آج ابرار کی سالگرہ ہے وہ اکیاون برس کا ہو گیا ہے چھوٹا بھائی جتنا بھی بڑا ہو جائے وہ چھوٹا ہی ہوتا ہے۔اللہ پاک اسے عمر خضر دے۔١٩٦٨ مارچ کے اسی دن ہمارے گھر میں ابرار آیا پرچی پر نام سرفراز لکھوایا لیکن گھر میں ابرار ہی بولا جاتا رہا۔ہم سب لا لاڈلا ابرار اسے چھوٹے سے گھر میں گرمی تنگ کرتی تو میری ذمہ داری تھی کے اسے گلی میں اٹھا کر لے جائوں کچھڑ چکنے کا کوئی نعم البدن نہیں ہے میں اسے باغبانپورے کی گلی میں کھلاتا میں ان دنوں آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا بلکل چھوٹا تھا بے جی بیمار ہو گئے انہیں ایمبولینس پر لاہور لے جایا گیا کیوںکہ گجرانوالہ اور لاہور کے مضافتی شہروں کے لوگوں کو اب بھی لا علاج قرار دیا جائے تو کہتے ہیں اسے لہور لے جائو۔میو ہسپتال میں بے جی گئے اور اللہ نے انہیں گردن توڑ بخار کے مہلک وار سے بچایا اس دوران ابرار کی آیا میں ہی تھا ۔پاء جی کے لقب سے مجھے پکارا گیا جو اب بھی پاء جی کے نام ہی سے بلایا جاتا ہوں۔ابرار بڑا ضدی ،لڑاکا اور خونخوار قسم کا بھائی ہے۔
گلی میں لڑکے اس کی ٹکر سے ڈرتے تھے۔اس کی اس اندھا دھند قوت کا مظاہرہ کئی بار دیکھا۔محلوں کی زندگی میں اس قسم کے واقعات عام ہوتے ہیں۔کہے گا کہ اب تو میں جوان بچوں کا باپ ہوں پاء جی کیا لکھ رہے ہیں۔لیکن سچی بات ہے خاکہ نویسی میں آپ اگر سچ نہ لکھیں تو بہتر ہے نہ ہی لکھیں۔ضدی ابرار کا ہر کام میں ناں کرنا ابھی بھی یاد ہے۔گھر آتا تو بے جی سے پوچھتا کیا پکایا ہے؟بے جی بتاتیں گاجراں کہتا روز ای روز ڈاگراں میں نے نہیں کھانی۔بے جی اپنے دوپٹے کے نیچے گاجروں کا سلان رکھ کر سامنے والوں کے گھر جاتیں اور تبادلے میں کوئی اور سالن لے آتیں۔کبھی کبھی ایک ایسی چیز کا نام بتاتیں جو نہیں پکی ہوتی اور اپنا ہی سالن باہر گلی میں جا کر واپس آ کر ابرار کے آگے رکھ دیتیں۔ابرار کی عادت ہے وہ نگاہیں جما لے تو آنکھیں نہیں جھپکتا۔اس عادت سے شریف آدمی ویسے ہی خوف کھا جاتا ہے۔اب بھی اس تصویر میں اس کی ویکھنی دیکھیں۔
اسے محلے کے انگلش میڈیم اسکول میں داخل کرا دیا گیا حبیب گرلز اسکول میں اس لڑکے نے ٹیچر کو ڈرا دیا اس نے ایک بار بے بجی کو بلایا اور کہاں ماں جی ابرار ویسے تو ٹھیک ہے لیکن اس کی جب پٹائی ہوتی ہے تو نگاہیں چہرے پر ٹکا دیتا ہے اور آنکھیں نہیں جھپکتا۔اس سے مجھے ڈر لگتا ہے۔بے جی نے کہا پترا گھر میں بھی یہی عادت ہے برداشت کرو۔۔قبلہ والد صاحب نے بھی ایک بار کہا آنکھیں نیچی نہ کر لیکن لگتا ہے ابرار کا تعلق مردان خدا کی اس قبیل سے ہے اس کی گردن کٹ سکتی ہے جھک نہیں سکتی۔