بٹ کوائن کرنسی کتنی حقیقت کتنا فسانہ

Bitcoin

Bitcoin

تحریر : ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی
ہم میں سے اکثر نے یہ فلمی گیت سنا ہوگا کہ ”پیسہ پیسہ کرتی ہے۔کیوں پیسے پہ تو مرتی ہے”۔ یہ ایک فلمی گیت ہی نہیں دنیا کی حقیقت ہے کہ آج ساری دنیا پیسے پہ مرتی ہے اور پیسے کمانے اور اسے بچانے یا محفوظ رکھنے کے چکر میں پریشان ہے۔ انسان کو پیسہ کیوں ضروری ہے اس کا سیدھا جواب یہ ہے کہ اس کی ضروریات کی تکمیل پیسے سے ہوتی ہے۔ہم نے پرانا سبق پڑھا ہے کہ ہماری محنت اور ہمارے وسائل کو پہلے بارٹر نظام کے تحت ایک دوسرے سے تبادلے کے ذریعے ضرورت کے اعتبار سے تقسیم کیا جاتا تھا لیکن لوگوں نے جب دیکھا کہ اس کے جانور کو بیچ کر اسے اناج خریدنا ہے تو اناج والے نے کہا کہ مجھے جانور کی ضرورت نہیں تب قیمتی دھاتوں پر بنے سکے دولت کے متبادل کی صورت میں وجود میں آئے۔

لوگ ان سکوں کے تبادلے سے اپنے کام بنانے لگے لیکن جب قیمتی دھات کے سکوں کی حفاظت کا معاملہ درپیش آیا تو لوگ سنار کے پاس گئے جس نے ان کے قیمتی سکے رکھ کر انہیں ایک یقین دہانی کا پرچہ دیا جس میں لکھا تھا کہ میں نے ان سے اتنی قدر کے دھاتے سکے لئے اور یہ پرچہ اپنی صداقت پر دے رہا ہوں۔ یہ صداقت نامے نوٹ کہلائے۔ اور لوگ نوٹوں یا کرنسی کے تبادلے سے کام کرنے لگے۔ اور دنیا کا سرمایہ دارانہ نظام چلنے لگا۔ لیکن سنار نے دیکھا کہ سونے کے بدل اس کے دئے گئے صداقت نامے ہی دنیا میں چل رہے ہیں اور کوئی اس کے پاس جمع سونے کو پوچھنے ہی نہیں آرہا ہے تو اس نے شیطانی چال چلی اور اپنے پاس موجود سونے کی مقدار سے زیادہ نوٹ بازار میں پھیلادئے۔ تب بازار میں دیکھا گیا کہ کرنسی نوٹ زیادہ ہے ہیں اور مال اور وسائل کم تو ان کرنسی نوٹوں کی قدر گھٹنے لگی جسے معاشی اصطلاح میں inflationیا افراط زر کہا جاتا ہے اور آج دنیا کہ بڑے بڑے ممالک اپنی غلط مالی پالیسی کے سبب افراط زر سے پریشان ہیں۔ حکومتی آفا ت سماوی سے نپٹنے یا اپنے مقاصد جیسے انتخابات جیتنے یا دیگر مقاصد کے حصول کے لئے اپنے بنک میں موجود سونے یا ملک کی پیداوار اور وسائل کی قدر سے زیادہ نوٹ چھاپنے لگتی ہیں ۔ جس کی وجہہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ بڑھتے افراط زر کے سبب اشیاء کی قیمتیں بڑھنے لگتی ہیں ۔دن بہ دن دولت بڑھتی جارہی ہے لیکن قیمتیں کم نہیں ہورہی ہیں اور بات سو ہزار سے لاکھوں تک چلی جارہی ہے۔ اپنی محنت سے کمائے پیسے کی مناسب قدر ہو اور اس کا موزوں بدل ملے اس کے لئے ذہین لوگ ہمیشہ کوشش کرتے رہے۔

