تحریر: آصف لانگو جعفر آبادی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم کے معاون خصوصی، کالم نویس اور تجزیہ نگار عرفان صدیقی نے اپنے پریس کانفرنس اسٹیٹمنٹ میں کہا ہے کہ حکومت دھرنوں کے مسئلے کو مذاکرات کے زریعے حل کرنا چا ہتی ہے دھرنوں سے پاکستان کو 600ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔کالم نویس عرفان صدیقی کا بات بالکل درست ہے۔
اس وقت ملک میں سیاسی افر تفری کی وجہ سے ملک کی سیاست، معیشت اور معاشرت پر بھی افر تفری پھیل چکی ہے۔ پوری قوم سمیت میڈیا اور حکمران اتحادی واپوزیشن سب کے سب حیران و پریشان ہیں کہ یہ ہو کیا رہا ہے ؟ تاریخ سیاست میں اس طرح مشترکہ ضد نہیں اپنا یا گیا ہے۔ عمران و قادری کی ضد ہے وزیر اعظم کو ہٹا نا ہے اور وزیراعظم جماعت ن لیگ، اتحادیوں سمیت سب کا ایک موقف مگر برعکس موقف ہے کہ وزیر اعظم کو بچانا ہے۔ اس وقت ہٹانے اور بچانے کی سیاست ابھر چکی ہے۔ عمران خان کی ملک گیر اجتماعی جلسوں کا آ غاز ہو چکا ہے ۔ لاہور میں کامیابی کے بعد پاڑٹی اہم مرکزی رہنماء سے علم ہوا ہے کہ اندرون پنجاب و سندھ دورے ہتمی شکل اختیار کر گئے ہیں ۔ عمرا ن خان کا مقصد کا کہنا ہے کہ میں عوام میں شعور بیدار کر رہا ہوں ۔ وزیر اعظم جتنا دیر سے مستفی ٰ ہونگے مجھے شعور بیدار کرنے اور عوام کو حقائق دکھانے میں بہت فائدہ ہوگا۔ غیر یہ ایک سیاسی پوائنٹ ہے جو ہر کوئیاستعمال کرتا ہے ۔ ملک میں ڈالر کی قیمت میں اضافہ سے مہنگائی اور بیرونی قرضے کی ادائیگی میںاضافہ ہوتا ہے۔ اب تک دھرنوں کی وجہ سے 600ارب روپے کا نقصان ملک و ملت کا اٹھانا پڑا ہے۔ جنگ اقتدار کی ہے نواز شریف اقتدار چھوڑنا نہیں چاہتے اور عمران و قادری اقتدار برداشت کرنا نہیں چاہتے ہیں۔
درحقیقت 600ارب روپے کا اس نقصان کا ذمہ دار ہی ملک و ملت کا اصل دشمن ہے۔ ذمہ دار کون ہے ؟ کیوں ہے ؟ کیسے ہے ؟ یہ جاننا بہت ضروری ہے۔ اس وقت پاکستان میں سیاسی بحران میں تین طبقات سامنے آ چکے ہیں۔ ایک وہ طبقہ ہے جو عمران خان کی دھرنا و لانگ مارچ کو ڈانس مارچ اور غیر جمہوری قدم سمجھ رہے ہیں جس میں ابتداء سے ہی حکومت کے ارکان اسمبلی و پارٹی ورکرز ، جیو اور جنگ گروپ بیشتر اینکرز ، اس میں مباحثہ کرنے والے رپورٹرز و تجزیہ نگار ، عاصمہ جہانگیر ( جس کی خبر نشر اور بریکنگ نیوز بنا کر پیش کرنے سے جیو اور جنگ گروپ کو رات کی نیند نہیں آتی ) جمعیت علما ء اسلام کے سربراہ مولا نا فضل الرحمن اور اور انکی جماعت، پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی کے محمود اچکزئی ،نیشنل پارٹی کے حاصل بزنجو بلوچ اور تقریباََ15فیصد عوام عوام جو کے عمران خان کے بجائے میاں نواز شریف کو تسلیم کر رہے ہیں دوسرا وہ طبقہ ہے جو دونوں کی بھلائی چا ہتے ہیں کبھی اس طرف تو کبھی اُ س طرف ۔ عمران خان اور طاہر القادری کی دھرنا ولانگ اور انقلاب مارچ کو جائز بھی مانتے ہیں حکومت کو جارہ رہنے کی بات بھی کرتے ہیں ۔ خود فیصلہ نہیں کر پا رہے ہیں کہ کس کے ساتھ جا کھڑا ہا جائے ۔ دور سے عمران خان اور طاہر القادری کی طرف بیان بازی کی فائر یکے بعد دیگر کرتے جا رہے ہیں ۔ جس میں ایم کیو ایم، جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی اور20فیصد عوام ہے جو دونوں کے ساتھ کھڑے نظر آ رہے ہیں ۔ عمران خان اور قادری کی حمایت کرتے ہیں اور وزیر اعظم کو بچانے کی بھی کوشش کر رہے ہیں۔