یہی وجہ ہے خاندانی پھڈوں میں اس سے شکست مان لینیے میں ہی عافیت ہے۔میٹھی میٹھی باتیں کرنا اس کی عادت ہے فون آ جائے تو اس کی ہر بات مان لینے میں ہی عافیت ہے ورنہ وہ رات گئے یا صبح تک آپ کو منانے میں لگا رہے گا۔آج کل دینہ اڈالی میں ہے ۔سوشل ورکر لوگوں کے کام آنے والا جو کام شائد بڑے بڑے نہ کرا سکتے ہوں کروا لیتا ہے ۔اللہ عمر دراز کرے۔
ہم گجروں کے اس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جو اپنی انا اور خودی کے خول سے بمشکل باہر آتے ہیں ایک بار کسی اور برادری کے بندے نے نام کے ساتھ چودھری لکھ لیا اور تختی دروازے پر لگا دی ابرار نے تختی بھی اکھڑوائی اور پھینٹی بھی۔ہم نے کہا یار کوئی فرق نہیں پڑتا کہنے لگا آپ کو نہیں لگتا وہ سماج میں اونچ نیچ کی پرم پراء کا قائل ہے چودھری کو چودھری کو چودھری کی جگہ دیکھنا چاہتا ہے۔سعودی عرب گیا تو اس زمانے میں کیسٹوں میں باتیں ریکارڈ کی جاتی تھیں۔مزے مزے کی دلچسپ باتیں بھر کر بھیجتا جو میں فالن فریٹ کمپنی کی رہائش گاہ کے باہر ریت کے ٹیل پر لیٹ کر سنتا۔
ابرار لڑائیاں مشہور ہیں پانی پت کی پہلی لڑائی دوسری لڑائی کی طرح ابرار کی کئی لڑائیاں یاد ہیں ہر لڑائی میں وہ مخصوص ٹکر سے فریق ثانی کا کھنہ کھول دیتا تھا اس کی شکایات کے ازالے کے لئے قبلہ والد صاحب اپنے سلیپر خاص سے تواضع کرتے یا پھر میں لمیاں پاء لیتا۔ ایک بار والد صاحب کی مرسڈیز لے گیا شہر میں ایک ٹانگے نے اس کی لائٹیں توڑ دیں دیکھا نیا سوٹ پھٹا ہوا کوچوان کے خون نکلا ہوا اسے میرے قدموں میں لا کھڑا کیا کہا کہ پاء جی اینے ٹانگہ گڈی وچ ماریا اے۔میں نے معاف کرنے کے سوا کیا کرنا تھا۔
اس کی دوستیاں تگڑی ہیں۔اسے اگر یہ کہہ دیا جائے کہ مائونٹ ایورسٹ پر جھنڈا لگا نا ہے تو سمجھ لیجئے وہ لگا کر ہی واپس آئے گا۔میرے دوستوں کا خیال رکھتا ہے لدھڑ کے چودھری شہباز حسین کا احترام خاص کرتا ہے۔دینے میں صاحبزادی اسحق ظفر جو بھانجے کی بیگم ہیں ان کے فنڈ صرف کرائے ۔وہ زرداری دور میں ممبر صوبائی اسمبلی تھیں۔ آج اس کی سالگرہ کے موقع پر بہت سی باتیں یاد آتی ہیں بھائی امتیاز کی وفات کو سال گزرا ہے۔بچپن میں ہم سب جب چولہے کے گرد سردیوں کے روزے رکھنے بیٹھے ہوتے تو بھائی تنگ کرنے کے لئے کہہ دیتے پہلیاں تین روٹیاں ابرار دیا ناراض ہونے کے لئے یہ کافی ہوتا۔اس کی سالگرہ کے موقع پر اس کی نذر یہ تحریر ہی کر سکتا ہوں ایسی تحریر جو شائد موجودہ دور کے حوالے سے منفرد سی ہو۔لیکن وہ باتیں جو ماں باپ کی زندگی میں گزری ہوں تازہ کرنے کا مزہ آتا ہے۔