لوگ جس ملک میں رہتے ہیں انہیں ان کے سرمائے کو ملکی قوانین کی رو سے استعمال کرنا پڑتا ہے۔ پیسے کی گیارنٹی اور اس کے بھروسے مند لین دین کے لئے فریق ثالث کی گواہی کی ضرورت ہوتی ہے یعنی ہم روپیہ لے کر بازار سے کوئی چیز خریدنا چاہیں تو ہم روپیہ یا چیک کی صورت میں جو ادائیگی کرتے ہیں اس کی قیمت کی گواہی ملکی بنک کا قانون دیتا ہے کہ یہ سو کی نوٹ ہے یا کتنے مقدار کا چیک ہے۔ یہی حال ڈیجیٹل ادائیگی کا بھی ہے کہ ہم انٹرنیٹ بنکنگ یا ای والیٹ کے ذریعے جو ادائیگی فریق مخالف کو کرتے ہیں وہ فریق ثالث بنک گواہی دیتا ہے کہ اتنے رقم کا لین دین ہوا ہے اور ہماری رقم تیسرے فریق کی مدد سے ایک فریق سے دوسرے فریق کو منتقل ہوتی ہے جس کام کے لئے ہمیں کچھ فیس ادا کرنی پڑتی ہے لیکن دنیا میں لوگ اس بات کی کوشش کرنے کے لئے راست دو فریقوں کے درمیان رقمی لین دین ہو اور بنکوں کی مداخلت درمیان میں نہ رہے۔ ایک زمانہ تھا ہندوستانی روپیہ امریکی ڈالر سے کہیں زیادہ قیمتی تھا۔ لیکن حکومتوں کی غلط پالیسیوں کے سبب روپئے کی قدر گھٹتی گئی اور روپیہ کی قدر کم ہوتی رہی۔ یہی حال غریب ممالک کا ہے جیسے زمبابوے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں انڈا خریدنا ہو تو وہاں کی سو روپئے کی کرنسی دینی پڑتی ہے افغانستانی کرنسی کے بارے میں بھی ہم نے دیکھا کہ وہاں کرنسی اکسچینج کے کھلے بازار ہوتے ہیں جہاں ایک ڈالر کے بدل بنڈی بھر نوٹ دئے جاتے ہیں۔ انٹرنیٹ کے انقلاب سے دنیا ایک گلوبل ولیج میں بدل گئی ہے اور لوگ اپنی ضروریات کی تکمیل کے لئے ملکی بازار یا قوانین سے پرے ہو کر عالمی بازار کا حصہ بن گئے ہیں۔ انٹرنیٹ سے قبل ہمیں اپنی ضروریات کی تکمیل کے لئے مقامی وسائل پر انحصار کرنا پڑتا تھا جیسے خبریں پڑھنا یا سننا ہو تو اخبار ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی سہولت درکار تھی۔ تعلیم کے لئے اسکول کی۔ خریداری کے لئے بازار کی۔ صحت کے لئے ڈاکٹر یا دواخانے کی اسی طرح دولت کی تقسیم کے لئے بنکوں کی لیکن اب یہ ساری سہولتیں ہمیں اپنے گھر بیٹھے انٹرنیٹ کی بدولت اپنے کمپیوٹر یا فون اسکرین پر دستیاب ہیں۔ اب ہم گھر بیٹھے عالمی سطح کی کسی بھی یونیورسٹی میں داخلہ لے سکتے ہیں اور درکار فیس ادا کرتے ہوئے ایسے ڈگری حاصل کرسکتے ہیں جو ساری دنیا میں مانی جائے۔ بازار کی بات آئی تو اب ہم معیاری اشیاء کم سے کم ٹیکس ادا کئے الیکٹرانک شاپنگ مراکز امیزان۔اسناپ ڈیل ای بائی وغیرہ پر حاصل کرسکتے ہیں۔

