مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی دو حریف اور الیکشن میں ایک دوسرے کے مدمقابل جماعتیں ہیں،کبھی بھی ایک دوسرے کے حق میں اچھی نہیں رہی اور اگر کبھی کوئی لمحہ ساتھ جڑے رہنے کا آیا بھی تو”اغراض نے ان کو جوڑ رکھا” والی بات ہوئی،ورنہ ایک دوسرے سے مخلص کبھی بھی نہیں رہی ،ایک دوسرے کوگرانا،پر سنگ باری اور مخالفت معمول کی بات ہے،جس میں ان دونوں جماعتوں میں سے کوئی جماعت بھی ایک دوسرے سے پیچھے نہ ہے،جس کا جس حد تک دائو لگا،اس نے اتنا ہی دوسرے کو نقصان پہنچایا،ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے ، شدید ترین مخالفت اوردونوں اطراف سے اشتعال انگیز تقریریں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں،سب پر پوری طرح عیاں ہے کہ زرداری و شہباز کے ایک دوسرے کے بارے خیالات وتاثرات کیا ہیںاور سیاسی کھینچا تانی کا سلسلہ کس حد تک دراز ہے،کون کس کا کتنا وفادار اور کون کس سے کتنا مخلص،کچھ بھی ڈھکا چھپا نہیں ہے،ان سب باتوں کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت رہی ہے کہ ان دونوں جماعتوں کے دروازے اپنے اپنے مفادات اور اغراض کے لیے ایک دوسرے پر ہمیشہ کھلے رہے ہیںمگر یہ بات بھی اپنی جگہ ٹھیک ہے کہ بن کبھی نہیں پائی،اس کی وجہ ایک دوسرے پر اعتماد کا فقدان اورسیاسی چپقلش ہے۔
کوئی بھی جماعت ایک دوسرے پر اعتبار کرو کی پالیسی پر کبھی کاربند نہیں رہی۔پیپلزپارٹی کا ہمیشہ سے ہی یہی موقف رہا جس کا اظہار گاہے بگاہے میڈیا پر بھی ہوا کہ میاں برادران مطلب کے ہیں،مطلب نکلتے ہی ہاتھ کھینچ لیتے ہیںجبکہ ن لیگ والوں کو ہمیشہ یہی گلہ رہا کہ پیپلزپارٹی والے سیاسی گیمر زہیںان کی پرخلوص دعوت پر ہربار ان سے ہاتھ کرجاتے،پچ کے دونوں اطراف کھیلتے ہیں،عین بیچ دوراہے پر آکر چھوڑجاتے،کبھی بھی لائق تحسین کردار ادا نہیں کیا۔تمام گلے شکوے اپنی جگہ بجاء مگر حقیقت یہی ہے کہ دونوں پارٹیز ایک دوسرے کے حق میں اچھی نہ رہی ہیں اگر کبھی جڑی بھی رہی تواغراض نے ان کو جوڑ رکھا والی بات ہی ہوئی۔
دونوں جماعتیں کبھی بھی ایک دوسرے سے مخلص ہوکر نہیں چلی اور نہ ہی چل سکتے ہیں، اس لیے کہ دونوں جماعتیں ہی ایک دوسرے کے خلاف اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچے ہوئے ہے۔آصف علی زرداری سیاست کی راہداریوں میں موجود میاں برادران کے ہی خلاف ہیں،وہ ہمیشہ ہی میاں برادران کے ساتھ چل کر ان کی کمزوریوں سے کھیل کر ان کے ساتھ ہونے کا ناٹک رچا کر خود پیچھے اور دوسروں کو آگے لگا کر گیم کرتے ہیںاور وہ سیاسی اہداف جو حاصل کرنا چاہتے ہیں ،کرلیتے ہیں،لیکن جب اس کا فائدہ ن لیگ والوں کو پہنچنے کی طرف صورتحال آجائے توہمیشہ کی طرح کوئی یوٹرن یا ہاتھ کھینچ لیتے ہیںکہ دیکھنے والا بس دیکھتا ہی رہ جاتا ہے اور بازی کوئی دوسرا لے جاتا ہے، جس میں نقصان ن لیگ کا اور فائدہ پی پی پی کا ہوتا ہے،جس کا انعام ان سے بعد میں مل جائے گاجن کے لیے یہ سب کچھ کرتے ہیں۔آصف زرداری بہت شاطر قسم کے سیاستدان ہیں،دوسروں کے لیے مہرے کا کردار ادا کرتے ہیں۔
