تحریر: سید انور محمود نواز شریف کی حکومت میں اقتدار یا تو اُن کے خاندان میں بٹا ہوا ہے یا صرف چند قریبی دوستوں میں، اتفاق سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے پاس کوئی بھی معاشی ماہر موجود نہیں ہے اور نہ ہی یہ جماعتیں اس کی ضرورت محسوس کرتی ہیں۔ ان کا اقتدار میں آنے کا مقصد صرف اور صرف اپنے اثاثے بڑھانا ہوتا ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار جو نواز شریف کے سمدھی بھی ہیں پیشے کے حساب سے ایک چیف اکاونٹنٹ ہیں، نواز شریف کے گزشتہ دور میں بھی وہ ایک ناکام وزیر خزانہ رہ چکے ہیں، لیکن اُن کی تعریف یہ ہے کہ وہ کشکول کا حجم بڑا کرنے میں ماہر ہیں۔ اُنہیں ڈالروں سے عشق ہے ایک زمانے میں اُنہیں اسحاق ڈالر کے نام سے بھی پکاراجاتا رہا ہے۔ اپنے بیٹے کو کاروبار کرنے کے لیے 40 لاکھ ڈالراُدھار دیئے اور اب جب اُس نے پاکستان میں کاروبار کا ارادہ کیا تو اُسے یہ کہہ کر منع کردیا کہ جب تک میں پاکستانی سیاست میں موجود ہوں تم پاکستان میں کاروبار نہیں کروگے۔ جون 2013ء میں نواز شریف کے تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کے بعد سے اب تک تین بجٹ آچکے ہیں اور تینوں ہی اسحق ڈار نے پیش کیے ہیں۔ ان بجٹوں سے غربت اور مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے اور عوام کا معیار زندگی گرا ہے۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے 4 اکتوبر 2015ء کوایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 20 ارب ڈالر سے تجاوز کرگئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے سے ایک نیا ریکارڈ قائم ہوا ہے اور پہلی دفعہ ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں اور یہ مسلم لیگ(ن) کی حکومت کی پالیسیوں کی بدولت ہوا ہے۔ واضح رہے کہ عالمی اقتصادی نظام کچھ اس انداز سے مرتب کیا گیا ہے کہ کسی ملک کی اقتصادی حالت کا اندازہ بنیادی طور پر اس کے خزانے میں زرمبادلہ کے ذخائر کی مالیت سے لگایا جاتا ہے۔ وزیر خزانہ کے دعوے کے مطابق زرمبادلہ کے ذخائر ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان بیرونی قرضہ جات کی ادائیگی کے لیے محفوظ پوزیشن میں ہے۔ان ذخائر سے وطن عزیز کو درآمدات کی ادائیگی میں بھی سہولت مل سکتی ہے۔ لیکن اس حوالے سے اہم سوال یہ ہے کہ ڈالروں کے اس انبار سے ملک کے عوام اور خاص کر غربت یا غربت کی سطح سے نیچے رہنے والے 60 فیصد لوگوں کو کیا فائدہ پہنچے گا؟
IMF and Pakistan
گزشتہ ڈھائی سال سے وزیرخزانہ اسحاق ڈار کی صرف ایک ہی کوشش رہی ہے کہ کسی بھی طرح زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کیا جائے۔ اس مرتبہ بھی نواز لیگ نے اقتدار میں آتے ہی آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹایا اور طویل مذاکرات کے بعد آئی ایم ایف پاکستان کو مزید 6.6 ارب ڈالر کا قرضہ دینے پر رضامند ہوا ہے۔ یہ قرضہ پہلے سے زیادہ شرح سود پر اور زیادہ سخت شرائط پر پاکستان کو ملا ہے،جس میں اولین شرط ریاستی اخراجات اور ذمہ داریوں میں کمی ہے۔ یعنی حکومت عوام کو دی جانے والی سبسڈی کا مکمل خاتمہ کرے اور ریاستی اداروں کی نجکاری کاعمل تیز کرے۔ جب حکومت ان شراط پر قرضے حاصل کرے گی تو اس کا اثر عام زندگی پر پڑے گا۔ عام آدمی کےلیے بجلی کا بل بھرنا کسقدر دشوار ہے اس کا حکومت کو قطعی احساس نہیں۔ ریاستی اداروں کی نجکاری کے سلسلے میں آئی ایم ایف پاکستان مشن کے سربراہ ہیرلڈ فنگر نے واشنگٹن سے ایک ویڈیو کانفرنس میں بتایا کہ حکومت پاکستان اس سال دسمبر تک پی آئی اے کی نجکاری کردے گی، پاکستان اسٹیل کی نجکاری مارچ 2016ء تک کرنے کا پروگرام طے ہے،بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری بھی ہونی ہے،نجکاری سے اُن کی کارکردگی بہتر ہوگی۔ (کراچی کے عوام ‘کے ای ایس سی ‘ کی نجکاری کے بعد سے”کے الیکٹرک” کی کارکردگی سے کس قدر پریشان ہیں یہ کراچی کے عوام ہی جانتے ہیں)۔
