صاحبو! شو تو فلم اسٹار دیکھاتے ہیں مگر کیا پیپلز پارٹی اور فلم شوز میں کچھ فرق ہے؟ اگر ہے تو کوئی ہمیں بتائے کیا فرق ہے۔ویسے تو مسلم لیگ( ق) بھی شو کیا کرتی ہے مگر ان کا شو صرف چند ڈھولک بجانے والوں تک ہوتا ہے دور داراز سے آئے ہوئے لوگوں کے علاوہ قریب کے لوگ ڈھولک کی آواز سن کر آ جاتے ہیں کہ دیکھیں کیا ہو رہا ہے اور شو مکمل ہو جاتاہے۔ شو تو نیا پاکستان والے بھی دیکھا تے ہیں اور ڈھائی ماہ سے اسلام آباد میں ہر شام کو دیکھا رہے ہیں۔
ہلکا پھلکا شور تو انقلاب والے بھی دیکھاتے رہے ہیں جو اب بے نتیجہ ختم ہو گیا ہے ۔مذہبی جماعتوں کو چھوڑ کر سب سیاسی جماعتیں شو دیکھاتی ہیں مگر پیپلز پارٹی کا شو تو ہمیشہ نرالا ہی ہوتا ہے۔سندھی ڈانس، بلوچی ڈ انس، مکرانی ڈانس،پنجابی بھنگڑا، خٹک ڈانس بلکہ اس دفعہ تو بوتل ڈانس بھی دکھایا گیا۔ ان ڈانسوں میں مرد اور خواتین شامل تھیں ۔ دوسری خواتین ہی کیا اس میں شرمیلا فاروقی صاحبہ بذات خود شریک تھیں۔یہ تو شکر ہے کہ بھٹو خاندان کی خواتین اس میں شریک نہ تھیں ورنہ مخالفوں کی طرف سے جاری کردہ پرانی رپورٹوں میں یہ ڈانسوں والی ساری داستانیں موجود ہیں۔پرانی بات ہے پنجاب سے کچھ رشتہ دار ملنے کراچی آئے تو ہم انہیں سمندر دکھانے کلفٹن سے برستہ بلاول ہاوس جارے تھے تو ان کی نظر بلاول ہاوس کی دیوار پر پڑی۔ ٢٠ فٹ اونچے بھٹو خاندان کے بنے پوٹریٹ پر ہمارے رشتہ داروں کی نظر پڑی تو بے ساختہ کہا کہ یہ کوئی سینما گھر ہے؟ ہم نے کہا نہیں جناب! یہ پیپلز پارٹی کے ہمارے حکمرانوں کے قد آور پوٹریٹ ہیں۔
جب لوگ سمندر دیکھنے آئیں تو ساتھ ہی ساتھ اپنے حکمرانوں کو بھی دیکھ لیں۔ صاحبو! یہ بھی تو ایک قسم کا شو ہی تھا۔چلو اگر شو کی بات ہوتی تو چل بھی جاتی اور ہضم بھی ہو جاتی کہ اس سے پاکستان کے عوام کو گھر بیٹھے سستی تفریح ملی، یہاں تو اخباری رپورٹوں کے مطابق حکومت سندھ نے اس شو پر دل کھول کر خرچ کیا جو عوام کے ساتھ ظلم ہے۔انتظامات پر بلدیہ کراچی نے ١٠ کروڑ خرچ کئے،کھانے کی ڈیوٹی شرقی کے ڈپٹی کمشنر کی لگائی گئی تھی۔ پولیس کی گاڑیوں پر سوار جیالوں کی تصویرں اخبارات نے لگائیں جس میں پٹرول پاکستان کے عوام کے ٹیکسوں سے خریدا جاتا ہے۔بیرون شہر سے آنیولو اں کو ٢ سے ٣ ہزار فی کس ادائیگیاں کی گئیں۔
Pakistan
علاقائی قیادت اور متوقع امیدوارو ںنے ہدف پورا کرنے کے لیے لاکھوں لٹا دیے۔کراچی کی سیر اور ٢ ہزار روپے نقد دیے گئے۔ امیدوارکیوں نہ خرچ کرتے پیپلز پارٹی ہی کیا پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا کلچر ہے کہ لاکھ لگائو کروڑ کمائو۔ اس شو کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ نوجوانوں کی حفاظت کے لیے اندرون سندھ سے خواتین کا حفاظتی دستہ تیار کر کے جلسہ گاہ میں لایا گیا تھا جسے ٹی وی اسکرین پر جیم بانڈ کی طرح بار بار ایکشن میں دھکایا جا رہا تھا۔ بلاول بھٹو زرداری کی حفاظت کے لیے فریال تالپور کی نگرانی میںیہ خصوصی دستہ اندرون سندھ سے نوجوان خواتین پر مشتمل سیکورٹی اسکواڈ تیار کیا گیا تھا۔ پولیس کی ملازم اس دستے کی ہیڈ سے ٹی وی والوں سوال کیا آپ توگورنمنٹ کی ملازم ہو کر اس دستے کی کمانڈ کر رہی ہیں تو اس نے فخریا کہا ہم نے اپنے قائد کی حفاظت کرنی ہے۔
