جن کے آنے سے روشن زمانہ ہوا ایسے نبی ۖ کی ولادت پہ لاکھوں سلام
حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیںجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی تو ساتھ ہی ایسا نور نکلا جس سے مشرق سے مغرب تک ساری کائنات روشن ہوگئی۔ہم تو عید میلاد صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی میں اپنے گھروں ا ور مساجد پر چراغاں کرتے ہیں، خالق کائنات نے نہ صرف سا ر ی کائنات میں چراغاں کیا بلکہ آسمان کے ستاروں کو فانوس اور قمقمے بنا کر زمین کے قریب کردیا۔حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کی والدہ فرماتی ہیں، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی میں خانہ کعبہ کے پاس تھی، میں نے دیکھا کہ خانہ کعبہ نور سے روشن ہوگیا۔ اور ستارے زمین کے اتنے قریب آگئے کہ مجھے یہ گمان ہوا کہ کہیں وہ مجھ پر گر نہ پڑیں۔
حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، میں نے تین جھنڈے بھی دیکھے، ایک مشرق میں گاڑا گیا تھا۔ دوسرا مغرب میں اور تیسرا جھنڈا خا نہ کعبہ کی چھت پر لہرارہا تھا۔یہ حدیث (الو فابا حوال المصطفے صلی اللہ علیہ وسلم) میں محدث ابن جوزی نے بھی روایت کی ہے۔ اس سے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر جھنڈے لگانے کی اصل بھی ثابت ہوئی۔ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر جلوس بھی نکالا جاتا ہے اور نعرئہ رسالت بلند کیے جاتے ہیں۔ اس کی اصل یہ حدیث پاک ہے کہ جب آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو اہلیان مدینہ نے جلوس کی صورت میں استقبال کیا۔ حدیث شریف میں ہے کہ مرد اور عورتیں گھروں کی چھتوں پر چڑھ گئے اور بچے اور خدام گلیوں میں پھیل گئے، یہ سب با آواز بلند کہہ رہے تھے، یا محمد یا رسول اللہ، یا محمد یا رسول اللہ۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔
جن کو نور رحمت سے سجایا گیا اس نور مجسم پہ لاکھوں سلام
ارشاد باری تعالی ہوا، (اور انہیں اللہ کے دن یاد دلاؤ)۔ (ابراہیم، 5) امام المفسرین سیدنا عبد اللہ بن عباس (رضی اللہ عنہما) کے نزدیک ایام اللہ سے مراد وہ دن ہیں۔جن میں رب تعالی کی کسی نعمت کا نزول ہوا ہو۔ (ان ایام میں سب سے بڑی نعمت کے دن سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت و معراج کے دن ہیں، ان کی یا د قائم کرنا بھی اس آیت کے حکم میں داخل ہے)۔ (تفسیر خزائن العرفان) بلاشبہ اللہ تعالی کی سب سے عظیم نعمت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدسہ ہے۔ ارشاد باری تعالی ہوا، (بیشک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا)۔ (آل عمران،164)
آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم تو وہ عظیم نعمت ہیں کہ جن کے ملنے پر رب تعالی نے خوشیاں منانے کا حکم بھی دیا ہے۔ ارشاد ہوا، (اے حبیب!) تم فرماؤ (یہ) اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت (سے ہے) اور اسی چاہیے کہ خوشی کریں، وہ (خو شی منانا) ان کے سب دھن و دولت سے بہتر ہے)۔ (یونس، 58) ایک اور مقام پر نعمت کا چرچا کرنے کا حکم بھی ارشاد فرما یا، (اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو)۔ (الضحی 11، کنز الایمان)
سردار الانبیاء حضرت محمد ۖ ماہ ربیع الاول کی بارہ تاریخ بروز پیروار کو اس فانی دنیا میں تشریف لائے ، تو اللہ پاک کا یہ احسان عظیم ہے آپ ۖ کی دنیا میں تشریف آوری سے قبل دنیا ” جہنم بنی ہوئی تھی۔
