تحریر: شہزاد، عمران رانا ایڈووکیٹ جیسے جیسے وقت بدلتا گیا نئی نئی تبدیلیوں نے جنم لیا یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے ہم انسانوں کی ایجادہیں۔آج کل کے جدید دور میں سائنس بہت سی ایسی تبدیلیاں کررہی ہے جس سے ہماری زندگی میں روزانہ کی بنیاد پر تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور اِن میں کئی تبدیلیاں ایسی بھی ہیں جو اب ہمارے لئے لازمی جزو کی حیثیت اختیار کر گئی ہیں جبکہ چند ایسی بھی ہیں جن کی بدولت ہم وقت کا ضائع سمیت جعلسازی و بے ایمانی جیسے مکروہ کاموں سے چھٹکارا پا سکتے ہیں اِن ایجادوں میں ایک اہم ایجاد”بائیو میٹرک ووٹنگ سسٹم“بھی ہے۔
ترقی یافتہ ممالک اِس سسٹم سے پہلے ہی مستفید ہورہے ہیں اِس کے علاوہ وہاں بائیو میٹرک سسٹم کے تحت سرکاری و نجی اداروں میں اپنے ملازمین کی روزانہ کی بنیاد پر حاضری بھی لگائی جاتی ہے مگر ہمارے ہاں یہ کام صرف چند نجی اداروں میں ہورہا ہے جبکہ سرکاری ادارے ابھی اِس کام میں بہت پیچھے ہیں ۔
گذشتہ دو سالوں میں لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سالانہ الیکشن”بائیو میٹرک ووٹنگ سسٹم“کے تحت ہی ہوئے ہیں جن میں آخری الیکشن مکمل طور پر اِسی سسٹم کے تحت تھا۔اِس سلسلہ میں اب اِس سسٹم کا دائرہ وسیع کیا جارہا ہے جس میں پنجاب بار کونسل پنجاب بھر کی بار ایسوسی ایشنز کے ممبران کا بائیو میٹرک اندراج تیزی سے کررہی ہے جس میں نئے اور پرانے دونوں ہی ممبران شامل ہیں اور جب یہ کام پایہ تکمیل تک پہنچ جائے گا تو اِس سے ”دوہرے اندراج“ والے ووٹرز کا بھی خاتمہ ہو جائے گا کیونکہ چند بار ایسوسی ایشنز کم فاصلے پر موجود ہونے کی وجہ سے کئی ووٹرز کا اندراج دونوں جگہ موجود ہے جس کی وجہ سے ”بائیو میٹرک ووٹنگ سسٹم“ کے اندراج کا آغاز کیا گیا ہے۔
Biometric Voting System
پرانے سسٹم کے تحت الیکشن میں وقت کاکافی ضائع ہوتا تھا کیونکہ بیلٹ پیپر میں نائب صدر اور سیکرٹری کے لئے دو دو ووٹ کاسٹ کرنا ہوتے تھے جس کی وجہ سے ہر بیلٹ پیپر کے ووٹوں کو الگ الگ گنتی کرنا پڑتا تھا جس میں زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے بالترتےب سینئر نائب صدر اور جنرل سےکرٹری جبکہ اِن سے کم ووٹ حاصل کرنے والے بالترتیب نائب صدر اور سیکرٹری منتخب ہوتے ہیں اور صرف یہ ہی چار عہدیداروں کے نتائج اٹھارہ سے بیس گھنٹوں میں مرتب ہوتے رہے ہیں ۔جس کی وجہ سے وقت کابہت زیارہ ضائع ہوتا رہا ہے لیکن اب پنجاب بار کے نوجوان ممبران منیر حسین بھٹی ،رانا انتظار حسین ، سید فرہاد علی شاہ سمیت موجودہ صدر لاہور بار ارشد جہانگیر جھوجھہ نے اِس اندراج کوشروع کروانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