حکومت پاکستان نے پانچ سو ملین ڈالر مالیت کے دس سالہ مدت کے بانڈز کا اجراء کیا ہے جن پر8.25 فیصد کی شرح سے بھاری منافع ادا کیا جائے گا، جس کے بارے میں کہا جارہا کہ آئندہ نسلیں بھی سود چکاتی رہیں گی۔ گزشتہ سال اپریل میں بھی پانچ سو ملین ڈالر کے دس سالہ مدت کے بانڈز کا اسی شرح منافع یعنی 8.25 فیصد پر اجراء کیا جا چکا ہے۔ بانڈز قرض حاصل کرنے کا ہی ایک طریقہ ہے جس میں خریدار کو ایک مقررہ شرح سے ششماہی بنیادوں پر منافع جسے کوپن انٹرسٹ ریٹ کہا جاتا ہے ادا کیا جاتا ہے۔ مقررہ معیاد کے بعد بانڈ کے تحویل کنندہ کو بانڈ کی اصل رقم ادا کی جاتی ہے۔ سادہ انداز میں دیکھا جائے تو یہ بھی ایک مقررہ شرح منافع/سود پر قرض لینے کا ایک طریقہ ہے۔ گزشتہ برس سری لنکا نے جنوری اور اپریل 2014ء میں پانچ سالہ مدت کیلئے بالترتیب 500 ملین ڈالر 5.125 فیصد اور ایک ارب ڈالر کے بانڈز 6 فیصد شرح سود پر جاری کرکے ڈیڑھ ارب روپے اکٹھے کیے۔ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ ہمارے ہی خطے کا ایک چھوٹا ملک پانچ سو ملین ڈالر کا قرض 5.125 فیصد شرح پر حاصل کرتا ہے جبکہ ہمارے ماہر ترین وزیر خزانہ نے یہی رقم 8.25 فیصد پر کیوں حاصل کرتے ہیں ۔
Unemployed
نوبیل انعام یافتہ بھارتی پروفیسر امرتیا سین اور پاکستانی ماہر اقتصادیات ڈاکٹر محبوب الحق نے 1990ء میں یہ نظریہ پیش کیا کہ کسی ملک کی ترقی ماپنے کا فارمولا کل قومی پیداوار و آمدنی دیکھنے کے بجائے یہ ہونا چاہیے کہ ایک عام شہری قومی دولت و ترقی میں کتنا حصہ دار ہے۔ دو اکتوبر 2015ء کے روزنامہ جنگ میں ساگرسہندڑو کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 19کروڑ 80لاکھ سے زائدآبادی میں سے پندرہ لاکھ سے زائد پڑھے لکھے جب کہ مجموعی طور پر 30لاکھ 58 ہزار لوگ بے روزگاری کی مصیبت سے دو چار ہیں۔ پاکستان بیورو برائے شماریات کی جانب سے نیشنل اکنامک کونسل کے اجلاس میں وزیر اعظم نواز شریف کو دی گئی ایک بریفنگ کے مطابق مالی سال 2015ء میں ملک کے اندر بے روزگار افراد کی تعداد گزشتہ 13 سالوں کے دوران ریکارڈ سطح پر پہنچی جس کے بعد پڑھے لکھے پاکستانی بے روزگاروں کی تعداد پندرہ لاکھ ہوگئی ہے۔ ملک کے پڑھے لکھے افراد جہاں ایک طرف بے روزگاری جیسے مسائل سے دو چار ہیں وہیں وہ ملک میں بڑھتی کرپشن، بدامنی، میرٹ کے قتل عام اور لاقانونیت سے بھی تنگ آ چکے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کے پڑھے لکھے اور متوسط طبقے کے نوجوان بیرون ملک جانے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار ہمیں بتارہے ہیں کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ زرمبادلہ کے ذخائر نے 20 ارب ڈالر کی سطح عبور کی ہے اور یہ مسلم لیگ(ن) کی حکومت کی پالیسیوں کی بدولت ہی ہوا ہے۔ یقیناً یہ مسلم لیگ(ن) کے کشکول کو بڑا کرنے کی پالیسی کا ہی نتیجہ ہے۔ گزشتہ سال صدر مملکت ممنون حسین کا کہنا تھا کہ ابھی یہ حکومت تین سال اور قرضے کےلیےکشکول لےکر پھرے گی، ساتھ ہی صدر کا کہناتھا کہ “قرضے ہمارے لیے افیون کا نشہ بن چکے ہیں۔ اس افیون کی عادت ختم کرنے کےلئے مزید افیون کھانا پڑ رہی ہے”۔ سال 2008ء میں ہر پاکستانی شہری 37 ہزار روپے کا مقروض تھا۔ اس وقت سے لے کر اب تک اس رقم میں 64 ہزار روپے سے زیادہ کا اضافہ ہوچکا ہے اور ہر پاکستانی ایک لاکھ روپے سے زیادہ کا مقروض ہے۔ پیپلز پارٹی قرض کو بڑھاکر 66 ارب ڈالر پر لے آئی تھی، جبکہ نوازحکومت نے اُس میں تیزی سے اضافہ کیا اورپاکستانی ریاست اس سال کے شروع میں تقریباً 80 ارب ڈالر سے زائد کےبیرونی قرضوں میں جکڑی جا چکی تھی۔ اگر اندرونی قرضوں کو بھی شامل کیا جائے تو پاکستانی ریاست کے کل قرضے 120 ارب ڈالر سے تجاوز کر جاتے ہیں۔
Ishaq Dollar Afoon
وزیر خزانہ اسحاق ڈار بہت خوش ہیں کہ غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر نے 20 ارب ڈالر کی سطح عبور کرلی ہے اور پاکستان اقتصادی ترقی کررہا ہے۔ وزیر خزانہ شاید یہ بتاتے ہوئے شرماتے ہیں کہ اُن کی حکومت کے ڈھائی سالہ دورمیں غیرملکی قرضے کتنے بڑھے ہیں اور عوام کی مشکلات میں کس قدر اضافہ ہوا ہے۔ غیرملکی قرضے یا بھیک ابھی تک پاکستانی عوام کی مشکلات بڑھاتے رہے ہیں، یہ عام آدمی کے کسی کام کے نہیں اور اس کے نتیجے میں آنے والی نسلیں بھی مشکلات کا شکار ہوں گی ۔ عالمی بنک نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے اقتصادی ترقی کے جھوٹ کا پول کھول دیا ہے، عالمی بنک نے کہا ہے کہ سارک ممالک میں پاکستان کی اقتصادی ترقی کی شرح شرمناک حد تک کم ہے۔ رواں سال پاکستان کی اقتصادی ترقی کی شرح 4 اعشاریہ 2 فیصد رہی جبکہ بھارت کی اقتصادی ترقی کی شرح سات اعشاریہ 5 فیصد، بنگلہ دیش 6 اعشاریہ 5 فیصد، بھوٹان 6 اعشاریہ سات اور سری لنکا کی پانچ اعشاریہ تین فیصد رہی ہے۔ اقتصادی ترقی میں بھارت، بھوٹان، سری لنکا، بنگلہ دیش آگے جبکہ پاکستان سب سے پیچھے رہ گیا ہے۔
پاکستان بنیادی طور پر جن عالمی مالیاتی اداروں کا مقروض ہے اُن کا ہمیشہ سے مطالبہ غریب کش اور امرا نواز پالیسیوں کا نفاذ رہا ہے۔ اگر حکمراں چاہیں تو اپنے اثاثے بڑھانے کی جگہ پاکستان اور پاکستانی عوام کےلیے سوچیں تو یہ بھیک کا پیالہ ٹوٹ سکتا ہے۔ لیکن ایسا ہوگا نہیں کیونکہ ان حالات میں اس کے لیے ملک کے تمام وسائل کو استعمال کیا جائے، صرف ٹیکس کا نظام ٹھیک کرلیا جائے تو شاید آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرروت نہ پڑے مگر جہاں اسمبلی کے ممبران اور حکمران ہی ٹیکس ادا نہ کرتے ہوں وہاں یہ سب دیوانے کی بڑ ہے۔ تاہم معروف تجزیہ کاروں کا ایک نجی ٹی وی چینل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستان کی معاشی بدحالی میں ہی نوازشریف اور اسحاق ڈار کی معاشی ترقی پنہاں ہے۔ ڈھائی سال پہلے گیارہ مئی 2013ء کو جو شریف آپ نے منتخب کیا اور اُس شریف نے آپ کے لیے جو وزیر خزانہ چنا تھااگلے ڈھائی سال میں وہ غیرملکی قرضے کو کہاں پہنچاتا ہے اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ۔ملکی خزانے میں 20 ارب ڈالرآنے کے باوجود عوام بدحال ہیں۔ کیا نصیب پایا ہے اس بدنصیب پاکستانی قوم نےکہ اس کا صدر قوم کو بتاتا ہے ہم ملکی اور غیر ملکی قرضے کی افیون کھانے کےعادی ہیں، اور افیون کھانے والے کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ کبھی بھی افیون کھانا نہیں چھوڑتا ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نےغیر ملکی قرضے حاصل کرکے جو 20 ارب ڈالر کے ذخائر جمع کیے ہیں وہ دراصل پاکستانی قوم کےلیے افیون کے ذخائر میں اضافہ ہے اور جو حکومت اپنی قوم کو افیون کھلائے وہ قوم کی ہمدرد نہیں دشمن کہلانی چاہیے۔