یہ لوگ سامان گھر پہونچانے کے بعد پیسے لیتے ہیں اور اگر آپ کو سامان پسند نہ آئے تو ایک مہینہ کے اندر واپس بھی کرسکتے ہیں۔ عوامی اعتماد اورمعیار کے بدولت لوگوں کا عالمی سطح پر بھروسہ پیدا ہوا ہے جس کی بدولت اب دنیا کے ہر کام عالمی سطح پر انٹرنیٹ پر ہو رہے ہیں اور نئی نسل کے بشمول پڑھا لکھاطبقہ اس کے ثمرات سے مستفید ہورہا ہے۔ لوگوں نے عالمی سطح پر دیکھا کہ جب دنیا کے سب کام انٹرنیٹ پر بھروسے سے ہوسکتے ہیں تو کیوں نہ ایک معیاری خیالی کرنسی تیار کی جائے جو عالمی سطح پر مقبول ہو اور جس کی قدر بھی دنیا کی کرنسیوں کے مقابلے میں مضبوط ہو۔ جس طرح آج ہم ڈیجیٹل لین دین کے ذریعے اپنی رقم کو اپنی ضروریات کی تکمیل کے لئے استعمال کر رہے ہیں جس میں حقیقی نوٹ یا سونے چانے پلاٹینیم کی قیمتی دھاتوں کے تبادلے کے بغیر ایک معیاری بنک کے بھروسے اعداد شمار کے تبادلے سے کاروبار کرتے ہیں ۔ لیکن ہندوستان ہو یا امریکہ حکوموتوں کی اچھی بری پالیسیوں کے سبب روپئے اور ڈالر کی قدر میں گراوٹ ہونے سے لوگوں میں یہ احساس پیدا ہوا کہ ان کے سرمائے کو ایسی کرنسی میں محفوظ رکھا جائے جس پر ملکی حکومتوں کے قوانین لاگو نہ ہوں اس کی شرح بھی بڑھتی رہے اور وہ افراط زر کی لعنت سے محفوظ رہے۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے ماہرین اس جانب کوشش کرتے رہے کہ اس طرح کی کوئی خیالی کرنسی تیار کی جائے جو عالمی سطح پر عوام کے اعتماد اور بھروسے پر کھری اترے چنانچہ چین کے ایک ماہر “ساتوشی ناکاموتو ” نے اسی ڈیجیٹل کرنسی کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک تفصیلی پیپر شائع کیا اور کچھ ہی دن میں 3جنوری2009ء کو ساتوشی ناکاموتو نے” بٹ کوائن” نامی خیالی کرنسی پیش کی جسے انگریزی میں ورچوئل کرنسی کہا گیا۔چینی زبان میں لفظ “ورچوئل ” کا ترجمہ ( Created from nothing )ہے یعنی ایک ایسی چیز جو کسی بھی شئے سے نا بنی ہو۔عموماً ڈیجیٹل کرنسی کو ورچوئل (خیالی یا مجازی) کرنسی بھی کہتے ہیں۔

کرنسی کو ورچوئل کہنا اکثر ڈیجیٹل کرنسی ماہرین کی طبعیت پر گراں گزرتا ہے۔ وہ اس لئے کہ ” ورچوئل” لفظ یعنی “اصل جیسے” کے لئے استعمال کیا جاتا ہے لیکن “اصل ” کے لئے نہیں جب کہ ڈیجیٹل کرنسی ایک الیکٹرونک رجسٹر میں محفوظ کی جاسکتی ہے۔ دراصل یہ ورچوئل کرنسی ایک حقیقت ہے اور موجود ہے اس لئے ورچوئل کو ڈیجیٹل کرنسی کہا جائے تو بہتر ہے۔ یہاں یہ بتانا بے حد ضروری ہے کہ بٹ کوائن کا کوئی “مالک یا اونر ” نہیں ہے۔ یہ کرنسی “ریگولیٹڈ ” بھی نہیں ہے۔ یہ کرنسی ایک دوست سے دوسرے دوست تک کسی بینک یا انسٹی ٹیوشن کے عمل دخل کے بغیر منتقل کی جاسکتی ہے ، یعنی باقاعدگی سے کوئی ٹریس نہیں کرسکتا کیونکہ یہ کرنسی ملکوں کے قوانین اور اکنامکس کے کئی اصولوں سے مبرا ہے۔ یہ کرنسی انٹرنیٹ کی طرح غیر مرکوز ہے یعنی جیسے انٹرنیٹ کا کوئی دیس نہیں ہے اس کرنسی کا بھی کوئی وطن نہیں ہے۔ یہ کرنسی صرف اس لئے آج تک زندہ ہے کیونکہ کروڑوں کمپیوٹر ایک دوسرے سے رابطے میں ہیں۔”ڈیجیٹل کرنسی ” انکرپشن (خفیہ کاری) کے ذریعے پیدا ہوتی ہے اور انکرپشن ہی کے ذریعے اس کی مانیٹرنگ بھی کی جاتی ہے۔رقمی لین دین ایک پبلک لیجر(Ledger) میں محفوظ ہوجاتی ہیں جسے ٹرانسیکشن بلاک چین بھی کہتے ہیں۔نئی اور جدید کرنسی پیدا کرنے والے اس عمل کو “مائننگ” کہتے ہیں۔ جیسے حکومتیں نوٹ چھاپنے کے اداروں ٹکسال سے سکے ڈھالتی ہیں اور اور نوٹ چھاپتی ہیں اسی طرح ورچوئل کرنسی بٹ کوائن کو ڈھالا گیا یہ کام چار سال میں ایک مرتبہ انجام دیا جانا طے پایا۔ پرانے زمانے میں شیطانی ذہن کے سنار کے برخلاف جس نے سونے کی مقدار سے زیادہ نوٹ چھاپتے ہوئے افراط زر کو ہوا دی تھی بٹ کوائن والوں نے یہ کیا کہ من مانی بٹ کوائن کرنسی جاری نہیں کی بلکہ اپنی پیش کردہ ورچوئل کرنسی کی عالمی مارکیٹ میں قدر بڑھانے کے لئے نئی کرنسی ڈھالنے کی حد مقرر کردی۔ اب عالمی مارکیٹ میں اس کے 13ملین بٹ کوائن دستیاب ہیں اور بٹ کوائن والوں نے طے کرلیا ہے کہ دنیا میں صرف 21ملین بٹ کوائن کی ڈھالے جائیں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کی کروڑوں آبادی کے لئے صرف اکیس بلین بٹ کوائن کیسے بس ہوں گے تو انہوں نے سونے کی مثال دی کہ سونا مقدار میں کم ہے تو اسے تولہ ماشہ تک کم کیا گیا اور اس کی قدر مقرر کی گئی۔

