تحریر : سعدیہ عاقل۔ بنتِ عاقل ولادت۔ حضرت فاطمہ الزہرہ بعثت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پانچ سال قبل مکہ میں پیدا ہوئیں۔ (الاصاص١٥) ٢ ہجری میں آپ کا نکاح حضرت علی سے ہوا۔ میں حضرت فاطمہ کی شادی کے بارے میں تفصیلاً تحریر کروں گی تاکہ لوگ اپنی اولاد کی شادی کی تیاری کرتے وقت انکی شادی کو مدنظر رکھیں۔ حضرت فاطمہ کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حضرت فاطمہ جنت کی عورتوں کی سردار ہیں۔ (استیعاب ص٧٦) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت فاطمہ سے خاص رغبت تھی صیحح بخاری میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے جو اس کو ناراض کرے گا وہ مجھے ناراض کرے گا۔
نکاح:۔ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت کر کے مدینے آئے حضرت فاطمہ کنواری تھیں لوگوں نے پیغام دیا ان میں سب سے پہلے حضرت ابو بکر صدیق اور پھر حضرت عمر نے حضرت فاطمہ سے عقد کی استدعا کی مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ حکم الہیٰ کا انتظار کرو۔ (طبقات ص١١) پھر لوگوں نے حضرت علی کو ترغیب دی لیکن انھوں نے فرمایا میں کس بناء پر جرئات کروں میرے پاس کوئی چیز نہیں جس سے میں عقد کروں بلآخر پھر آپ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے مگر کچھ کہنے کی جرئات نہ کر سکے اور خاموش بیٹھے رھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود ہی توجہ فرما کر کہا کہ فاطمہ کے لیے پیغام دینے آئے ہو تو آپ نے اثبات میںجواب دیا۔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ”اھلا و مرحبا” مہر کی ادائیگی:۔ حضرت علی کے پاس بطور مہر ادا کرنے کے لیے کچھ نہ تھا صرف ایک زرہ حطمی تھی وہ رسول اللہۖ نے کسی جنگ میں حضرت علی کو دی تھی۔ جو حضرت عثمان نے چار سر درہم میں خرید لی اور رقم کے ساتھ زرہ بھی تحفہً لوٹا دی۔ وہی چار سو درہم بعض روایات کے مطابق چار سو اسی درہم حضرت فاطمہ کے مہر کے طور پر ادا کئے گئے۔ بعض روایات میں ہے کہ وہ زرہ ہی حضرت علی نے حضرت فاطمہ کے رو برو پیش کی۔
سامانِ جہیز:۔ شہنشاہ عالم نے اپنی صاحبزادی سیدہ فاطمہ کو بروایت عکرمہ مندرجہ ذیل جہیز دیا۔ نقشی تحت، کھجور کی چھال سے بھرا چمڑے کا تکیہ، ایک پیالہ، ایک مشکیزہ، (دو عدد چکیاں، ایک مشکیزہ دو گھڑے بروایت دیگر ارباب سیر) سیدہ جہیز سیدنا حضرت ابو بکر صدیق نے خریدا۔ سیدہ ام سلمہ اور سیدہ عائشہ صدیقہ نے نہایت احسن طریقے سے اپنی بیٹی کو رخصت کیا، خوشی اور محبت سے فرمایا ”ہم نے فاطمہ کی شادی سے بہتر کوئی شادی نہیں دیکھی۔
رخصتی:۔ لڑکی خواہ امیر کی ہو، فقیر کی ہویا غلام کی ہو سن شعور تک اپنے شفیق والدین کے ساتھ رہنے کے بعد جب وہ رخصت ہوتی ہے تو وہ بہت نازک وقت ہوتا ہے اور رخصتی کے وقت لڑکی کا گھر عشرت کدہ سے ماتم کدہ بن جاتا ہے چنانچہ سیدہ فاطمہ کا جب نکاح ہوا تووہ بھی رو رہی تھیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اندر تشریف لائے اور دیکھ کر فرمایا۔ ”اے ایٹی فاطمہ یہ رونا کیسا؟