سیاہ فام امریکیوں کی تاریخ پر مبنی عجائب گھر کا افتتاح

Black Americans History Museums Inauguration

Black Americans History Museums Inauguration

نیویارک (جیوڈیسک) امریکہ میں سیاہ فام آبادی کی تاریخ و تمدن، مختلف ادوار میں ان کے ساتھ روا رکھنے جانے والے سلوک اور مسائل مبنی نمونوں اور اشیا کو عجائب گھر میں رکھا گیا ہے جس کا باقاعدہ طور پر افتتاح کر دیا گیا۔

صدر براک اوباما نے ہفتے کو اپنے ہفتہ وار خطاب میں سیاہ فام امریکی تاریخ اور ثقافت پر مبنی قائم ہونے والے نئے عجائب گھر کو “تازہ ترین امریکی علامت” قرار دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ عجائب گھر وہ کہانی سنائے گا جو امریکی قومی بیانیے میں کبھی بھی اولین مقام میں نہیں آئی۔ اس سے قبل وائٹ ہاؤس میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر براک اوباما نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا کہ “(افتتاح) کا یہ موقع بہت شاندار ہے۔” اس جملے پر تقریب کے شرکا خوب محظوظ ہوئے۔

شمالی کیرولائنا کے شہر شارلٹ میں ایک سیاہ فام شخص کی پولیس کے ہاتھوں موت کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں جب کہ حالیہ برسوں میں ایسے کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں جن میں سیاہ فام برادری کی طرف سے عدم تحفظ اور مبینہ طور پر نسلی امتیاز کی شکایات سامنے آتی رہی ہیں۔

تاہم صدر اوباما نے اپنے بیان کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ “ایک لحاظ سے سے بہترین وقت ہے لیکن دوسری طرف یہ مشکل ترین وقتوں میں سے ایک ہے۔ تاریخ کبھی بھی ایک سیدھی لکیر پر نہیں چلتی، اور دھیان نہ رکھنے پر ہم پیچھے بھی جا سکتے ہیں اور آگے بھی بڑھ سکتے ہیں۔”

واشنگٹن کے قومی عجائب گھر میں یہ حصہ ہفتہ کو باقاعدہ طور پر لوگوں کے کھولا جا رہا ہے۔

صدر اوباما نے اس امید کا اظہار کیا کہ حال ہی میں شارلٹ اور ٹلسا میں ہونے والے واقعات دیکھنے والے جو کہ امریکہ میں سیاہ فاموں کی تاریخ اور واقف نہیں، جب اس عجائب گھر میں آئیں تو کہیں گے کہ “مجھے ہمدردی ہے۔ مجھے سمجھ میں آیا کہ لوگ کیوں برہم ہوتے ہیں اور میں (مسائل کے) حل کا حصہ بننا چاہتا ہوں۔”

اس عجائب گھر میں ایسے بہت سے نمونے رکھے گئے ہیں کہ جن سے سیاہ فام آبادی کے شمالی امریکہ میں آنے کے وقت اور بعد ازاں نسلوں تک غلام رہنے اور ان کی بودوباش کو دکھایا گیا ہے۔

صدر اوباما نے کہا کہ “میں یہ تصور کرتا ہوں کہ، سفید، سیاہ، لاطینی اور مقامی امریکی بچے، یہ سب دیکھیں گے۔۔۔مجھے امید ہے کہ یہ پیچیدہ، مسکل اور بعض اوقات خوفناک کہانیاں انھیں ایک دوسرے کو سمجھنے میں مدد دیں گی۔”