پاکستان (جیوڈیسک) عالمی ادارہ صحت اور یونیسف سمیت کئی عالمی ادارے پولیو کے خاتمے کے لئے سالانہ اربوں روپے دیتے ہیں جس کا زیادہ حصہ افسروں کی تنخواہوں کی نذر ہو جاتا ہے۔ اعلی تعلیم یافتہ نوجوان وقار حسین چار سال سے پولیو ورکر ہے، جسے یومیہ صرف اڑھائی سو روپے اجرت ملتی ہے۔
دوسری طرف گریڈ 18 کے افسر ڈاکٹرالطاف بوسن کے مزے دیکھیں وزیراعظم انسداد پولیو سیل کے سربراہ کے طور پر 14 لاکھ تنخواہ وصول کر رہے ہیں۔ پاکستان میں گردن توڑ بخار، تشنج، نمونیا اور خسرہ جیسی بیماریاں بھی ہزاروں بچوں کو نگل رہی ہیں لیکن فنڈ لٹائے جا رہے صرف پولیو کے نام پر۔ پاکستان میں 2010 میں 144، 2011 میں 198 اور 2012 میں 58 پولیو کیسز رپورٹ ہوئے۔
رواں سال بھی 50 کیسز سامنے آ چکے ہیں۔ ایک طرف تو علمائے کرام نے پولیو مہم کو جائز قرار دیا ہے تو دوسری طرف لوگوں کو گمراہ کرنے والوں کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ خیبر پختونخوا میں پولیو ٹیموں پر قاتلانہ حملوں کی وجہ سے محکمہ صحت کے اہلکار خوفزدہ ہیں۔ مذہب کے نام پر لوگوں کو پولیو سے بچائو کے قطرے نہ پلانے پر مجبور کیا جاتا ہے لیکن دوسری طرف علمائے کرام پولیو ڈراپس پلانے کو جائز اور لازمی قرار دیتے ہیں۔ پولیو ٹیموں کو لاحق جان کے خطرے کے باعث مہم معطل رہتی ہے۔
پولیو ویکسین میں خاندانی منصوبہ بندی کے اجزا کی موجودگی کا پروپیگنڈا کیا جاتا رہا ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت رضاکار فورس کے سائے میں اس مہم کو کامیاب بنانے کا عزم کئے ہوئے ہے۔ پولیو ورکرز پر حملوں اور حکومت کی جانب سے مناسب سیکیورٹی نہ ملنے کے باوجود مہم کے اہلکار اپنی جان خطرے میں ڈال کر قوم کے مستقبل کو معذوری سے بچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
گھر گھر جا کر بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے والی خواتین اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر پوری قوم کو مستقبل کو معذوری سے محفوظ بنانے کا عزم رکھتی ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشتگردی کے کئی واقعات کے باوجود ان ورکرز کو مناسب سکیورٹی فراہم کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