ابرار کی زندگی اور وہ بھی سیاسی اس کی گارنٹی دینا بہت مشکل ہے۔پنڈی کے موسم اور اس کی سیاست کی ضمانت دینا مشکل ہے۔میں نے اندازہ لگایا ہے وہ من کا سچا ہے بھولا ہے اسے بہت سی چیزوں کا علم نہیں ۔لیکن اس کے باوجود دھڑے بندی کا قائل ہے ہو سکتا ہے بحث مباحثے میں وہ میاں صاحبان کے ساتھ کھڑا نظر آئے لیکن ووٹ پی ٹی آئی کو دے دے گا۔اس لئے کہ اسے لدھڑ ہائوس سے پیار ہے۔ہمیں بھی غرض ووٹ سے ہی ہے۔پچھلے سال حج کرنے گیا تھا ان ان جگہوں پر جا کے مجھے یاد کرتا رہا جہاں جہاں یرا قیام رہا۔یہ بھی اس کے بھائیوں سے پیار کی علامت ہے۔روائت پسندی اس میں کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی ہے۔اپنی اچھی روایات کا امین یہ بھائی ہمیں آج بھی پیارا ہے اسی طرح جیسے بچپن میں مگر آج عمر کے اس حصے میں جب دوائیاں بوجھ بن جائیں۔اور نکمی مصروفیات پائوں کی زنجیر ہو جائیں تو انسان کی جو تصویر بنتی ہے وہ ایک بے لحاظ شخص کی ہوتی ہے۔حبیب گرلز اسکول سے فارغ التحصیل ابرار عرف سرفراز کو آج فون کرنے کی کوشش کی گھر میں ایک معزز مہمان آئی ہوئیں تھیں ممبر قومی اسمبلی اور پارلیمانی سیکرٹری وزارت تعلیم محترم وجیہ اکرم اس لئتے محفوظ رہا دن بھر پارٹی کے دفتر مصروف تھا بیگم کا کہنا تھا اسے فیس بک پر وہ غبارے ہی بھیج دیں ۔لیکن مجھے علم تھا کہ وہٹکر مار کے پھاڑ دے گا بہتر ہے ایک ایسی تحریر لکھ دوں جو یاد گار بھی ہو اور میرے دل کی عکاس بھی ہو۔باپ نے ایک حویلی نما گھر بنایا تھا کہ یہ کمرہ میرے اس بیٹے کا یہ اس کا۔مگر یاروں نے کہاں کہاں بستیاں بسا لیں ایک گجرانوالہ کے بڑے قبرستان میں ایک لندن،ایک دینہ اور ایک لاہور کے قریب دانا دنکہ چننے میں مصروف ہے۔
دوستو گھر بڑے نہ بنانا دل بڑے تعمیر کرنے کی کوشش کرنا۔نلہ کی خاک پاک سے بچھڑے ہوئے گجرانوالہ سندھ اور پھر خطہ پوٹھوہار جہلم کی ویلی پنجاب کے دیگر شہروں میں بس گئے۔ایک روٹی کے ٹکڑے نے مائوں کے بچے کہاں کہاں پہنچا دئے۔بس ایک دعا ہے کہ جتھے رئو تے راضی رو۔ جی تو چاہتا ہے کہ اسے کچھڑ چک کے اب بھی گلی میں نکلوں لیکن بیڈ سے اتر کر کمر سیدھی کرنے میں گھنٹہ لگتا ہے ہم تو عمر کے اس حصے میں اس کے لئے ہاتھ ہی اٹھا سکتے ہیں اس کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے ۔دونوں ذہین و فطین ہیں شاہزیب سرفراز بہت ہی پیارا لمبو بھتیجہ اللہ پاک ابرار اس کی بیگم بچوں کو خوش رکھے۔اکیوان سال کا ہونے پر بھائیے پڈو کو سالگرہ مبارک