تیسرا طبقہ پی ٹی آ ئی ، منہاج القران کے کارکنان، ووٹرز ، عمران خان اور قادری کے ساتھ نظریاتی ہمسفر، ایک بڑی تعداد میں 65فیصد عوام تجزیہ و نگار سمیت اے آ ر وائے کے رپورٹز اور اینکرز بھی حق میں ہیں۔ جو عمران خان اور قادری کے دھرنوں کو جائز اور انے کے حق میں ہیں بحرحال مجھے پہلے اور دسورے طبقے سے صد افسوس ہے کہ یہ لوگ جان بوجھ کر ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ کیوں حقائق سے خودکو ، عوام کو اورمیڈیا سے نظر انداز کر رہے ہیں ؟ میں سمجھتا ہوں کہ پہلا دوسرا طبقہ ہی موجودہ حالات اور بحران کے ذمہ دار ہیں ۔ دھرنا، لانگ اور انقلاب مارچ کب سے ؟ کون کر رہا ہے یا کون کر وایا رہا ہے ؟ وہاں کیا کیا ہو رہا ہے اور کیا کیا نہیں ؟ مرد و خواتین ڈانس کر رہے ہیں ؟ صفائی ہے یا نہیں ؟ کو ن کیا کیا کر رہے ہیں ؟سارا دن میڈیا اور عوام میں یہی بحث ہے ۔ درحقیقت ملک و ملت سے یہ لوگ دھوکہ دہی کر رہے ہیں۔ حقیقت اور موجودہ بحران پر پردہ پوشی بھی کر رہے ہیں ۔ کسی نے یہ نہیں سوچا کہ ان لوگوں کا مقصد کیا ہے ؟ ان کے مقاصد سے ملک اور ملت پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ؟ مرتب اثرات میں کیا حقائق اور کیا نقصانات و فائدے ہیں ؟ہم سب جانتے ہیں کہ عمران خان کے ایجنڈے واضع ہیں مثلاََ ایک مہینے کے لئے وزیر اعظم عہدے سے دست بردار ہونا ۔ دھاندھلی کی شفاف اور ہائی کلاش تحقیقات ہونا، دھاندھلی میں ملوث افراد کو سزا دینا اور کافی حلقوں میں رزلٹ میں دھاندلی ہوئی ہے اُ ن حلقوں میں ریکاؤنٹنگ یا ری الیکشن وغیرہ وغیرہ۔
Nawaz Sharif
کیا وزیر اعظم کا کرسی جاگیر انہ ہے ؟ کیا وزیر اعظم کا کرسی وراثت میں لی ملکیت ہے ؟ نہیں یہ عوام کا ہے۔ جس مقصد کے لئے کرسی دیا جاتا ہے کیا وہ مقصد پورا ہو رہا ہے بھی کہ نہیں ؟ اگر خدا کو حاضر و ناظر سمجھ کر دیکھ کر کے فیصلہ کیا جائے تو یہ ایجنڈے سیاسی ، اخلاقی اور معیاری ہیں ۔ وزیر اعظم کے عہدے سے دست برداری اس لئے ضروری ہے کہ اس وقت عمران خان کی ملزم ہے۔ جرم ثابت یا نہ ہونے تک ان کی اقتدار میں رہنا غیر سیاسی ، غیر اخلاقی اور غیر معیاری ہے۔ صاف ظاہر جب اقتدار میں نہیں تھا (ہارس ٹریڈنگ ) ضروری لوگوں کی خرید و فروخت کر کے دھاندلی کروائی تو جبکہ اقتدار ہے تو کیسے خرید و فروخت نہیں کریگا ؟ بحر حال اپنے خلاف کوئی کیسے ثبوٹ اکھٹا کرنے دیگا؟ جس سے اس کا سیاسی زندگی تباہ بھی ہو سکتا ہے ۔ ایک قومی لیڈر ، ایک بڑی تعداد میںکارکنان و عوام نے وزیر اعظم پر انگلی اٹھایا ہے ۔ تو صفا ئی دینا سیاسی ، اخلاقی اور معیاری ذمہ داری بنتی ہے ۔ دھاندھلی کی شفاف اور ہائی کلاش تحقیقات ہونابھی ضروری ہے کیونکہ جن لوگو ں کا نا عمران خان لے رہے ہیں ان کو ایسا تو کرنا ہر گز زیب نہیں دیتا ہے جس جس نے کی ہے سزا کا حق رکھتا ہے ۔ یہ ایک دھوکہ دہی کا کیس ہے ۔ غیر قانونی کام کرنے والوںکے سخت سزا ملنی چاہیے۔ اگر میاں نواز شریف اور متعلقہ ملزمان پر دھاندلی ثابت نہیں ہوا تو عمران خان کو گمران کن پروپگنڈا کرنے پر قانونی سز ا ملنی چاہیے۔ قادری کی بھی بہت سے ایجنڈے ہیں لیکن اہم ترین جس پر حکومت گروپ رضا مند نہیں وہ ایک ہی ہے۔ نواز شریف کا اپنے وزیر اعظم کے عہدے سے دستبرداری ہی ہے۔ باقی ایجنڈے بھی ہیں لیکن تینوں اطراف سے یہی ہے ضد ہے ۔ عمران خان اور قادری نواز شریف کی عہدے سیدست برداری چاہتے ہیں اور ن لیگ نہیں۔
