تحریر : عبدالجبار خان دریشک گزشتہ دونوں ہمسایہ ملک بھارت کا سالانہ بجٹ پیش کیا گیا جسے وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے پیش کیا مودی حکومت کا یہ آخری بجٹ تھا کیونکہ 2019 کو بھارت میں عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں بھارت میں بجٹ سال کے شروع میں پیش ہوتا ہے 2001 ایک سے پہلے بھارت کا بجٹ فروری کے آخر میں اور شام 5 بجے پیش کیا جاتا تھا لیکن واجپائی حکومت نے انگریزوں کی اس روایت کو توڑتے ہوئے سال کا بجٹ یکم فروری اور وقت شام 5 بجے کی بجائے دن 11 بجے کر دیا گیا۔بھارت کے سال 2018.19 کے بجٹ کو 72 فیصد عوام مسترد کر چکی ہے جسے لفظوں کا ہیر پھیر کہا جاتا ہے بھارت نے ہمیشہ خطے میں طاقت کے توازن کو بگاڑنے کی کوشش کی ہے بھارت نے اس سال کے بجٹ میں بھی دفاع کو زیادہ حصہ دیا ہے جوکہ 2.95 لاکھ کروڑ ہے کسانوں کی بہتری کے لیے بڑی رکھی گئی ہے جس کے بہتری کے امکانات 2022 تک پورے ہوں گے بھارت میں کسان بدحالی کا شکار ہیں اور آئے روز کسان خود کشیاں کر رہے ہیں۔ اس بجٹ میں 10 کروڑ غریب افراد کے لیے ہیلتھ کیر پروگرام 5 کروڑ افراد کو مفت گیس کے کنکشن واضع رہے یہ کنکشن گیس سلنڈر دیے جانے کو کہتے ہیں 4 کروڑ افرا کو بجلی کی فراہمی یہاں بھی وہ لفظوں کا چکر دے گئے کسی فرد کو کنکش یا بجلی کی فراہمی نہیں بلکہ گھرانوں کو دی جاتی ہے اسی طرح ریلوے کے لیے ایک لاکھ 48 ہزار 528 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں وہاں اب ہر ٹرین میں سی سی ٹی وی کیمرے لگائے جائیں گے۔
اس سارے بجٹ کے باوجود صورت حال یہ ہے کہ دفاعی بجٹ کی اتنی بڑی رقم اور فوجی خود کشیاں کر رہے ہیں بھوک اور ناقص خوراک پر احتجاج کرنے والا تیج بہادر جو نوکری سے برخاست کر دیا گیا جو اب عدالت سے رجو کر کے بحال ہونا چاہتا ہے۔ بھارت میں اس وقت مختلف وزارتوں میں چارلاکھ آسامیاں خالی ہیں لیکن ان پر افراد بھرتی کرنے کے لیے حکومت کے پاس بجٹ نہیں ملک میں کروڑوں بے روزگار افراد ہیں وہاں کسی بھی چپڑاسی نوعیت کی آسامی پر ہزاروں دراخوستیں پڑھے لکھے افراد کی ہوتے ہیں جن میں گرایجویٹ سے لے کر پی ایچ ڈی تک اس عام نوکری کی دوڑ میں شامل ہوتے ہیں۔جی جے پی کی چار سال کی مدت میں مسلم دشمنی کھل کر سامنے آتی رہی گجرات میں مسلمانوں کا قاتل مودی جیسے ایک فتنہ پرست شخص کو وزیراعظم بنایا گیا ، جو بھارت میں انتہاہ پسندی سے مسلمانوں کو مروا رہا ہے۔
بھارت میں ہر سال 26 جنوری کو یوم جمہوریہ منایا جاتا ہے 25 جنوری کو یوم جمہوری سے ایک دن قبل وہاں گاس گنج میں پرتشدد مظاہر پھوٹ پڑے۔ مسلمان نوجوان جھندا لگا رہے تھے کہ ہندو انتہاہ پسند تنظیم کے غنڈوں نے انہیں گالیاں دیں اور کہا ان کی تنظیم کا جھنڈا لہریں جس پر تنظیم کے لوگوں نے مسلمان لڑکوں کو مارنا شروع کردیا۔ اور یہاں سے فساد پھوٹ پڑا۔ بھارت میں ہندو انتہاہ پسند تنظیمیں مسلمانوں کے محلے میں جا کر پاکستان کے خلاف نعرے لگاتے ہیں اور مسلمانوں کو کہتے ہیں یہاں سے نکل جاو ¿ اور پاکستان چلے جاو ¿۔ بی جے پی اور مودی سرکار کا فتنہ یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی سازش وہاں کی انتہاہ پسند جماعت بی جے پی اور خفیہ ایجنسی را بھی کر رہی ہے بھارت کیرلہ میں ضلع ملم پور موضع وانڈرو میں ایک خاتون نے جمعہ کی نماز کی امامت کروا کر ایک نیا فتنہ کھڑا کر دیا۔
جامدہ بی بی یہ خاتون جس کی عمر 34 سال ہے یہ خاتون طلاق یافتہ اور دوبچوں کی ماں ہے اور ایک سابقہ فوجی کی بیٹی ہے جامدہ اپنے آپ کو ترقی پسند مسلمان کہلواتی ہے اور ایک این جی او ” قرآن سنت سوسائٹی ” چلاتی ہے۔ جمعہ کے خطبہ کے ساتھ جامدہ نے امامت بھی کروائی جس کے پیچے 30 کے لگ بھگ مردوں نے نماز ادا کی ، اسی طرح 2005 میں آمنہ وددوکی انڈونیشن خاتون نے نیویارک امریکہ کی ایک مسجد میں جمعہ کی نماز کی امامت کروائی تھی جس کو مسلمانوں نے بڑی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔امریکہ کی آمنہ کا تعلق دراصل ایک اسریٰ نعمانی گروپ سے ہے یہ گروپ بھارت کی خفیہ ایجنسی را کے لیے کام کرتا ہے اور جامدہ اسی آمنہ کے خیالات کو پسند کرتی تھی اور اس کے نقش قدم پر چل رہی ہے جبکہ جامدہ کی تنظیم “قرآن سنت سوسائٹی ” کو بنانے والا ایک کلین شیو مولوی ابولحسن المعروف چکن نور تھا۔ یہ شخص بھی دراصل ہندووں اور ایجنسیوں کا آلہ کار تھا۔
ابولحسن المعرف چکن نور نے ایک خود ساختہ تفسریر بھی لکھی جسے بھارت کے مسلمان علماء نے مسترد کر کے اسے تنقید کا نشانہ بنایا تھا ابولحسن ایک مرتبہ اچانک غائب ہو گیا اور کہا جاتا ہے کہ بعد میں اسے کسی نے قتل کر دیا تھا۔ بی جے پی ہر سال اس کی یاد میں سیمنار منعقد کرتی ہے۔ اور اسی طرح بی جے پی نے جامدہ کو اپنا ہیرو قرار دیا ہے اور اس کی حفاظت کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ جامدہ کے معاملے میں بھی را کی سازش کی بو آ رہی ہے۔
بی جے پی جامدہ کی طرح بھارت میں مزید خواتین تیار کر رہی ہے جن کو تربیت دے کر ان سے جمعہ کی نماز امامت مختلف ریاستوں میں کروائی جائے گی، اور ساتھ ہی پوری دنیا کے میڈیا کی کوریج حاصل کر کے مسلمانوں کا ایک اور روپ دیکھا کر نیا فتنہ کھڑا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔بی جے پی اور مودی سرکار نے مختلف ریاستوں میں خواتین نکاح خواں لگائی ہوئی ہیں جن میں راجستھان، مہاشٹرا ، اندھرا اور دیگر ریاستیں شامل ہیں۔ لیکن مودی سرکار کی اس حرکت کو 99 فیصد مسلمانوں نے غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے ان نکاح خواہوں کو مسترد کر دیا۔عالم اسلام کو را اور مودی کے حالیہ فتنے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ کیونکہ مستقبل میں مسلمانوں میں نیا تفرقہ ڈالنے کی سازش پر “را” کام کر رہی ہے۔