بھارت میں الیکشن ہو گئے بی جے پی نے ہزاروں مسلمانوں کے قاتل نریندر مودی کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار نامزد کیا ہوا ہے۔انتخابی مہم کے دوران نریندر مودی اور اسکی پارٹی کے امیدواروں کی طرف سے بھارت کے لاکھوں مسلمانوں کی دل آزاری کی گئی۔مودی کے وزارت اعلیٰ کے دور میں جہاں مختلف فسادات میں مسلمانوں کو شہید کیا گیا تو اب انتخابی مہم میں بھی مسلمانوں کو خصوصی نشانہ بنایا گیا ہے۔بھارت میں ہندو انتہا پسند تنظیم بی جے پی کے جنرل سیکرٹری اور نریندر مودی کے دست راست امیت شاہ نے مظفر نگر میں مسلمانوں کا قتل عام کرنے والے ہندو انتہا پسند جاٹوں کو ایک بار پھر بھڑکاتے ہوئے کہا ہے کہ وہ مسلمانوں سے فسادات کا بدلہ لینے کیلئے بی جے پی کو ووٹ دیں۔مظفر نگر کے دورہ کے دوران ہندو انتہا پسند جاٹ برادری کے لوگوں سے ملاقات کے دوران امیت شاہ نے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمانوںنے ہندوئوں کی عزت پر حملہ کیا ان سے کوئی بات نہیں ہو سکتی۔مسلمانوںنے ہمارے سماج کی بے عزتی کی ہے۔
ہندو انتہا پسند لیڈر کی اس ہرزہ سرائی پر کانگریس، سماج وادی پارٹی اور عام آدمی پارٹی سمیت مختلف تنظیموںنے شدید احتجاج کیا ہے اور ریاست اتر پردیش کو ایک بار پھر ہندو مسلم فسادات میں دھکیلنے کی سازش قرار دیا ہے۔ جب امیت شاہ نے یہ ہرزہ سرائی کی اس وقت بی جے پی ممبر اسمبلی سریش رانا جو مظفر نگر فسادات کا نامز مجرم ہے’ وہ بھی وہاں موجود تھا۔ کانگریس نے الیکشن کمیشن سے امت شاہ کو مغربی اتر پردیش کے فساد متاثرہ علاقہ میں ”نفرت آمیزبیان ”کیلئے گرفتار کرنے اور ان کی انتخابی مہم پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیاہے۔پارٹی نے یہ بھی الزام لگایا کہ نریندر مودی اور ان کے ساتھی گجرات کا 2002کا فرقہ وارانہ کھیل پورے ملک میں کھیلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کانگریس کے قانونی سیل کے سیکرٹری کے سی متل نے الیکشن کمیشن میں شکایت بھی درج کروا دی ہے اور سخت کاروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ سماج وادی پارٹی نے نریندر مودی اور ان کے ساتھی امت شاہ کو”فسطائی”بتایا جبکہ بی ایس پی نے الزام لگایا کہ بی جے پی کی طرف سے وزارت عظمیٰ کے امیدوار شاہ کے ذریعے ماحول بگاڑ رہے ہیں۔کانگریس ترجمان ردیپ سرجیوالا نے کہاکہ بی جے پی ، مودی اور امت شاہ نفرت اور فرقہ وارانہ تقسیم کی سیاست کی دوبارہ کی کوشش کر رہے ہیں جیساکہ 2002میں گجرات میں ہوا تھا۔