یہ اسکواڈ ایک جانب لیبیا کے سابق رہنما کرنل معمر القذافی کی سیکورٹی کی یاد تازہ کر رہا تھا تو دوسری جانب خواتین کا یہ خصوصی دستہ ذالفقار علی بھٹو کے دور میں قائم کی گئی ایف ایس ایف کی بھی یاد دلاتا ہے۔ بلاول صاحب نے یہ بھی کہا ہم ڈرنے والے نہیں۔ تو کیا بلاول صاحب خواتین کا سیکورٹی والا دستہ صرف لوگوں کو ڈرانے کے لیے بنایا گیا ہے۔ آپ تو بے نظیر مرحومہ والے بم اور بلٹ پروف ٹرک میں بیٹھے ہوئے ہو ذرا ہمت کر کے سیکورٹی کے ٹرک سے باہر آتے تو آپ کی بات ماننے کے قابل اور مناسب بھی ہوتی۔ کیا تضاد ہے ہمارے ہونے والے بہادر وزیر اعظم میں! وفاقی حکومت نے مک مکا کی پالیسی کے تحت پاکستان پیپلز پارٹی کے جیالوں کو پاکستان ریلویز کی جانب سے مسافر ٹرینیں فراہم کیں۔
بلوچستان اور پنجاب کی حکومتوں نے ٹرا نسپورٹ کے ساتھ ساتھ اپنے سرکاری ملازمین اور غریب ہاریوں کو خاندان کے سمیت کراچی کے جلسے میں ان کی موجودگی کو یقینی بنایا۔ ایک دوسری بات کہ پیپلز پارٹی کے جلسوں کی روایات قائم رہی اور ٢ معمر افراد جان کی بازی ہار گئے۔عمر کوٹ کا رہاشی دل کا دورہ پڑنے سے چل بسا اور ایک جیالے کی لاش گرین بیلٹ سے ملی اللہ ان کی مغفرت کرے آمین۔بلاول زرداری نے سب پارٹیوں پر تنقید کی۔
ایم کیوایم کے لیے کہا گیا کہ اس پارٹی نے ٢٠ سال کراچی پر حکومت کی مگر کراچی کے حالات خراب سے خراب تر ہوتے گئے۔ کراچی لینڈ مافیا کا گڑھ، پاکستان کے دشمنوں کا،آمریت کے بجاریوں کا،سیاسی اور عدالتی مافایا کا گڑھ بن گیا۔ عدالت نے چوہدری اسلم اور ان جیسے پولیس افسران کی ترقی ختم کر دی اور تمام پولیس افسر ان کوہٹا د دیا گیاجو دہشت گردوں کی لیے خوف کی علامت تھے۔ شفاف الیکشن ہوئے تو کراچی آزاد ہو جائے
گا۔ اس پر ایک بار پھراحتجاج کرتے ہوئے ایم کیو ایم نے یہ کہتے ہوئے پیپلز پارٹی کا ساتھ چھوڑ دیا کہ ٤٣ سال سے سندھ پر حکومت کر کے عوام کو کیا ڈیلور کیا یہ نورا کشتی نظر آتی ہے۔ دیکھیں ایم کیو ایم حکومت میںپھر کب شامل ہوتے ہیں یہ تو ان کی پرانی روش ہے۔ ویسے بلی تھیلے سے باہر آگئی اور ایم کیو ایم نے سندھ کی تقسیم کا بھی اعلان کر دیا اور کہا مہاجر صوبہ بن کر رہے گا ۔جبکہ بلاول زرداری کہتے ہیں مرسو مرسو سندھ نہ ڈیسو۔ مر جائیں گے سندھ کو تقسیم نہیں ہونے دیں گے۔ نواز شریف صاحب کا مینڈیٹ جعلی ہے۔
زرداری صاحب نے کہا حکومت کے ساتھ نہیں ہیں جمہوریت کے ساتھ ہیں۔ایسی ہی مبہم سپورٹ نواز شریف صاحب بھی کیاکرتے تھے تو لوگ فرنڈلی اپوزیشن کا الزام لگاتے تھے۔ ادھر سعد رفیق صاحب نے بھی اپنی پارٹی کا دفاع کیا اور کہا مرتضی بھٹو اور خواجہ رفیق یعنی ان کو والد کا قتل پیپلز پارٹی کے دور میں ہو۔ہم نے کام کیا اور پنجاب کی حالت بدلی جبکہ سندھ کے شہروں میں خاک اڑتی ہے۔ بلاول صاحب نے کہا دھرنوں کا اسکرپٹ لکھنے والے پاکستان کو عراق اور شام بنانا چاہتے ہیں۔عمران خان پنجاب کی ایم کیو ایم بننا چاہتے ہیںاس پر عمران خان صاحب نے کہا کہ پہلے اپنے والد اور چچا نواز کے اثاثے ڈکلیئر کردیں لیڈر مان لوں گا۔لکیریں ڈالنے سے گدھا زیبرا نہیں بن جاتالیڈر آگ کی بھٹی سے گزر کر بنتا ہے شارٹ کٹ سے نہیں ۔پی پی نے ہماری نقل کی کوشش کی۔ جلسے میں زبردستی لوگوں کو لایا گیا بلاول بچہ ہے اس کا جواب نہیں دوں گا۔