تاریخ بتاتی ہے کہ اہل عرب بت پرستی …. بتوں کے پاس مجاور بن کر بیٹھنا ان کی پناہ ڈھونڈنا … انہیں زور زور سے پکارنا اور حاجت روائی و مشکل کشائی کے لئے ان سے فریاد اور التجائیں کرنا …. ان کو اللہ کے آگے سفارشی سمجھنا ۔ بتوں کا حج و طواف کرنا …. ان کے سامنے عجز و نیاز سے پیش آنا اور انہیں سجدہ کرنا …. بتوں کے لئے نذرانے اور قربانیاں پیش کرنا …. بتوں کے نام پر جانور ذبح کرنا …. بتوں کے نام کی نذر ماننا … ازلام یعنی فال گیری …. نجومیوں اور کاہنوں کی باتوں پر ایمان لانا یقین کرنا …. کاہنوں کو عالم الغیب سمجھنا …. مختلف حالات و واقعات سے اچھا برا شگون لینا … بعض دنوں، مہینوں، جانوروں، گھروں اور عورتوں کو منحوس سمجھنا … بیت اللہ کا برہنہ طواف …. آپس کی سالہا سال سے جاری لڑائیوں …. قبائلی عصبیتوں … غرور و تکبر اور نسلی تفاخر …. جھوٹ … غیبت … چوری … دھوکہ دہی مکر و فریب …. منافقت …. بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا …. بچوں کو فقر و فاقہ کے ڈر سے قتل کرنا …. قبروں پر نوحہ اور بین کرنا …. سود لینا دینا کھانا … مردار کھانا حرام کھانا …. شراب پینا پلانا چھوڑ دیا … جوا کھیلنا قمار بازی … بد کاری و بے حیائی فحش کاری و زنا کاری ۔ان گنت عورتوں کو بیویاں بنانا ۔ غرض کوئی ایسی اخلاقی بیماری نہیں تھی ۔ جو عربوں میں موجود نہ تھی۔
ایمان کی پختگی و تازگی کے لئے آنحضرت کی پیدائش کے وقت معجزات کا ظہور
آپ ۖکی پیدائش پر معجزات نمودار ہوئے جن کا ذکر قدیم آسمانی کتابوں میں تھا۔ مثلاً آتش کدہ فارس جوہزار سال سے زیادہ سے روشن تھا بجھ گیا۔ مشکوٰة کی ایک حدیث ہے جس کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے کہ ” میں اس وقت بھی نبی تھا جب حضرت آدم( علیہ السلام ) مٹی اور پانی کے درمیان تھے۔۔۔ میںحضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت اور اپنی والدہ کا وہ خواب ہوں جو انہوں نے میری پیدائش کے وقت دیکھا اور ان سے ایک ایسا نور ظاہر ہوا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے۔
نبی اکرم ۖکی والدہ محترمہ حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی زبانی روایت ہے کہ ” جب میرا بیٹا دنیا میں آیا میں نے ایک غیبی آواز سنی، منادی کہہ رہا تھا: مشرق سے مغرب تک گھوم کر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مثل تلاش کرو، ان کے جیسا کون ہوسکتا ہے، تمام انبیاء کے صفات ہم نے ان کو عطا کردیئے ہیں، حضرت آدم( علیہ السلام) کی طرح صفا و پاکیزگی، حضرت نوح( علیہ السلام) کی طرح نرمی و سادگی، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح حلت و محبت، حضرت اسمعیل ( علیہ السلام) کی طرح رضا و خوشنودی، حضرت یوسف ( علیہ السلام) کی طرح حسن و زیبائی اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کی طرح کرامت و بزرگواری، سب کچھ ان میں موجود ہے۔ ” سبحان اللہ
جب خالق کائنات نے اپنے محبوب سردار الانبیاء حضرت محمد ۖ کی ولادت کے موقع پر نور ہی نور پیدا کر کے، جھنڈے بھی گاڑھے ،ہر مان بننے والی کو بیٹا دیا۔ہر طرف خوشی ہی خوشی کا سماں پیدا کیا تو ہمارا بھی فرض بنتا ہے اپنے پیارے محبوب حضرت محمد ۖ کی پیدائش کے موقع پر خوشیاں ، درودواسلام اور گھروں محلوں میں روشنیاں اور جھنڈیاں لگا کر آقا کی پیدائش کا جشن منائیں۔