ہم ریاستی حکومت اور الیکشن کمیشن سے مطالبہ کریں گے کہ امت شاہ اورمظفرنگر فسادات کے ملزم رکن اسمبلی سریش رانا کے خلاف مجرمانہ مقدمہ درج کیا جائے اور انہیں ملک کے کسی بھی حصے میں انتخابی مہم سے روکا جائے۔ان پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔ عام آدمی پارٹی نے کہاکہ الیکشن کمیشن کو ایسے نازک موڑ پر ایسے عناصر کو نفرت پھیلانے کی اجازت نہیں دینی چاہئے ، جب ملک عام انتخابات قریب ہیں۔یہ تبصرہ عوامی طور پر ایک کمیونٹی کے لوگوں کو دوسرے مذہبی کمیونٹی کے خلاف بدلہ لینے کے لئے بھڑکاتاہے اور اسے بغیر سزا دیئے نہیں چھوڑا جا سکتا۔ کمیشن کو فوری طور پر بی جے پی کے قومی جنرل سکریٹری امت شاہ کے خلاف فرقہ وارانہ نفرت کو اکسانے کے لئے ان کے اشتعال انگیز تبصرہ کو لے کر مجرمانہ معاملہ درج کرنے کا حکم دینا چاہئے۔ بھارتی اخبار کی رپورٹ کے مطابق سبزی خور نریندرمودی کامیاب ہونے کے بعد ملک میں وسعت پذیر گوشت کی صنعت کا خاتمہ کردیں گے اور خطرہ ہے کہ گائے کے گوشت پر پابندی عائد کردی جائیگی۔ ہندوستان میں جاری انتخابی مہم اب اپنے آخری مرحلے میں داخل ہو رہی ہے۔ بھارتی اخبار ”دی ہندو”کے مطابق مودی نے گوشت کی صنعت پر حملہ کرتے ہوئے کانگریس کی قیادت میں مخلوط حکومت پر گوشت کے رنگ کا حوالہ دیتے ہوئے ”گلابی انقلاب” کا الزام عائد کیا ہے۔ شمالی ریاست اتر پردیش میں منعقدہ ایک جلسے میں مودی نے کہا ”گلابی انقلاب ملک کی بربادی کا ایک پروگرام ہے۔
Narendra Modi
ہندوستان کے ترقی کرتے متوسط طبقے کی قابل تصرف آمدنی میں اضافے نے ملک میں گوشت کی مانگ پیدا کی ہے جس کی آبادی کا ایک بڑا حصہ روایتی طور پر سبزی خور ہے۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ نریندرا مودی نے اسی وجہ سے ہندوستان کے انتہاپسند ہندو ووٹروں کو متوجہ کرنے کیلئے گوشت کی صنعت کو یوں کھلے الفاظ میں تباہ کر دینے کی بات کی ہے۔ ہندوستان میں ذبیحہ کھانے والے مسلمانوں کی تعداد لگ بھگ 25 کروڑ ہے۔ مرغی کے گوشت کی پسندیدگی میں اضافے کے ساتھ اس کی ہندوستان بھر میں فروخت کا تخمینہ 9 ارب ڈالرز لگایا گیا ہے اور پولٹری کی صنعت کی سالانہ 20 فیصد کی شرح سے ترقی کر رہی ہے۔ گائے ہندووں میں مقدس سمجھی جاتی ہے جو ہندوستان میں اکثریت کا مذہب ہے۔ لیکن مودی نے ہر قسم کے جانوروں کو ذبح کرنے کیخلاف بات کی ہے۔ جانوروں سے ہمدردی ظاہر کرنیوالے بھارتیہ جنتا پارٹی کے مرکزی رہنما اور وزارت عظمی کیلئے نامزد کردہ نریندرا مودی کے گجرات کے وزیر اعلی ہوتے ہوئے گجرات میں 3 ہزار سے زائد مسلمانوں کو قتل کیا گیا تھا۔نریندر مودی کے اس بیان سے انڈیا میں گوشت سے متعلق صنعت کے وابستگان میں بھی کاروبار تباہ ہونے کے اندیشے کی وجہ سے سخت تشویش پیدا ہو گئی ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق غریب کسان حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے اپنے جانوروں کو قتل کرنے پر مجبور ہے۔ مودی کے انتخابی نعروں میں ملک کی بگڑتی ہوئی معاشی حالت کو بہتر بنانا بھی شامل ہے’لیکن ملکی معیشت سے 9 ارب ڈالر سالانہ کے کاروبار پر نریندر مودی کی چھری چلا کر رام رام کی پکار کاروباری لوگوں اور برآمدات سے متعلق اداروں کیلئے ناقابل فہم ہے۔ جبکہ مسلمان اور دوسری اقلیتیں اپنے سے زیادہ جانوروں کے ساتھ نرمی پر حیران ہیں۔