پیپلز پارٹی نے ہمارے تمام جلسوں سے زیادہ پیسہ خرچ کیا۔ بلاول صاحب نے دہشت گردوں کے مقابلے کی بات کی۔ پاکستان میں پہلی دہشت گرد تنظیم” الذالفقار” پیپلز پارٹی نے ہی بنائی تھی جس نے پاکستان کا جہاز اغوا کیا تھا پاکستان کے دشمن بھارت سے مدد مانگی تھی۔ گیلانی صاحب نے میں بلاول کو مستقبل کا وزیر اعظم کہا۔ ظاہر ہے اپنا وزیر اعظم کا بدلہ تو چکانہ ہے چاہے تقریر کے ذریعے ہی ہو۔خورشید شاہ صاحب نے کہا انقلاب دھرنوں سے نہیں آتے بے شک اب صرف فلم شوز سے انقلاب آئے گا جو پیپلز پارٹی پچھلے کئی دور حکومتوں میں نہ لا سکی۔ اللہ کے بندوں لوگوں کو کب تک بیوقوف بناتے رہو گے۔اعتزاز احسن نے خوب کہا کہ ٥٠ سال کے بوڑھے ہٹ جائیں اور نوجوانوں کو آگے لایا جائے ظاہر ہے بلاول نوجوان ہے
Zulfiqar Ali Bhutto
اس کو ایسا ہی مشورہ دے کر اس کے دل میں جگہ بن سکتی ہے کیونکہ پیپلز پارٹی میں بھٹو خاندان کی وفاداری سے ہی جگہ بن سکتی ہے ٹیلینٹ کی بنیاد پر نہیں ۔ورنہ ذوالفقار علی بھٹو اپنے پرانے ساتھیوں کو پیپلز پارٹی سے نہ نکالتے یا وہ نہ نکلتے جو واقعی ٹیلینٹڈ تھے۔اس وقت ہمیں مبشر حسن،جے اے رحیم اور پیپلز پارٹی کے پرانے لوگ یاد آگئے۔رضا ربانی صاحب نے کہا کہ نواز شریف سے نج کاری پر جنگ ہوگی۔ وہ بھول گئے بھٹو صاحب نے پاکستان میںنجکاری شروع کی تھی۔ رضا صاحب پہلے زرداری صاحب سے معلوم کر لیا کرو جنہوں نے نواز شریف صاحب سے مک مکا کیا ہوا ہے۔ ١٩٧٣ء کے اسلامی آئین کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس کو سب نے مانا حتیٰ کی مولانا مودودی نے بھی۔یہ ٹھیک ہے مگر پیپلز پارٹی کے دور میں اس پر عمل کیا گیا
اورنہ نواز لیگ کے دور میں اس پر عمل کیا گیا۔ اس پر اسلامی حکومت ہی عمل کر سکتی ہے کوئی فلم شور کرنے والوں نہیں کر سکتے۔ اسی دن سندھ میں کندھ کوٹ کے مقام پر ایک بڑے جلسے میںخطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے لیڈروں نے کہا کہ سیاسی مداریوں کا دور ختم اور خوشحالی کا دور شروع ہونے والا ہے۔سراج ا لحق صاحب امیر جماعت اسلامی نے کہا ظالمانہ نظام کے خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔کرپشن پر قابو پا لیا جائے تو قرضوں کی ضرورت نہیں پڑے گی۔حکمرانوں کی ناہلی کی وجہ سے جمہوریت خطرے میں ہے۔ مسائل کے حل کے لیے مسلح جدو جہد کی ضرورت نہیں۔ انشا ء اللہ سندھ تقسیم ہو گا نہ پاکستان۔
قارئین١نہ تو پیپلز پارٹی اور نہ ہی مسلم لیگ (ن) نے پاکستان کے حالات بدلے جبکہ دونوں کو کئی بار اقتدار ملا۔ اب نیا پاکستان اور انقلاب والے بھی کچھ واضح پروگرام نہ دے سکے بلکہ انقلاب والے بستر گول کر کے چل دیے۔ڈھائی ماہ سے ذیادہ ہو گیا تبدیلی کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔ قوم کی نظریں جماعت اسلامی کے فقیر مشن ا میر جناب سراج الحق ،جس نے خیبرپختونخواہ کی سینئر وزیر کی پوسٹ سے استعفیٰ دے کر پاکستان کے کونے کونے میں پھر کر صدا لگا رہا ہے کہ پاکستانیوں آئو میرا ساتھ دو میں اس ملک کی تقدیر بدل سکتا ہوں۔ میرے پاس ایمانداروں، نڈر اور کرپشن سے پاک لیڈر شپ موجود ہے۔ دیکھیں قوم کیا فیصلہ کرتی ہے۔