اِس سلسلہ میں لاہور بار ایوسی ایشن نے اپنے آئندہ الیکشن2017-18 کو”بائیو میٹرک ووٹنگ سسٹم“ کے تحت ہی کروانے کا اعلان کر رکھا ہے جس کے تحت ممبران اپنااپنااندراج کروارہے ہیں اور اندراج کا کام اِس وقت سست روی سے جاری ہے ۔ صرف لاہور شہر کی بات ہی کی جائے تواِس وقت لاہور بار کے ممبران کی تعداد سترہ ہزار سے زیادہ ہے مگر اتنا وو ٹ کا سٹ نہیں ہوتا آخری الیکشن میں تقریباً ساڈھے پانچ ہزار ووٹ کاسٹ ہوئے تھے ۔اندراج جس رفتار سے جاری ہے تو یہ بات ناممکن ہے کہ الیکشن کے دن تک تمام تر اندراج مکمل ہوجائیں بلکہ لاہور بار کے الیکشن بورڈ کو بھی گذشتہ سال لاہوہائی کورٹ بار ایوسی ایشن کے الیکشن کی طرز پر پولنگ کروانی پڑے جس میں انہوں نے تمام اندراج شدہ اور غیر اندراج شدہ ووٹرز کو ووٹ کاسٹ کرنے کے لئے بلالیا تھا اور غےر اندراج شدہ ووٹرز کا اندراج موقعہ پر کرکے انہیں ووٹ کاسٹ کرنے کی اجازت دی گئی تھی اِس طرح لاہوہائی کورٹ بارکا آخری الیکشن مکمل طور پر ”بائیو میٹرک ووٹنگ سسٹم“ کے تحت تھا جس سے تمام ممبران کواِس سسٹم کی اہمیت کا اندازہ ہوگیا کیونکہ پولنگ کے بعد صرف نماز کا وقفہ کیا گیا تھاجس کے فوراً بعد انتخابی نتائج سکرین پر ملاحظہ کیے جا سکتے تھے اِس طرح کامیاب ہونے والے امیدواروں کے حامی فتح کا جشن منانے کے بعد فارغ ہو کر گھروں کو چلے گئے اُس وقت تقریباً 7بجے کا ٹائم ہوا تھا ورنہ یہاں بھی نتائج رات گئے دیر تک مرتب ہوتے تھے۔
Voting System
ویسے”بائیو میٹرک ووٹنگ سسٹم“ کے تحت الیکشن کروانے میں بازی تو لاہوہائی کورٹ بار ایوسی ایشن لے گئی ہے اِس کے بعد اب پنجاب بار کونسل پنجاب بھر کی بار ایسوسی ایشنزکے ممبران کو اِس سسٹم کے تحت رجسٹرڈ کررہی ہے جس سے آئندہ پنجاب بار کونسل کے الیکشن 2019بھی اِسی سسٹم کے تحت ہونے کا امکان ہے لیکن اب تک سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اِس معاملے میں پیچھے ہے شائد اِن کو اب تک اِس سسٹم کی اہمےت کا اندازہ نہیں ہوا۔
آخر میں ،میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی توجہ بھی ”بائیو میٹرک ووٹنگ سسٹم“ کے تحت قومی الیکشن کروانے کی ضرورت پر زور دوںگا کیونکہ یہاں حال کچھ زیادہ ہی بُرا ہے ۔ایک ہارنے والا جیتنے والے امےدوار پر دھاندلی کا الزام لگاتا ہے کچھ حلقوں میں یہ الزامات ٹھیک ہوتے ہیں اور کچھ میں غلط ۔مگر اِن مقدمات کا فیصلہ اُس وقت تک ہوتا ہے جب اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرنے والی ہوتی ہیں اور دھاندلی سے جیتنے والا عوام کے دیئے گئے ٹیکس سے تنخواہیں اور مراعات کے تمام تر مزے لے چکا ہوتا ہے۔