اکثر اپنے مہرے بھی بمطابق وقت وضرورت ٹھیک ٹھیک استعمال کرتے،ا نتہائی گھاگ انداز اپنائے مخالف کو ایسے چت کرتے کہ اسے اپنے ہارنے کا احساس بھی نہیں ہونے دیتے ،آنا فانا سیاسی پانسہ پلٹ دیتے ،جب تک دوسرے کو اس کا احساس ہوتا ہے ،گیم اس کے ہاتھ سے تب تک نکل چکی ہوتی،ایسے چالاک و ذہین سیاستدان، جو ایسی صلاحیتوں کے مالک ہوتے ،کم کم ہی پائے جاتے ہیں۔کبھی کسی کے لیے مہرے کاکردار اور کبھی خود کسی کے لیے مہرہ کا کردار اتنا احسن طریقے سے نبھاتے کہ انہیں داد دئیے بغیر رہا نہیں جا سکتا۔آصف زرداری کبھی بھی میاں برادران کا خیر خواہ نہ تھا،نہ ہے اور نہ رہے گا،مفاہمت اور تعاون کی آڑ میں جتنا نقصان میاں برادران کو زرداری نے پہنچایا ہے ،کوئی دوسرا نہیں پہنچاسکتاتھا،میری ناقص رائے کے مطابق صحیح بات تو یہ ہے کہ آصف علی زرداری ہی وہ شخص ہے جو مدد اور ساتھ دینے کی کوششوںمیںبلا کر اور ہمدردیاں سمیٹ کر میاں برادران کی کمزوریوں کو بھانپ کر ان کا فائدہ اٹھاکران کو اس حال تک پہنچانے کا موجب بنا ہے،کوئی مانے یا نہ مانے مگر حقیقت یہی ہے۔
اسی طرح نوازشریف کی صورتحال بھی یہ ہے کہ جب وہ برسراقتدار ہوتے ہیں توپھر اقتدار اور اختیار کے نشے میں دھت ہوئے انہیں کچھ دکھائی نہیں دیتا،دشمن کوتو رگیدتے ہی ہیں ،اپنے محسنوں پر بھی سنگ باری کرنے اور ان سے منہ موڑنے سے باز نہیں آتے۔اقتدار پر فائض ہوکر تکبر ورعونت کے ساتھ دشمن کو للکارے،اپنوں کو بھی تختہ مشق بنائے ،جو اچھی کھری بات کرتے ان کی محبت میں، کوسانپ بچھو بنانے پر تل جاتے ہیں اور جو، ان کی فطرت سے واقف ،ان کے سامنے خوشامد اور چاپلوسی کا مظاہرہ کرتے ،انہیں ”بڑالیڈر” شو کرتے اور قدم بڑھائو نوازشریف ہم تمھارے ساتھ کا نعرہ لگا کرافراد اور اداروں سے ٹکرانے اور ملک کے کاز کے خلاف بیان بازی کا مشورہ دیتے اور بلے بلے میرے شیر نواز کہتے نہیں تھکتے،بلاشبہ پس پردہ جڑیں ہی کاٹ رہے ہو،ان کے مرنے اور کفن دفن کا پورا سامان تیار کیے بیٹھے ہو،کواپنی ”عقل مندی”سے اپنا ہمدرد سمجھ بیٹھتے،بے وقت ،غیر مناسب حالات میں دوسروں پر اندھا دھند اعتبار کرکے اپنی نیا، اپنے ہی ہاتھوں ڈبونے کے فن سے بخوبی واقف بلکہ ماہر کاریگر کی طرح اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں سے ڈبو دینے کی حد تک قابلیت رکھتے۔ساتھ دینے والے مداری حالات خراب کرکے ،ان کی نیا ڈبو کر ،اپنا مقصد حاصل کیے نودو گیارہ ہوجاتے ،انہیں یہ پوچھنے کے لیے کہ مجھے کیوں نکالا یامیرے ساتھ ایسا کیوں کر رہے؟ کے لیے چھوڑ دیتے۔