اسی طرح بٹ کوائن کو بھی دس کروڑ حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے یعنی موجودہ ایک بٹ کوائن کے ایک ہندسے کے آگے آٹھ صفر تک لگ سکتے ہیں۔بٹ کوائن والوں نے سونے کے چھوٹے حصے گرام یا ماشہ کی طرح ان حصوں کے نام بٹ کوائن کے خالق ساتوشی کے نام پر رکھا ہے ۔ساتوشی کون ہے اس حقیقت پر پردہ پڑا ہوا ہے لیکن اب دنیا میں بٹ کوائن کے خالق اور اس کے نام پر اس کے حصوں کو ساتوشی کہا گیا۔ یعنی اگر ایک بٹ کوائن کے آپ مالک ہیں تو آپ مجازی طور پر دس کروڑ ساتوشی کے مالک ہیں۔ سونا دنیا میںکم دستیاب ہے تب ہی اس کی قدر روپئے کے مقابلے میں بڑھتی رہتی ہے اسی طرح بٹ کوائن کو بھی عالمی مارکٹ میں روپیہ اور سونے سے بھاری بنانے کے لئے اس کے تخلیق کاروں نے اس کی حد مقرر کردی ہے اب بٹ کوائن کی حد کو2020میں بڑھایا جائے گا۔ یہی وجہہ ہے کہ ابتداء میں اس مجازی یا خیالی کرنسی کو رواج دینے کے بعد اس کے تشہیر کی گئی بڑے بڑے ادارروں نے اس میں اپنی دلچسپی دکھائی تب اس کی قدر بڑھنے لگی۔ بٹ کوائن کی قدر کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ آج کی تاریخ میں ایک بٹ کوائن کرنسی کی ہندوستانی خریداری کی قدر 14,05,293 روپئے ہے اور اس کی فروخت کی قدر 13,75,079ہے۔ ایک بٹ کوائن کا مالک ہندوستانی چودہ لاکھ روپئے تک عالمی منڈی میں آن لائن خریداری کرسکتا ہے۔ بٹ کوائن اعداد شمار کی کرنسی ہے اور یہ سارا کھیل اعداد شمار اور بھروسے کا ہے۔ بٹ کوائن کی قدر کیسے بڑھی دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ عالمی سطح پر بڑے مالیاتی اداروں کے ماہرین مالیات نے اس کرنسی کی حقیقت کو تسلیم کیا ہے۔ سٹی بنک کے چیف اکزیکٹیو آفیسر وکرم پنڈت کا کہنا ہے کہ بٹ کوائن دنیا کے معاشی نظام میں بدلائو لائیں گے۔

