تحریر : سید توقیر زیدی وزیر اعظم نے گزشتہ روز پاک چائنہ اکنامک کا ریڈور کے حوالے سے نمائش کا افتتاح کیا اور بتایا کہ 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے ملک کی تقدیر بدل جائے گی، سی پیک سے چاروں صوبے مستفید ہوں گے اور اقتصادی سرگرمیوں میں بہت اضافہ ہو گا، ایسا ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مخالف تحریک کا مقابلہ مثبت انداز تعمیر سے کیا جائے گا، اس لئے ان تحریکوں کو اہمیت بھی نہیں دی جا رہی، البتہ وزیر اعظم ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے روائتی جلسے بھی کرتے رہیں گے کہ اس ذریعے سے عوامی حمائت کا تاثر دیا جائے گا۔
وزیر اعظم نے ذاتی دلچسپی لے کرتنازعہ کشمیر کے حل کے لئے مہم شروع کردی اور اس تنازعہ کو عالمی سطح پھر بھی اجاگر کرنے کے لئے عوامی نمائندوں کو بیرونی ممالک میں بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے، بائیس اراکین اسمبلی چن لئے گئے تھے تاہم اپوزیشن کی طرف سے اعتراض اور ایوان کی طرف سے شکوہ کیا گیا کہ گروپ میں سب کی نمائندگی نہیں، خود سپیکر ایاز صادق نے حالات کا جائیزہ لے کر قومی اسمبلی کے مزید اراکین کے نام بھجوائے ہیں اور یہ اطلاعات موصول پر رہی ہیں کہ زیادہ نمائندہ بنانے کے لئے مزید اراکین کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے اور امکانی طور پر یہ تعداد 40 ہو سکتی ہے، ان حضرات کو دفتر خارجہ اور وزارت امور کشمیر کی طرف سے باقاعدہ بریفننگ بھی دی جائے گی کہ عالمی سطح پر کیس پیش کر سکیں۔
مقبوضہ کشمیر کی اندرونی صورت حال کے بعد اب حکومت کی تازہ حکمت عملی نے بھارتی حکومت کو پریشان کردیا ہے اور اس کی طرف سے کہا جارہا ہے کہ تنازعہ کشمیر معاہدہ لاہور اور شملہ کے تحت دو طرفہ تعلقات اور مذاکرات کا تنازعہ ہے اسے بین الاقوامی سطح پر نہیں لے جانا چاہیے،اس بیان سے اور کچھ ہوا یا نہیں ،بھارت نے ایک مرتبہ پھر کشمیر کو متنازعہ تسلیم کرلیا ہے، پاکستان کی طرف سے تنازعہ کشمیر سمیت تمام امور پر مذاکرات کی دعوت بھی دی جارہی ہے لیکن بھارت نے انکار کیا اب عالمی سطح پر مقبوضہ کشمیر میں حالیہ مظالم کی روشنی میں تنازعہ اجاگر کر نے کا فیصلہ کیا تو معاہدے یاد آگئے ہیں، بھارت کے اپنے مطابق صورت حال یہ ہے تو اسے مذاکرات کے لئے میز پر آنا چاہیے۔
Altaf Hussain Speech
الطاف حسین کی طرف سے خود کش تقریر کے رد عمل میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے اور اب تو ایم،کیو،ایم پاکستان کی طرف سے ان سے لاتعلقی کو آئینی شکل دینے کی تیاری کی جارہی ہے، اطلاعات کے مطابق ایم، کیو،ایم کا آئین جس میں پانی الطاف حسین کو ویٹو پاور حاصل ہے کسی کے بھی پاس نہیں یہ لندن میں محفوظ ہے، حتیٰ کہ متحدہ قومی موومنٹ کی رجسٹریشن کے لئے جو آئین الیکن کمیشن میں جمع کرایا گیا اس میں ایسی کوئی شق موجود ہی نہیں ہے، اس کے باوجود ڈاکٹر فاروق ستارنے دو روز تک آئینی ماہرین سے مشاورت کی اور یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ اسی آئین کی بعض شقوں میں تبدیلی کرکے الطاف حسین کے کردار کو حتمی طور پر ختم کردیا جائے اور ترمیم شدہ آئین الیکشن کمیشن میں جمع کرایا جائے، یہ سب اس لئے کیا جارہا ہے کہ ابھی تک ڈاکٹر فاروق ستار ایم، کیو،ایم سے علیحدگی کے معاملے میں عوام اور ملکی سطح پر کسی کو قائل نہیں کر سکے۔
