تحریر : محمد ارشد قریشی آپ نے روز ہی دیکھا ہوگا جب آپ صبح گھر سے اپنے کام کاج کے لیئے نکلتے ہیں تو سڑک کے دونوں اطراف مزدور اپنی مزدوری کے انتظار میں اپنے اوزاروں کے ساتھ بیٹھے رہتے ہیں۔ میں اکثر ان کو دیکھتا ہوں کہ جب کوئی کار یا موٹر سائیکل ان کے قریب آکر رکتی تو سب بھاگ کر اس کے پاس اکھٹے ہوجاتے اس آس پر کہ یہ روزی آج انھیں ملے گی اور پھر ایک یا دو مزدور اس کے ساتھ چلے جاتے اور باقی پھر اپنی روزی کے انتظار میں بیٹھ جاتے بعض اوقات تو کچھ مزدور شام تک بھی وہاں موجود ہوتے ہیں جنہیں کوئی روزگار نہیں ملا ہوتا یہ سب دیکھ کر دل بہت افسردہ ہوتا ہے کہ ایک مزدور فٹ پاتھ پر بیٹھ کر اپنی روزی کا انتظار کرتا ہے کبھی کبھی پورا دن انتظار کے بعد بھی اسے روزی میسر نہیں آتی۔
اسی طرح ان مزدوروں پر بھی روز ہی نظر پڑتی ہے جنھیں زیر تعمیر مکان یا سڑک کی کھدائی وغیرہ میں چند دن کے لیئے روزگار مل جاتا ہے اسی طرح میری نظر اپنے محلے میں زیر تعمیر ایک عمارت میں کام کرتے ایک ایسے مزدور پر پڑی جو ایک باریش انسان تھا شائید اس کی عمر 70 سال کے لگ بھگ ہوگی وہ تمام دن اپنی کمر پر بلاک لاد کر دوسری منزل کی چھت تک لے جاتا تھا اسے دیکھ کر حیا بھی آرہی تھی اور فخر بھی ہورہا تھا کہ اس عمر میں بھی اتنی ہمت کرکے مزدوری کررہا ہے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلارہا پھر مجھے خیال آیا کہ ہر ادارے میں مزدوروں کی ایک یونین ہوتی ہے جو ان کے حقوق کی جدوجہد کرتی ہے ان بیچاروں کی تو کوئی یونین بھی نہیں اچانک خیال آیا کہ تمام مزدوروں کا ایک دن یکم مئی کو یوم مزدور کے نام سے منایا تو جاتا ہے لیکن اسے کیوں منایا جاتا ہے اور اس دن کے منانے سے ان مزدوروں کی حالات زندگی پر کوئی مثبت اثرات بھی ہوتے ہیں کہ نہیں سوچا میں بھی اس مرتبہ ان مزدوروں کے دن یوم مزدور پر کچھ لکھتا ہوں لیکن کچھ لکھنے سے پہلے ان کے اور ان کے منائے جانے والے دن کے بارے میں جاننا ضروری ہے جب اس غرض سے کئی جگہ مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ مزدورکے اس دن منانے سے ان مزدوروں پر ایک رتی برابر بھی کوئی مثبت اثرات نہیں ہوتے بلکہ اس دن کے منانے سے وہ مزید مشکلات سے دوچار ہوجاتے ہیں۔
یہ دن کیوں اور کب سے منایا جاتا ہے یوم مزدور، یکم مئی، مزدور کا عالمی دن یا لیبر ڈے ہم کیوں مناتے ہیں ہوتا یہ تھا کہ مزدور سے جانور کی طرح دن میں 16۔16 گھنٹے کام لیا جاتا تھا تنخواہ بھی کچھ خاص نہیں تھی اور اورٹائم کا تو تصور ہی نہیں تھا ڈیوٹی کے دوران اگر کوئی مزدور زخمی ہو جاتا یا مر جاتا تو اس کے تمام اخراجات خود مزدور کے ذمہ تھے فیکٹری یا مل کی طرف سے ایسا کوئی قانون نہیں تھا کہ مزدور کو زخمی ہونے کی صورت میں اس کا علاج کروایا جاتا مزدور کی ملازمت کا فیصلہ مالک کی صوابدیدی پر ہوتا وہ جس کو چاہتا ملازمت پر رکھتا اور جس کو چاہتا ملازمت سے ہٹا دیتا ہفتے میں سات دن کام کرنا پڑتا، چھٹی کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔
Workers Rights
1886میں امریکی ریاست شکاگو میں اپنے حقوق کے لیے احتجاج کے دوران محنت کشوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا ان ہی محنت کشوں کی یاد میں یکم مئی کو مزدوروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ شکاگو ہی وہ شہر ہے جہاں سے اس تحریک کا آغاز ہواتھا یومِ مزدور بھی اب بہت سے دوسرے ایام کی طرح ایک تقریب اور تہوار بن کر رہ گیا ہے کیا اسی کا نام یومِ مزدورہے؟ جس میں طے پایا تھا کہ اب مزدور کے آٹھ گھنٹے کے اوقات کار ہوں گے پاکستان سمیت کتنے ہی ممالک میں یہ حق کب کا سلب ہو چکا ہے۔