میں نے تماری شادی ایسے شخص سے کی ہے جو علم میں، حلم میں سب سے افضل ہے اور اسلام لانے والوں میں اول ہے”۔ (اسد الغایہ ص ٥٢٠) رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کہنے پر حضرت علی نے ایک مکان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کسی قدر فاصلے پر لیا اور اسی میں حضرت فاطمہ کو رخصت کرا کے لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی لونڈی ام ایمن کے ہمراہ حضرت فاطمہ کو علی کے گھر رخصت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں کہا کہ میرے منتظر رہنا۔ حضرت علی اور حضرت فاطمہ گھر کے ایک گوشے میں بیٹھ گئے پھر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے ام ایمن اور اسماء بنت عمیس بھی وہاں موجود تھیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں دعائے خیر سے سرفراز کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پانی طلب کیااسکو جھوٹا کر کے حضرت علی کے دونوں شانوں،بازوں اور سینے پر چھڑکا پھر حضرت فاطمہ کو بلایا تو وہ شرم و حیا سے جھجکتی ہوئی آئیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان پر بھی پانی کا چھڑکائو کیا اور فرمایا ” اے فاطمہ میں نے تماری شادی اپنے خاندان کے بہترین آدمی سے کی۔”(طبقات ص ١٥) اور تشریف لے گئے۔
ولیمہ:۔ نکاح کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ شادی کے لیے ولیمہ بھی ضروری ہے۔ حضرت سعد نے کہا میرے پاس ایک بھیڑ ہے اس سے ولیمہ کر دیا جائے اسی طرح انصار کے ایک قبیلے نے بھی حسب استطاعت ولیمہ کا انتظام کیا۔
Hazrat Ali (R.A)
سادگی:۔ حضرت فاطمہ اور حضرت علی دونوں سادہ اور تنگ دستی کی زندگی بسر فرماتے تھے۔ کبھی دنیاوی عیش وآرام کی خواہش نہ کی۔ حضرت علی فرماتے ہیں ” جس وقت میری شادی ہوئی فاطمہ کے اور میرے لیے کوئی بستر تک نہ تھا صرف ایک کھال تھی رات کو اس سے بستر اور دن میں اس سے مشکیزے کا کام لیتے۔ (طبقات ص١٢) یہ مختصر سی تحریر حضرت فاطمہ کی زندگی کا احاطہ تو نہیں کر سکتی مگر ان کی شادی کتنی سادگی سے ہوئی اسکی مثال نہیں ملتی اصل مقصد یہ ہی واضع کرنا تھا۔ اس سے مندرجہ ذیل باتیں سامنے آتی ہیں۔ ٭۔رشتہ طے کرنے کے لیے مناسب بر تلاش کیا جائے اسکی دینی حیثیت اور تقویٰ کو دیکھا جائے نہ کہ مالی حیثیت کو۔
٭۔ بیٹی کی رضا مندی لی جائے اس کے بعد عقد طے کیا جائے اور نہ یہ کہ اسے مجبور کیا جائے۔
٭۔اپنی استطاعت کے مطابق ضرورت کی چیزیں بطور جہیز دینا سنت ہے مگر اس میں فضول خرچی اور دکھاوے کا عنصر نہ پایا جائے۔ آج کل دکھاوے کے لیے حد سے زیادہ جہیز دیا جاتا ہے اور بعد میں ماں باپ کی قرض اتارنے میں ہی کمر ٹوٹ جاتی ہے۔
٭۔ عزیز رشتہ داروں کا اخلاقی فر ض ہے کہ وہ شادی کے جہیز کی تیاری میں حسبِ استطاعت معاونت کریں جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ حضرت فاطمہ کا جہیز حضرت ابو بکر صدیق نے خریدا۔
٭۔ رخصتی کے وقت بیٹی کو محبت اور شفقت سے دعائیں دے کہ رخصت کیا جائے۔
٭ شادی کے بعد بھی بیٹی کی دلجوئی کریں وقتاً فوقتاً نصیحت کرنا اور مشکل وقت میں ساتھ دینے کے کئی واقعات بھی آپۖ کی حیات مبارکہ سے ملتے ہیں۔