ان کی بے بسی ،لاچارگی ،پتلی صورتحال پر بعدازاں انہی کے ہی ساتھی چوہدری عبدالغفور، کی طرح کھی کھی کرتے ہنستے ،چند لمحے پہلے نوزشریف کے گیت گاتے،کچھ دیر بعد NA136 پر پارٹی ٹکٹ نہ ملنے پر غصے سے تلماتے چہرے کے ہمراہ تحریک انصاف کے جلسے میں آکر ان کے canidate کی حمایت کرتے ہوئے ”مودی کا جو یار ہے ،غدار ہے” کے نعرے بلند کر دیتے ،ایسے بیشمار لوگ اب بھی موجود،جو نوازشریف کے گرد ،ان کو اب بھی ہمدردی کے نام پر گھیرے ہوئے ہیںاور اس برے وقت میں بھی ان کی”مت” مارے ہوئے جیل میں بھی ان کا سکھ چین چھینے ہوئے انہیں سکون سے رہنے نہیں دے رہے،انہیں اپنا علاج کروالو،فائدہ اس میں،نہیں سمجھا پار ہے۔
نواز کی عقل پر بندھ باندھے ن لیگ اور میاں برادران دونوں کے لیے قبریں کھود رہے ہیں،جن کا احساس شاید ہی ان کو خوشامدیوں کے جھمگٹے میں ہورہا ہو،اکثر مخالفین پر سنگ باری کرکے نقصان اٹھاتے مگر اتنا نقصان دوسروں سے نہیں اٹھاتے ،جتنا خود اپنی ہی حماقتوں سے خود ہی اپنے پیروں پر کلہاڑی مار کے اٹھالیتے، اکثر خسارے کا سفر ہی طے کرتے،تمام تر بلندیوں پر ہونے کے باوجود بھی اپنی بے وقوفیوں،خوشامدی آدمیوں کی بیٹھک کے دلدادہ ہونے اور واہ واہ سننے کی خواہش میں ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر جاتے اور پھر روتے ،چیختے چلاتے ،مگر پھر اس” آواز تلخ”کو سننے والا کوئی نہ ملتااور کچھ باقی نہ رہ جاتا،حسرتوں اور ناکامیوں کے علاوہ ایک عبرت کی جا کے طور پر ،مفاد پرستوں ،خوشامدیوں کے جھرمٹ میں گھرے ہوئے ، وہ امید بھی دم توڑ جاتی ،جو کارگر ثابت ہوجائے۔اکثراپنی ہی نالائقییوں سے اس مقام کو دیکھ لیتے اور پھر پچھتاتے،اب کیا ہوت جب چڑیاں چگ جائیں کھیت۔اکثر ایک دوسرے کے ساتھ اغراض کے لیے جڑے ہوتے،آپس میں مخلص ہرگز نہیں ہوتے۔
آصف علی زرداری کے لخت جگر بلاول بھٹو ،جو کل تک اپنے جلسوں میں نواز شریف کو علی الاعلان ”مودی کا جو یار ہے ،غدار ہے، مودی کے یار کو ایک دھکا اور دو،ان گرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکا اور دو” کہتا تھا ،آج زرداری اور اپنے آپ کو مشکل میں پائے ،مختلف اغراض کی لالچوں بھری ایک بھاری بھرپوٹلی اٹھائے پاکستان کے تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے” مقبول لیڈر”نوازشریف سے جیل میں ان کی بیمار پرسی کے بہانے ملاقات کرنے کا خواہش مند ہے،ایک ایسے وقت میں کہ جب نیب کی تلوار پوری طرح ان پر لٹک رہی اور جعلی بنک اکائونٹس کی حقیقت ساری دنیا پرکھ چکی اور فیصلہ آیا ہی چاہتا، اپنے بچائو کے لیے نواز شریف کو” تیرے لیے بھی کچھ کریں گے” کی امید جگا ،لارا دلا کر اپنی ڈوبتی کشتی کو بیچ منجھدار ڈوبنے اور اپنی برسوں کی کمائی ماں باپ نانادادا کی عزت کو نیلام ہونے سے بچانے کے لیے اور عوام کی نظروں میں رسوا ہونے سے بچنے کے لیے ،اپنے مفادات کی تکمیل کے حصول کی کوششوں میں مصروف عمل ،مدد اور تعاون کے لیے خود مصیبتوں میں پھنسے نواز شریف کے آگے سجدہ ریز ہوئے پڑے ہیں،دیکھیں کہ بلاول نواز ملاقات کیا رنگ لاتی ہے۔