یکم مئی 1972ء کو پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت نے پہلی مرتبہ باضابطہ طور پر سرکاری سطح پر یکم مئی کو محنت کشوں کا دن قرار دیا تب سے اب تک ہرسال یکم مئی کو ملک میں عام تعطیل ہوتی ہے اور پاکستان کے تمام محنت کش دنیا بھر کے محنت کشوں کے ساتھ مل کر اپنے ان ساتھیوں کی یاد تازہ کرتے ہیں جو ان کے حقوق کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے یکم مئی 1886ء کو ہلاک ہوئے تھے لیکن ایسا کرنے سے انھیں قطعی طور پر کوئی فائدہ نہیں ہوتا پاکستان میں ہر عہد کی حکومت نے مزدوروں کا مزاق اڑایا حکمرانوں نے مزدوروں کے نام پر یہ سیاسی کھیل بھی کھیلا کہ بقول انکے انہوں نے کارخانوں، ملوں اور کمپنیوں میں مزدوروں کو شیئرز یعنی حصص دینے کا اعلان کیا ہے بیچارے مزدور کہ جنہیں شیئرز کا مطلب بھی معلوم نہیں پا کستان میں بھٹہ مزدور تو سامنے کی بات ہے کھیت میں مزدوری کرنے والے، فیکٹریوں میں کام کرنے والے افراد اور اسکے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں میں سلائی کڑھائی کرنے والی خواتین کا جو استحصال ہو رہا ہے اس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ مزدور حقوق کی تحریک نے جو حقوق حاصل کیے تھے آج دوبارہ سلب ہوچکے ہیں۔
انٹر نیشنل لیبر آرگنائیزیشن کی طرف سے مزدوروں کی حفاظت کے لیئے دیا گیا قانون (او ایس ایچ اے) جو مزدوروں کے استحصال کو تو نہیں بہر کیف جسمانی مشقت کے دوران مزدوروں کو جسمانی حفاظت کا ادنیٰ سا حق دیتا ہے اس قانون کے مطابق ہرریاست یا متعلقہ کمپنی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے پاس کام کرنے والے مزدوروں کو تمام حفاظتی سامان جو کام کرتے وقت انکی حفاظت کیلئے ضروری ہے مہیا کرنے کی پابند ہو گی، جیسے کہ حفاظتی ٹوپی، حفاطتی بوٹ، حفاظتی بیلٹ، حفاظتی عینک اور کام کی نوعیت کے مطابق مختلف سامان حفاظت۔
ترقی یافتہ ممالک میں اس قانون پر کسی حد تک عمل کیا بھی جاتا ہے جسکا مقصد مزدور کی حفاظت کرنا نہیں بلکہ مقابلہ بازی کیلئے اپنی کمپنی کی ساکھ بچانا ہوتا ہے۔ بہر حال پاکستان جیسے ملک میں جہاں سرمایہ داری اپنے اصولوں سے ہی ہٹ چکی ہے، مقابلہ بازی کی بجائے یہاں مافیا کا وجود ہے، غریبوں کے جنازے اٹھنا معمول ہے، بے روزگاری کی شرح میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ کمپنیاں اپنے منافع میں سے مزدوروں کی حفاظت پر خرچنے کو کیونکر ترجیح دیں گی؟ یہاں سیفٹی کے قوانین لاگو ہونا ایک جھوٹ کے سوا کچھ بھی نہیں ہو سکتا اس کا واضح اظہار ہمیں تعمیراتی شعبے میں نظر آتا ہے پاکستان میں ہر چھوٹے تعمیراتی کام سے لیکر بڑے سے بڑے کام تک ٹھیکیداری نظام کا راج ہے ٹھیکیداروں کو مزدوروں کی حفاظت پر خرچ کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں، انہیں اپنا کام کم سے کم لاگت میں مکمل کر کے زیادہ سے زیادہ منافع کمانا ہوتا ہے، سیفٹی کے قوانین کے مطابق کام کرنے سے وقت بھی زیادہ لگتا ہے، لہٰذا کم سے کم وقت میں کام کرنے کیلئے ضروری ہے کہ مزدوروں کی جان جوکھوں میں ڈال دی جائے۔ کتنے ہی مزدور کام کے دوران مر جاتے ہیں یا اپاہج ہو کر خاندان کا سہارا بننے کی بجائے بوجھ بن جاتے ہیں۔
Pakistan Labour