اس کرنسی کے بارے میں عالمی رائے عامہ کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ریزرو بنک آف انڈیا کے ایک سابق صدر نشین کا کہنا ہے کہ ورچوئل کرنسی طویل مدتی بنیاد پربرقرار رہ سکتی ہے اگر اس میں لوگ زیادہ سے زیادہ معاملت کرنے لگیں اور اس میں ادائیگی کا نظام موثر ہو۔گوگل کے چیف اکزیکٹیو آفیسر اریک اسمتھ کا کہنا ہے کہ بٹ کوائن کی طرح کی ورچوئل کرنسی دنیا بھر میں ایک بڑی کامیابی ہے چونکہ اس کی نقل نہیں ہے اس لئے اس کی بہت بڑی قدر ہے۔پے پال کے بانی پیٹر تھیف کا کہنا ہے کہ بٹ کوائن پہلی ورچوئل کرنسی ہے جو عالمی نظام کو بدل سکتی ہے۔بل گیٹس کا کہنا ہے کہ بٹ کوائن موجودہ زمانے کی بڑی طاقت ہے۔ایک سابق نوبل انعام کے نامزد کردہ دانشور کا کہنا ہے کہ ہر پڑھے لکھے کو بٹ کوائن یا ورچوئل کرنسی کے بارے میں جانکاری رکھنا چاہئے کیوں کہ آج دنیا کہ یہ ایک اہم ترقی اور تبدیلی ہے۔ آر بی آئی کے سابق گورنر مشہور ماہر مالیات رگھورام راجن نے بھی کہا کہ اس طرح کی ورچوئل کرنسی کا مستقبل ہے اور ہندوستا ن میں اسے مقبولیت حاصل ہوسکتی ہے آج جس طرح کریڈٹ کارڈ ایک حقیقت ہے اسی طرح ورچوئل کرنسی بھی حقیقت بن سکتی ہے۔ بٹ کوائن کی شرعی حیثیت کیا ہے مسلمان بھی جاننا چاہیں گے۔دارالعلوم دیو بند سے کسی نے بٹ کوائن کی شکل میں سرمایہ کاری کا اسلامی جواز طلب کیا جس کا جواب یوں دیا گیا کہ ہر ملک کی کرنسی کے پیچھے حکومت کی طمانیت ہوتی ہے اور اس کا اقتصادی نظام کرنسی کی قدر طے کرتا ہے بٹ کوائن چونکہ فرضی کرنسی ہے اور عالمی سطح پر اجتماعی اعتماد ظاہر کرتے ہوئے شروع کی گئی تو اس کی طمانیت کی کوئی گیارنٹی نہیں اس لئے اس طرح کی کرنسی میں سرمایہ کاری کو ناجائز قرار دیا گیا ہے۔اسلامی ماہرین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ دنیا میں آئے دن اٹھنے والے دجالی فتنے دنیا کو اپنے قابومیں رکھنے کے لئے دنیا کی دولت پر اپنا تصرف چاہتے ہیں اور وہ روایتی سونا یا جائیداد کی شکل میں دولت محفوظ رکھنے کے بجائے ایسے طریقے دکھائیں گے کہ آپ کی ساری دولت ان کے ہاتھوں میں آجائے پھر ایک دن وہ اپنے دجالی عزائم کا اظہار کرکے آپ کو ان کی کٹھ پتلی بنادیں اس لئے اسلام میں مال کا جو تجارتی نظام اور زکوة کا نظام ہے اسے ہی فطری سمجھا جائے اور اس طرح کے نظام کے کبھی بھی بکھرنے کے امکانات ہوسکتے ہیں۔

