سے انکاری رہا جبکہ 1990کے آغاز میں ایک کمپنی رومینا پراپرٹیز نے یہ محل آصف علی زرداری کیلئے خریدا اس کمپنی نے شیئر ہولڈرز کو تب رجسٹرڈ اس لئے نہیں کیا تھا کہ ملکیت کو اس طرح چھپایا نہیں جاسکتا تب پال کیٹنگ نے میڈیا کو محل کے مختلف حصے دکھائے۔
اٹلی کے تزئین و آرائش کے ماہر سے ایک میز تیار کرائی جس کی قیمت تب 1لاکھ 20ہزار ڈالر تھی پال نے یہ بھی انکشاف کیا کہ زرداری کے بیڈ روم میں چھت اس انداز سے بنائی گئی ہے کہ رات میں آسمان کا تاروں بھرا منظر نظر آتا ہے اس میں لگائی گئی روشنیاں یوں جگمگ کرتی ہیں جیسے رات کو آسماں پر تارے جگمگ کرتے ہیں گرفتاری سے قبل زرداری نے چار مرتبہ اس محل میں قیام کیا زرداری کے ایجنٹ کانام جاوید پاشا تھا جسے سب جانتے ہیں جو فلمی گانوں کے ویڈیو چینل ایف ایم 100کا مالک ہے راک ووڈ کے قریب بروک گائوں کے باسیوں کی زبان پر ایک طویل عرصہ تک اس محل کا چرچا رہا تب ااس گائوں کے ایک شراب خانے ڈاگ اینڈ پیزنٹ کے مالک کرس مورس نے کہا تھا کہ تیسری دنیا کے باسی انتائی ابتر زندگی گزارتے ہیں لیکن ان کے عوامی نمائندے یورپ کی عیاش گاہوں میں زندگی بسر کرتے ہیں۔
کروڑوں عوام کے سامنے جمہوریت کے مصنوعی کردار کی وضاحت سامنے آرہی ہے ایک لے پالک چیئرمین نیب جو ضیائی سیاہ دور آمریت سے کرپشن کے ریکارڈ قائم کرتا چلا آرہا ہے کے چیئرمین نیب بننے کے بعد ریاست کے اندر کالا دھن وسیع پیمانے پر سرایت کر گیا زرداری ،شریف اقتدار کے مفاہمتی ادوار میں وطن عزیز کی معیشت کا انحصار کالی معیشت پر رہا یہ لوٹ مار کی کالی معیشت نہ صرف یورپ کے انتہائی مہنگے ترین علاقوں میں 300ایکڑ پر پھیلے سرے محل ،مے فیئر فلیٹس خریدنے کا سبب بنی بلکہ سوئٹزر لیند اکائنٹس ،21ممالک میں کاروباری صنعتی ایمپائر قائم کرنے میں بھی کام آئی اس لوٹ مار کی دولت کاکردار ریاست میں سیاست ،صحافت ،اور ہر ایسے شعبے میں سرایت کرکے ایک ایسے طبقے کو جنم دینے کا باعث بنا جوزرداری ،شریف کے کالے دھن کا تحفظ کرنے میں ہراول ہے یہ دولت ایسے کاروباروں میں بھی صرف ہو رہی ہے جن میں جرم شامل ہوتا ہے۔
یہ آزاد عدلیہ کے فیصلے سے ہی ممکن ہو سکا کہ نیب کا ادارہ اپنے ہی فیصلہ کے خلاف ہائیکورٹ کی دہلیز پر جاکھڑا ہوا 36برس سے اقتدار پر قابض خاندان کے خلاف آنے والاعدالت عظمیٰ کافیصلہ ایک ایسے نظام کے خاتمے کی عکاسی کرتا ہے جو اپنی مقررہ مدت گزار کر ایک اندھی گلی میں پہنچ چکا ہے۔
زرداری کے حواری جتنی چاہیں بغلیں بجائیں پیپلز پارٹی اصلی بھٹوز کی پارٹی ہے اس کے وارث فاطمہ بھٹو اور ذوالفقار جونیئر ہی ہوں گے ایک بلوچ کو جعلی بھٹو بنا کر پارٹی پر مسلط نہیں کیا جا سکتا۔