انتخاب:۔ انتخاب انتہائی مشکل کام ہے۔ خاص طور پر اگر یہ انتخاب کسی نئے رشتے کا ہوتو یہ مزید مشکل ہوتا ہی۔۔ لڑکے کے والدین کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ ایک ایسی بہو کا انتخاب کریں جو خوبصورت ہو، امیر ہو، پڑھی لکھی ہو اور گھر کے کام کاج میں ماہر ہو۔ آج کل بعض خاندان رشتہ ڈھونڈتے وقت ایسی لڑکی کو بھی ترجیح دیتے ہیں جو کہ ملازمت پیشہ اور اچھی تنخواہ دار ہو۔ یہ خیال معاشی حالت کی وجہ سے بھی پیدا ہوا ہے۔ اس کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ ملازمت پیشہ لڑکیوں کو پہلے معاشرے میں وہ مقام حاصل نہیں تھا جو اب ہے اور اب رشتہ نہ ملنے کا مسئلہ بھی اتنا زیادہ نہیں رہا کیوں کہ اگر مناسب وقت پر رشتہ نہ بھی ملے تو انہیں حقارت سے نہیں دیکھا جاتا۔ دوسری طرف اس کا منفی پہلو یہ بھی ہے کہ کچھ لوگ ملازمت پیشہ لڑکی کا انتخاب محض لالچ میں آ کر کرتے ہیںاور پھر ازدواجی زندگی میں وہ خوشی اور کامیابی نہیں رہتی جو کہ ہونی چاہیے۔ نوجوان لڑکوں کو چاہیے کہ وہ اپنے لیے ایسی رفیق حیات کا انتخاب کریں جو باشعور ہواور گھر داری کا سلیقہ جاننے کے ساتھ وہ مذہبی بھی ہو کیوں کہ آپۖ کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ ”رشتہ تین وجوہات کی وجہ سے ہوتا ہے خوبصورتی کی وجہ سے، مال و دولت کی وجہ سے اور دین داری کی وجہ سے تو تم دین داری کو ترجیح دو۔” یعنی شریک حیات ایسی لڑکی ہونی چاہیے جو دیگر تمام معیاروں پر پورا اترنے کے ساتھ ساتھ دین دار بھی ہو اور دوسروں کے حقوق و فرائض سے واقف ہو۔
Muslim Wedding
اسلام میں لڑکیوں کو اپنی پسند سے نکاح کرنے کی اجازت سورہ النساء میں بھی دی گئی ہے مگر ان کا یہ حق معاشرے میں ضبط کر دیا گیا ہے حالانکہ کئی احادیث سے ثابت ہے کہ لڑکی کی بھی مرضی نکاح میں شامل ہو۔ زبردستی کی شادیوں کی وجہ سے آج کل کوٹ میرج کے کیسز میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ آج کل والدین اپنی بیٹیوں کی مرضی کا بھی خیال رکھنے لگے ہیں اگرچہ ہر جگہ ایسا نہیں ہوتا مگر اکثریت اب ایسا کرتی ہے۔ جس طرح نوجوان لڑکے اپنے لئے ایک خوبصورت شخصیت، کردار اور خاندان کی لڑکی چاہتے ہیں اسی طرح لڑکیوں کی بھی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ا س کا رفیق حیات خوبصورت، با کردار اور ایک اچھے مستقبل کا ضامن ہو جس کے ساتھ وہ خوشحال زندگی گزار سکیں۔ مگر دنیاوی نمود و نمائش کے اسی چکر میں اکثر لڑکے لڑکیاں غلط انتخاب کر بیھٹتے ہیں اور اپنی غلطیوں ہر ساری ذندگی پچھتاتے رہتے ہیں۔ اگر دولت، خوبصورتی اور جھوٹی شان وشوکت سے زیادہ یہ دیکھا جائے کہ جیسے وہ اپنی ذندگی کا ساتھی بنانے کا فیصلہ کر رہے ہیں وہ دوسروں کے حقوق و فرائض اور ذمہ داریاں کس قدر نبھابے والا ،اپنے مذہب سے کس قدر مخلص ہے تو انتخاب انشاء اللہ آسان ہو جائے گا۔ نوجون لڑکوں اور لڑکیوں کو چاہیے کہ وہ اپنے ماں باپ کی منتخب کردہ پسند کسی ٹھوس وجہ کے رد نہ کریں کیوں کہ ماں باپ اپنی اولاد کا کبھی برا نہیں سوچتے۔ باقی رشتہ بنانا اللہ تعالیٰ کاکام اور انہیں نبھانا ہمارا کام ہے۔