اس طرح کی ورچوئل کرنسی میںبڑی مالیاتی کمپنی پے پال اور ای بے نے بٹ کوائن کی خریداری میں سرمایہ کاری کی ہے۔ بڑی عالمی کمپینیاں مائیکرو سافٹ۔ڈیل۔پے پال۔ایکس پیڈیا اور عالمی سطح پر 60ہزار کے قریب چھوٹی اور درمیانی پیمانے کی کمپنیاں بھی خرید و فرخت کے لئے بٹ کوائن کو قبول کر رہی ہیں۔اور اگلے سال تک ان کمپنیوں کی تعداد دیڑھ لاکھ سے بڑھنے والی ہے۔بٹ کوائن سے یومیہ سطح پر خریداری کرنے والوں کی تعداد 2014تک بہت کم تھیں اب دس لاکھ یومیہ ہوگئی ہیں۔دوسال قبل تک بٹ کوائن رکھنے والوں کی تعداد کم تھی اب دنیا بھر میں 80لاکھ بٹ کوائن والیٹ ہیں۔ جس طرح ہم پے ٹی ایم یا دیگر منی ٹرانسفر ویلٹ رکھتے ہیں اسی طرح بٹ کوائن کے ای والیٹ بھی گوگل پلے اسٹور پر دستیاب ہیں ۔ ہندوستان میں zebpayنام سے اپلیکیشن دستیاب ہے جسے ڈائون لوڈ کرنے کے بعد آپ اپنا بٹ کوائن اکائونٹ بنا سکتے ہیں جس سے آپ بٹ کوائن خرید یا فروخت کرسکتے ہیں اور اس میں موجود آپ کی بٹ کوائن دولت سے عالمی سطح پر تجارت کرسکتے ہیں۔بٹ کوائن کے دنیا بھر میں320اے ٹی ایم بھی ہیں جسے استعمال کرتے ہوئے آپ خرید و فرخت کرسکتے ہیں اس کی تعداد مستقبل میں بڑھنے کا امکان ہے۔ان اے ٹی ایم سے آپ بٹ کوائن کے بدل مقامی کرنسی بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ یعنی آپ دنیا کے کسی بھی حصے میں ہوں اپنے بٹ کوائن کھاتے کی مدد سے وہاں کے اے ٹی ایم سے مقامی کرنسی حاصل کرسکتے ہیں۔یہ کرنسی حسابی عمل لوگرتھم کی بنیاد پر کام کرتی ہے،جس کے لئے کمپیوٹر کو انٹر نیٹ سے منسلک کر کے، کمپیوٹر کے پروسیسر سے کام لیا جاتا ہے۔ جس کمپیوٹر کا پروسیسر جتنا طاقتور ہوتا ہے، اتنی جلد وہ حسابی عمل لوگرتھم کا سوال حل کرکے بٹ کوائن بناتا ہے۔

بٹ کوائن کی قدر اس کی تخلیق کے سال2009کے ابتدائی چند سال میں اندرون ایک ڈالر ہی تھی۔ ابتداء میں دس بٹ کوائن کے بدلے ایک پزا ملا کرتا تھا۔ابتدائی اتار چڑھائو کے بعد بٹ کوائن کی قدر 1150امریکی ڈالر ہوئی۔پھر اس میں گراوٹ آئی اور اب تین سو ڈالر کے آس پاس رہی۔ 2009 سے بٹ کوائن کو لوگوں نے سنجیدگی سے لینا شروع کردیا۔ آج سب سے زیادہ کامیاب ڈیجیٹل کرنسی یعنی 1 بٹ کوائن 4000 پائونڈ سے زیادہ کا ہے۔ دنیا میں ایک ہزار سے زیادہ کرپٹو کرنسیز ٹریڈنگ کے لئے موجود ہیں۔ اس مارکیٹ کی سرمایہ کاری 100 بلین ڈالر سے تجاوز کرچکی ہے۔ جس طرح ہم روز ڈالر ریال یا دیگر بڑی کرنسیوں کی قدر معلوم کرتے ہیں اسی طرح انٹرنیٹ پر بٹ کوائن کی بڑھتی گھٹی قدر معلوم کرسکتے ہیں۔ ہندوستان میں حالیہ عرصے میں حکومت کی جانب سے لائے جانے والے ایک قانون ایف آر ڈی آئی بل کے خدشات سے ڈرتے ہوئے کہ حکومت بنکوں میں ان کی جمع شدہ فکسڈ ڈپازٹ رقومات دیوالیہ کا شکار بنکوں کو سہارا دینے کے لئے استعمال کرسکتی ہے لوگ اس تشویش میںہیں کہ ان کی دولت کو محفوظ طریقے سے کہاں سرمایہ کاری کریں۔ سونا زیادہ رکھ نہیں سکتے چوری کا ڈر ہوتا ہے۔ جائیداد زیادہ رکھ نہیں سکتے کہ حکومت جائیداد پر شکنجے کسنے والی ہے۔ شیر مارکیٹ بے بھروسہ ہے کیوں کہ جتنے بھی کاروباری ادارے ہیں اقدار سے عاری ہونے کے سبب بے بھروسہ ہوگئے ایسے میں لوگ اس طرح کی ورچوئل کرنسی رکھنے کی سوچ رہے ہیں۔ اور اس کے خالقوں نے بھی دنیا کہ ایسے ہی بگڑتے مالیاتی نظام کو دیکھ کر یہ نظام شروع کیا ہے۔بٹ کوائن کی عالمی میڈیا اداروں جیسے سی این این وال اسٹریٹ اور دیگر اداروں سے خوب تشہیر ہوئی ہے۔