وزیر اعظم کے معاون خصوصی ،کالم نویس اور تجزیہ نگار عرفان صدیقی ! اگر دیکھا جائے تو اقتدار کسی کی جاگیر یا ملکیت اور وراثت شدہ نہیں کہ جس کا قبضہ ہو وہی قبضہ کرتا رہے نہیں یہ جمہو ریت کے برعکس عمل ہے۔ مان لیتے ہیں کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف ملزم ہیں مجرم نہیں ہیں۔ اب ملزم کس طرح عمران خان سمیت کروڑوں لوگ تسلیم تک کرتے ہیں الیکشن میں دھاندھلی ہوئی ہے ۔اپنے من پسند ارکان کو کامیاب کرنے کے لئے ہاتھ پیر لگایا گیا ہے ۔ میڈیا، عدالتوں اور الیکشن کمیشن سے کسی نہ کسی طریقے سے مدد لی گئی ہے ۔الیکشن ٹربیونل اور نادرا کے تحقیقات کے بعد 70فیصد سے زائد جعلی ووٹ کی تصدیق بھی ہوگئی تو اب جواز ہی نہیں رہتا کہ آپ دھاندلی کو تسلیم نہ کریں ۔ دھاندلی کو مدنظر رکھ کر یہ کہنا غلط نہیں کہ وزیر اعظم جعلی اور غیر آ ئینی و غیر جمہوری ہیں۔ کیونکہ 70فیصد لوگوں نے اپنا رایا ہی نہیں دیا ہے جن کے رایا کسی اورنے دی ہیں ۔ ہاں دھاندلی ن لیگ نے صرف نہیں بلکہ سب نے کی ہے ۔ جعلی ووٹ کو کاسٹ کروانے میں ہر جگہ طاقت ور امید واروں نے مدد لی ہے ۔ تاریخ دیکھو ۔ جنرل ایوب خان یاد نہیں ؟؟؟ درحقیقت حاکموں کے اُو پر انگلی اٹھنے سے پہلے حاکم شرم کے مارے اقتدار ہی چھوڑ دیتے رہے ہیں ، لیکن یہاں ضد اور انا کا مسئلہ تصور کیا جاتا ہے ۔ جس سے ملک کو 600ار ب روپے کا نقصان ہوا ہے ۔ اسکی ذمہ داری نواز شریف پر ہے نہ کہ دھرنوں والوں کی ذ مہ داری بنتی ہے۔
ڈاکٹر طاہر القادری کاایجنڈا بھی غلط نہیں ہاں البتہ کافی سخت ضرور ہیں۔ لیکن وزیر اعظم کی مستفی اورا یف آ ئی آ ر کی بات تو قادری کی بات درست ہیں درجن سے زائد لوگ مارے جاتے ہین قانون کے تحت سانحہ ماڈل ٹاؤن لاہور جیسے واقعات کا ایف آ ئی آ ر نہ کٹوانا بھی غیر قانونی ہے یہاں تو بات برعکس ہے ۔ الٹا ایف آ ئی آ ر ہی نہیں کاٹا جا تا ہے ۔ تفتیش ہی نہیںہوتی ہے۔ تو ریاست اور سیاست و قانون کی دھجیاں اڑانے والی بات ہے۔ شفاف تحقیق ہونا چاہئے کہ ملز م نواز شریف گروپ شریف ہی ہیں یا بدمعاش یہ شفاف تحقیقات سے ہی پتہ چل سکتا ہے۔ اگر نواز شریف گروپ واقعی میں شریف ہیں تو” چور کے دا ڑھی میں تنکا ” والی بات کی طرح ڈر کیوں رہے ہیں ؟ قارئین خواتین و حضرات ! موجودہ سیاسی صورتحال، افرا تفری اور اداروں و سیاسی کشیدگی اور ظلم و زیادتی کے ذمہ دار میاں نواز شریف صاحب ہی ہونگے ان کی ضد ریاست میں من مانی کو جنم دے رہی ہے۔ کچھ خود کو دانشور کہنے والے ان کی پروگرام کو غلط قرار دے رہے ہیں اصل میں یہ لوگ شریک جرم ہیں۔ جو عوام الناس کو گمراہ کرنے کے لئے اپنی دلائل کو ہی پھتر پر لکیر تصور کرتے ہیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن نواز شریف عمران خان اور قادری کا ملزم ہے۔ جرم ثابت ہونے تک اس کو اپنی موجودہ مقام سے نیچے آ نا ہوگا۔ خود ملزم سے مجرم یا بری کروائے تو ملک و ملت کا فائدہ ہوگا۔ اتنی ضد ایک امیر المومنین کو زیب ہر گز نہیں دیتا ہے۔