بھارتی ریاست آسام میں ایک ایسا الیکٹرانک مشین مقامی انتظامیہ کے ہاتھ لگا ہے جس کا کوئی بھی بٹن دبانے پر ووٹ بی جے پی کے کھاتہ میں جارہا ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ٹسٹ نے انتخابی عملہ کے ہوش اْڑا دیئے ہیں کیونکہ مشین بنانے والوں نے بی جے پی کے حق میں زیادہ سے زیادہ ووٹ ڈالنے کیلئے مشین کے اندر چھیڑ چھاڑ کی ہے۔ آسام کے علاقہ جورہاٹ پارلیمانی حلقہ کے ریٹرننگ آفیسر اور ڈپٹی کمشنر وشال سنت سولنکی نے بتایا کہ الیکٹرانک کارپوریشن آف انڈیا کے انجینئرز سارے مشینوں کی جانچ کررہے ہیں۔ الیکٹرانک کارپوریشن ان دو کمپنیوں میں شامل ہے جو الیکٹرانک ووٹنگ مشین بناتی ہے۔ جورہاٹ میں 7 اپریل کو ووٹنگ ہونے والی ہے۔
کانگریس کے سینئر لیڈر سابق وزیر کرشنا ہانڈک کے بٹن کو دبایا گیا تو یہ ووٹ بی جے پی کے حق میں چلا گیا۔ اس پر سیاسی پارٹیوں نے نمائندگی کی ہے اور مشین کی خرابی یا چھیڑ چھاڑ کی شکایت کی ہے۔ انتخابی عملہ اس شکایت کا جائزہ لیتے ہوئے جانچ کررہا ہے۔بھارت میںالیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعہ آزمائشی پولنگ کے دوران آسام میں ہر بٹن کا نتیجہ بی جے پی کے حق میں نکلنے کی شکایت سامنے آنے کے بعد مختلف معاشرتی تنظیموں نے الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا ہے کہ مرحلہ وار عام انتخابات پر پندرہ بیس دن آگے بڑھا کر 2014 کے الیکشن کو واپس بیلٹ پیپر کے ذریعہ مکمل کیا جائے۔ غیر سرکاری تنظیم انہد، پی یو سی ایل گجرات اور معاشرتی خدمت گار مہیش پانڈے نے زور دے کر کہا کہ 2012 سے مسلسل اس سلسلے میں شکایات کرنے کے باوجود الیکشن کمیشن نے اب تک کوئی نوٹس نہیں لیا جو سیکولر اور جمہوری اقدارکے حق میں اب خطرناک شکل اختیار کرسکتا ہے۔
مذکورہ تنظیموں نے الیکشن کمیشن کے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہ الیکٹرانک مشین سے چھیڑ چھاڑ ممکن نہیں’ کہا کہ آسام کے حالیہ واقعہ کے علاوہ 2012 میں گجرات انتخابات میں بے ضابطگیوں کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان لوگوں نے کہا کہ ای وی ایم کے استعمال سے جمہوریت کو شدید خطرہ لاحق ہوگیا ہے جسے ٹالنا الیکشن کمیشن کے فرائض منصبی میں شامل ہے لیکن کمیشن کا حال یہ ہے کہ دسمبر 2013 کی شکایت کا غیر تشفی بخش جواب اپریل 2014 میں یہ دیا گیا ہے کہ مشین سے چھیڑ چھاڑ ممکن نہیں۔بھارتی میڈیا کے مطابق مسٹر سرجے والا نے کہا کہ لوک سبھا الیکشن کے لئے اب تک اپنا منشور جاری نہیں کرپانے والی بی جے پی کو اب اسے جاری کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ مسٹر مودی اور مسٹر شاہ اپنی تقریروں میں جس زبان کا استعمال کر رہے ہیں وہی بی جے پی کا اصل انتخابی منشور ہے۔ مسٹر مودی کے قریبی افراد 2002 کے گجرات کے گھناونے کھیل کو پورے ملک میں کھیلنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