ہندوستان میں zebpayایک بھروسہ مند بٹ کوائن پلیٹ فارم کے طور پر ابھر رہا ہے۔
مغربی دنیا میں رہنے والے دوست یہ بات جانتے ہیں کہ آن لائن شاپنگ کا رجحان پچھلے پانچ سال میں کس قدر بڑھ چکا ہے۔کرپٹو کرنسی اسی طرح استعمال ہوتی ہے جس طرح آپ پے پال (PayPal) یا کریڈٹ کارڈ سے آن لائن شاپنگ کرتے ہیں۔کیا یہ پیسے چوری ہوسکتے ہیں؟یہ ایک اہم سوال ہے اور اس کا جواب ہے، جی ہاں۔ یہ پیسے بھی چوری ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ کے بٹ کوائن والٹ کی اسناد چوری ہوگئی تو سمجھیں بٹ کوائن بھی گئے۔ ” بٹ کوائن والٹ ” ایک بٹوا ہے جس میں آپ اپنے بٹ کوائن محفوظ رکھتے ہیں۔ اس کے لئے اپنے اکائونٹ کو محفوظ رکھا جائے اور بٹ کوائن والوں کا کہنا ہے کہ اس میں ہیکنگ کے امکانات کو کم کیا گیا ہے یعنی فون یا انٹرنیٹ کو ہیک کرکے کوئی بٹ کوائن چرا نہیں سکتا۔ لیکن جب تک عالمی سطح پر اس کرنسی پر اعتماد رہے گا اس کی قدر بڑھتی رہے گی۔ ہر طرح کی سرمایہ کاری میں خطرہ ہوتا ہے مگر کرپٹو کرنسی کا موازنہ اگر روایتی سرمایہ کاری سے کیا جائے جیسے جائیداد اور اسٹاکس تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ کرپٹو کرنسی کو زیادہ خطرہ لاحق ہو گا کیونکہ بہت نئی ہے اور فطراً زیادہ رسکی ہے۔کیا آپ کو کرپٹو کرنسی میں سرمایہ کاری کرنا چاہیے ؟اس کے لیے آپ کو ہوم ورک کرنے کی ضرورت ہے۔ بٹ کو ا ئن خاصی تحقیق وتجسس کا موضوع بھی رہا ہے، کیونکہ کرپٹوگرافی کرنسی ہونے کی وجہ سے اس کے مالکان اور صارفین پتہ لگانا خاصا مشکل ہے، اس وجہ سے اس کا غیر قانونی استعمال بھی کیا جاسکتا ہے۔ ہمیں اس کرنسی کی خریداری یا معاملت سے قبل اپنے ملک کے قوانین کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کسی ماہر سے ملنے کی ضرورت ہے جو آپ کو اس کرنسی میں سرمایہ کاری کے منفی اور مثبت عناصر کے بارے میں صحیح سے سمجھا سکے۔ بہر حال انٹرنیٹ کی ترقی دنیا کے سکڑتے مزاج اور عالمی بازار میں اپنی ساکھ قائم رکھنے کے لئے ذہین لوگ اس طرح کی کرنسی کے ساتھ سامنے آئے ہیں یہ میڈیا کی تشہیر ‘اعتماد کا کھیل ہے اور بڑے سرمایہ کاروں کے نام سے چل رہا ہے ہندوستان میں بٹ کوائن ابھی عام آدمی کو سوچ سے دور ہے لیکن اپنے سرمایہ کو محفوظ رکھنے اور حکومتوں کی نااہلی سے اپنی جمع پونجی کھونے کے ماحول میں لوگوں کو چاہئے کہ وہ بٹ کوائن کی طرح محفوظ سرمایہ کاری کے ذرائع سے باخبر رہیں۔

Aslam Faroqui

Aslam Faroqui

تحریر : ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی
draslamfaroqui@gmail.com