تاحال بھی شکوک کا اظہار کیا جارہا ہے جیسے مصطفی کمال نے الزام لگایا ہے کہ الطاف حسین اور ڈاکٹر فاروق ستار کے درمیان ”میچ فکسڈ” ہے، ڈاکٹر فاروق ستار بھرپور کوشش کررہے ہیں کہ وہ علیحدگی کو حتمی باور کراسکیں کہ اسی صورت میں ان کے اس مطالبے کی پذیرائی ہو سکتی ہے کہ ایم کیو ایم کو کام کرنے دیا جائے تو عمل سے بھی ثابت کر دیا جائے گا کہ یہ علیحدگی حتمی ہے۔ ابھی تک پاکستان مخالف بیان یا تقریر کی مذمت نہیں کی گئی قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے اگرچہ براہ راست غیر یقینی کی بات تو نہیں کی تاہم انہوں نے دس روز تک سب کھل جائے اور پتہ لگ جائے گا والی بات کہہ کر شک ہی کا اظہار کیا ہے۔
بعض حلقوں کی طرف سے بجا طور پر اس شک یا شبے کا اظہار کیا گیا ہے کہ ڈاکٹر فاروق ستار جماعت کوبچانے کی تگ و دو کررہے ہیں، اسی حوالے سے مصطفی کمال اور عمران خان وغیرہ کہہ رہے ہیں کہ ڈاکٹر فاروق ستار کو کھل کر بات کرنا چاہیے وہ دوغلی پالیسی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ یہ ایک حد تک درست بھی ہو سکتا ہے کہ پورے کا پورا ڈھانچہ جوں کا توں موجود ہو، ماسوا ان لوگوں کے جو خود چھوڑ گئے۔ اس کے باوجود کہا جائے کہ علیحدگی ہو گئی ہے۔ مشکوک ہی لگتا ہے۔ اس حوالے سے بہت کچھ کہا اور لکھا جا رہا ہے۔
Farooq Sattar
ہمیں پھر وہ دور یاد آ رہا ہے، جب ایم کیو ایم میں پہلی بغاوت ہوئی اور یہ بدر اقبال اور ان کے ساتھیوں نے کی تھی۔ ایم کیو ایم یعنی قائد کے ڈیتھ سکواڈ نے ان کا پیچھا شروع کر دیا تھا اور یہ لوگ روپوش ہو گئے تھے۔ یہ تو یاد نہیں کہ سابق صوبائی وزیر بدر اقبال کا کیا بناء کہ اس بغاوت کے بعد ان کے بارے میں ایک اطلاع ملک سے باہر چلے جانے اور دوسری قتل کئے جانے کی تھی۔
بہرحال یہاں لاہور میں بہت پراسرار طریقے سے الطاف کے تین مفروروں سے ہم تین اخبار نویسوں کی ملاقات کرائی گئی تھی۔ حافظ غلام محی الدین کی رہائش پر کوٹھی کی اینکسی میں زیادہ گفتگو اس وقت کے ایک سیکٹر کمانڈر یونس خان نے کی اور تسلیم کیا تھا کہ الطاف حسین کے حکم پر مخالفوں کو ٹھکانے لگایا جاتا اور بوری بند نعشیں انہی کے ڈیتھ سکواڈ کا کارنامہ ہے۔ یونس خان (معلوم نہیں اب کہاں ہیں؟) کا کہنا تھا کہ الطاف حسین نے پنجابیوں اور پٹھانوں کے خلاف لڑایا اور اب خود اس سے فرار حاصل کر رہے ہیں، اس وقت یونس خان کی کہی باتیں اب ثابت ہو رہی ہیں۔ حتیٰ کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ ایم کیو ایم کا اصل سربراہ کون تو انہوں نے اس وقت کے ایک بڑے شخص کا نام لیا تھا، وہ آج بھی سیاسی بیانات دیتے ہیں۔