اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) اسٹیٹ بینک نے روپے کی بے قدری روکنے کے لیے 3 ماہ کے دوران انٹربینک مارکیٹ میں 1.2 ارب ڈالر داخل کے مگر اس کا یہ اقدام کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکا اور روپے کی قدر تاریخ کی کم ترین سطح تک گر گئی۔
روپے کی تاریخی بے قدری ظاہر کرتی ہے کہ ساختی معاشی نقائص کو دور کیے بغیر توسیعی پالیسیوں کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ ایکسچینج مارکیٹ میں 1.2ارب انجیکٹ کرنے کا اقدام اسٹیٹ بینک، آئی ایم ایف اور وزارت خزانہ تینوں کی بیان کردہ پالیسیوں کے برخلاف ہے کیوں کہ تینوں کا دعویٰ ہے کہ روپے کی قدر کا تعین مارکیٹ کی قوتیں کرتی ہیں۔
حکومتی ذرائع نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ جون کے وسط سے رواں ماہ کے پہلے ہفتے تک مرکزی بینک نے اپنے ذخائر میں سے 1.2ارب ڈالر مارکیٹ میں داخل کیے ہیں۔ ایک ہی دن میں سب سے زیادہ 10 کروڑ ڈالر جولائی میں اور پھر ایک دن میں ساڑھے 8کروڑ ڈالر اگست میں مارکیٹ کو دیے گئے۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے مارکیٹ میں ڈالر فراہم کرنے کے عمل کی وزارت خزانہ اور خود مرکزی بینک نے بھی تردید نہیں کی۔ اس سوال کے جواب میں کہ آیا اسٹیٹ بینک نے یہ قدم وزارت خزانہ کی رضامندی سے اٹھایا تھا۔
وزارت خزانہ نے کہا کہ فارن ایکسچینج مکمل طور پر اسٹیٹ بینک کی ذمے داری ہے اور فنانس ڈویژن اس میں مداخلت نہیں کرتا۔
اسٹیٹ بینک کی جانب سے مارکیٹ میں 1.2ارب ڈالر فراہم کرنے کے باوجود روپیہ 168.94 روپے کی تاریخی سطح تک گرگیا۔ رواں مالی سال کے آغاز سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 11.51 روپے یا 7.28 فیصد کی کمی آچکی ہے۔