یکم مئی کو پاکستان بھر میں مزدور ہر روز کی طرح اپنے کام میں مشغول رہتے ہیں اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے محنت کرتے ہیں ان کو اس دن سے کوئی سروکار نہیں، بس اپنے بچوں کے لیے روزی کمانے سے غرض ہے۔ ویسے کبھی کسی حکومت نے ایسے اقدام اٹھائے ہیں کہ یکم مئی کے دن ان مزدور وں کو جو روزانہ کی بنیاد پر کام کرتے ہیں(ڈیل ویجز) حکومتی سطح پر کوئی وظیفہ دیکر ان کو چھٹی بھی دی گئی ہو کیونکہ یکم مئی ان کا دن ہے اور وہ اس دن اپنے فیملی کے ساتھ ہنسی خوشی گزار سکیں۔
یکم مئی کو عالمی چھٹی ہوتی ہے اس دن تمام لوگ اپنے گھروں میں چین کی نیند سورہے ہوتے ہیں یا چھٹی کافائدہ اٹھا کر گھوم پھر رہے ہوتے ہیں اور مزدور اس دن بھی مزدوری کی تلاش میں بھٹک رہا ہوتا ہے۔ ماسیاں، مالی، ڈرائیور، خانساما، آیا، چوکیدار سب ہی کام پر حاضر ہوتے ہیں انہیں ان کے ہی دن پرانہیں چھٹی میسر نہیں ہوتی اس دن مزدور عام دن کی نسبت زیادہ کام کرتا ہے شاید اس لیے کہ آج اس کا خصوصی دن ہے مزدوروں کے عالمی دن پر پاکستان میں بتائیں کسی امیر کی فیکٹری یاپٹرول پمپ وغیرہ بند کیے گئے ہوںیا کسی نے اپنے گھر کی تعمیر رکوائی ہو کہ چلو آج ان کا دن ہے اور ان کی چھٹی کردیں ہو سکتا ہے کہ یہ امیر لوگ اس دن کی چھٹی کربھی دیں مگر وہ مزدور کیا کرے گا جس کی شام کی روٹی اس دھیاڑی (ڈیلی ویجز)پر منحصر ہے اگر اس نے چھٹی کر لی تو وہ رات کو اپنے بچوں کو کیا کھلا کر سلائے گا۔
Celebration
دن منانے کا رواج تو اہل مغرب کی ایک سازش ہے کہ کسی کے حقوق دبائے رکھو اور سال بھر میں اس کے نام کا صرف ایک دن منا لواس دن ان کی خاطر لمبی چوڑی اور جذباتی انداز میں تقریریں کر کے ان کو زبانی کلامی خراج تحسین پیش کرتے رہو کہ تا کہ کام بھی نکلتا رہے اور مظلوم کا استحصال بھی جاری رہے۔ ان کو اپنے ہاں سے کچھ نہ دینا پڑے اور محض ان کے نام پر نعرے بازی، مظاہروں او ریلیوں سے ان کے پیٹ بھر دیے جائیں ۔ ہمارے معاشرے کی بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ ہم بھی بڑے ذوق شوق سے ان دنوں کو منانے میں مغرب کی کی تقلید کرتے ہیں جن کا ہمارے معاشرے سے دور دور کا تعلق بھی نہیں جن میں مدر ڈے، فادر ڈے، ویلنٹائن ڈے، ٹیچر ڈے اور بہت سے ڈے سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ ایک واحد اسلامی مملکت جو اسلام کے نام پر حاصل کی گئی تھی اب ہم مغرب کی تقلید میں ہر ہفتے سنڈے مناتے ہیں جبکہ اسلام کی رو سے ہمارا سب سے معتبر دن جمعہ کا دن ہے جیسا کہ تمام اسلامی ممالک میں چھٹی کا دن ہوتا ہے۔ اب ذرا دیکھیں تو پیٹ کے جہنم کو بھرنے کے لیئے روز آنہ کی بنیاد پر کام کرنے والے مزدور جن کے لیئے یہ دن منایا جاتا ہے وہ خود اپنے دن کے موقع یوم مئی پر کیا کہتے ہیں جب میں نے ایک مزدور سے یوم مئی کے حوالے سے پوچھا تو اس کا کہنا تھا۔
میرے پانچ بچے ہیں، میرے گھر کا روزانہ خرچ پانچ سو روپے ہے اگر میں ایک دن چھٹی کروں تو یہ پانچ سو روپے کہاں سے لاؤں۔ ہمیں یہ دن یوم مئی کچھ نہیں دیتامیں نے تو نہ کبھی اتوار کو چھٹی کی اور نہ جمعہ کو اور مجھے نہیں پتہ یہ مزدورں کا دن کیا ہوتا ہے اور اگر ہوتا ہے تو ہمیں اس سے کیا فائدہ ہوتا ہے اگر اس دن بھی ہم کام نہ کریں تو کون ہمارے بچوں کو ایک وقت کی روٹی دیگا اگر حکومت کو ہمارا ذرا سا بھی خیال ہے تو کم از کم ان کے بنائے ہوئے اس نام نہاد دن ہمارے لیئے مفت طبی ادویات کا ہی انتظام کریں مفت علاج کی سہولت ہی دے دیں ہم تو بیماری سے بھی مررہے ہیں اور بھوک سے بھی۔ شاعر مشرق علامہ اقبال نے مزدوروں کی حالت زار دیکھ کر رب کائنات سے کچھ یوں شکوہ کیا تھا۔
تو قادر و مطلق ہے مگر تیرے جہاں میں ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات