تحریر: علی عمران شاہین کشمیری قوم بھی ایک عجیب مٹی کی بنی ہوئی ہے۔ بھارت طاقت و سیاست سے انہیں جتنا دباتا ہے یہ اسی قدر سپرنگ ثابت ہوتے ہیں۔ان کا کوئی گھر ایسا نہیں جہاں بھارتی ظلم و دہشت گردی کا شکار نہ ہوا ہو لیکن ان کا سر ہر روز پہلے سے زیادہ فرو تن ہے ۔دور کیا جائیں، پاکستان کی محبت میں سبز ہلالی پرچم لہرانے کے جرم میں روزانہ کتنی ننھی کلیاںلوہے کی نذر ہو رہی ہیں لیکن ایک اذان مکمل کرنے کے لئے 22جانیں دینے والے کشمیری اس سے بڑھ بڑھ کر جانیں دے رہے ہیں۔مقبوضہ وادی کی سرزمین اسلام آباد(اننت ناگ) کی بیٹیاں کیا اندھی دنیا کبھی دیکھ پائے گی کہ جن کے پائوں ننگے تھے لیکن ہاتھوں میں پتھر اٹھائے سب سے بڑی جمہوریت اور ویٹو پاور دیکھنے کے خواب دیکھنے والی عالمی حمایت یافتہ طاقت کے جوانوں کو سنگسار کر رہی تھی۔ایسی نڈر قوم تاریخ اپنے دامن میں شاید اس سے پہلے نہ پاتی ہو۔
یہ قوم آج نہیں68سال سے یوں ہی بھارت کا مقابلہ کر رہی ہے۔یہ وہ لوہے کا چنا ہے جسے بھارت چبا نہیں سکا۔27اکتوبر 1947 کو جب بھارتی فوج کا پہلا دستہ سرینگر کے ائیر پورٹ پر اترا تو کشمیرکی تاریخ کا تیرہ بخت باب قلمبند ہونا شروع ہوا۔یہ ایک المناک داستان ہے اور تاریخ انسانی کا سیاہ باب بھی کہ بھارت نے برطانوی غلامی سے رہائی اور آزادی پانے کے بعد فورا کشمیریوں کاحق خودارادیت چھین لیا ۔۔سرینگر سے بھاگنے والے مہاراجہ نے بھارت سے کشمیر میں اپنی فوج بھیجنے کی درخواست کی۔ یوں 27 اکتوبر1947 کو بھارتی فوجیں سرینگر ائیر پورٹ پر اتر گئیں اور کشمیر ایک بد ترین گھور اندھیرے میں گم ہو کر رہ گیا۔
فوج نے سرینگر ائیر پورٹ کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد چن چن کر ہندمخالف سیاسی کارکنوں کو گرفتار اور قتل کرنا شروع کیا اور فوج تیزی سے وادی میں پھیلتی چلی گئیں۔بھارت اسی دعوے کے ساتھ کشمیرآیاکہ وہ حالات بہتر ہوتے ہی واپس جائے گا اور کشمیریوں کومستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دیاجائیگا۔قبائلی لشکر واپس چلا گیا اور ریاست میں امن بحال ہواتو بھارت نے اپنا وعدہ پورا کرنے کیاس بجائے کشمیر کو مستقل طور پرضم کرنے کی کوشش شروع کی۔جب کشمیری قوم نے بھارت کے اس اقدام کو جوتے کی نوک پر رکھا تو بھارت اپنی روائتی چالاکی سے کام لینا شروع کیا۔اسی مکارانہ چکر بازی کے تحت 2نومبر 1947کو وزیرِ اعظم ہند پنڈت جواہر لال نہرو نے آل انڈیا ریڈیو سے خطاب کرتے ہوئے کہا:”ہم اعلان کر چکے ہیں کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ عوام ہی کریں گے اور ہم یہ وعدہ کر چکے ہیں۔ نہ صرف جموں و کشمیر کے لوگ بلکہ دنیا اس وعدے کے گواہ ہے۔ہم اس وعدے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اور نہ ہی ہٹ سکتے ہیں ۔جب بھی کسی بین الاقوامی ادارے مثلاََاقوام متحدہ کی نگرانی میں ریفرنڈم کے لیے امن اور قانون کا قیام عمل میں آیا تو ہم بھی اس پر تیار ہوں گے۔
Black Day in Kashmir
ہم چاہتے ہیں کہ عوام آزادانہ اور غیر جانبدارانہ طور پر فیصلہ دیں۔ہم اس فیصلے کو تسلیم کریں گے” قبل ازیںکچھ ایسی ہی یقین دہانی پنڈت جواہر لعل نہرو وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان کے نام بھیجے گئے ٹیلی گرام میں بھی کر ا چکے تھے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مہاراجہ کے الحاق کے باوجود مائونٹ بیٹن ، پنڈت نہرو اور مہاراجہ کی عوام کی رائے جاننے کا اقرار کر رہے تھے اور اس طرح الحاق کا فیصلہ مشروط اور عارضی تھا۔عوامی رائے کسی رائے شماری کے بغیر کس طرح معلوم کی جا سکتی ہے ؟ اس کا جواب آج تک کوئی نہیں دے سکا۔
دنیا دیکھتی رہی اور دیکھ رہی ہے کہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت کا احساس کشمیریوں کے دماغوں کی ایک خلش بن کر نسل در نسل منتقل ہوتارہا۔ یہ جدوجہد مختلف ناموں ، مختلف تنظیموں اور مختلف شخصیات کی صورت مختلف ادوار میں جاری رہی۔ اس طویل جدوجہد میں کشمیریوں نے ہمیشہ 27 اکتوبر کو یوم سیاہ کے طور پر منایا۔ اب یہ کشمیر میں ایک معتبر روایت ہے کہ27 اکتوبر کشمیر کے عوام کو غمزدہ اور کشمیر کے ماحول کو سوگوار کر دیتا ہے۔ یہ دن ملت کشمیر کو بد قسمتی کی داستان یاد دلاتا ہے کہ جب طویل جدوجہد کے بعد برصغیر آزادی سے ہمکنار ہوا تھا۔ کشمیری کو کس جرم کی پاداش میں سزا دی گئی۔ اسی جرم بے گناہی کا احساس کشمیریوں کو بھارت کی غلامی کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کرنے دے رہا اور وہ نسل در نسل آزادی اور حق خود ارادیت کے لئے جدوجہد کرتے چلے آ رہے ہیں۔
کشمیریوں کو ان کی منزل آزادی سے ہمکنار کرنے کے لئے جہاں اور بہت سے لوگ برسر میدان ہیںتو وہیں وکلاء بھی اب کسی سے پیچھے نہیں۔اسی جذبہ کے تحت الامُہ لائرز فورم اور تحریک آزادی کشمیر نے 25اکتوبر2015کو لاہور پریس کلب میں ایک منفرد کانفرنس کا انعقاد کیا جس کی میزبانی کا شرف راقم اور جمیل فیضی ایڈووکیٹ(صدر ،الامُہ لائرز فورم) کو حاصل ہوا۔صدارت کے فرائض صدر لاہور بار چوہدری اشتیاق اے خان نے ادا کئے۔”یکجہتی کشمیر کانفرنس ”سے جماعة الدعوة پاکستان کے مرکزی رہنما مولانا امیر حمزہ،امیر جماعت اسلامی پنجاب میاں مقصود احمد،مرکزی جمیعت اہل حدیث کے مرکزی نائب امیر علامہ زبیر احمد ظہیر،جمیعت علما ء اسلام کے مرکزی رہنما مولاناامجد خاں،جماعت اہل حدیث پاکستان کے مرکزی امیر مولانا عبدالغفار روپڑی،دربار میاں میر کے سجادہ نشین پیر سید ہارون گیلانی ،مصطفائی جسٹس فورم کے چیئر مین میاں اشرف عاصمی ایڈووکیٹ، مولانا عبدالستار نیازی دیگر نے خطاب کیا۔مولانا امیر حمزہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نے کشمیریوں ،بھارتی مسلمانوں ،سکھوں اور دلتوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔مودی کی حکومت نے ظلم و ستم کی انتہا کر دی ہے۔ہم جنرل راحیل شریف کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے مسئلہ کشمیر ایک بار پھر بھرپور طریقے سے زندہ کیا ہے۔
Protest in Kashmir
بھارت یاد رکھے کہ اس کا ظلم بہت جلد مٹ جائے اور کشمیریوں کے ساتھ دیگرمظلوم اقوام کو بھی آزاد ملے گی۔لاہور بار ایسوسی ایشن کے صدرچوہدی اشتیاق اے خان نے خطبہ صدارت میں کہاکہ کشمیر کے بغیر پاکستان ہر لحاظ سے نامکمل ہے۔انگریزوں نے کشمیر کو بھارت کے قبضے میں دے کربہت بڑا ظلم کیا۔اسی ظلم کے نتیجے میں لاکھوں بے گناہ مسلمانوں کا قتل ہوا۔اقوام عالم دیکھ لیں کہ کشمیری قوم نے ہر طرح کے ظلم و دہشت گردی کے باوجود سر نہیں جھکایا اور کشمیری قوم آزادی لے کر رہے گے۔پاکستان کے سوا لاکھ وکلاء کشمیری تحریک آزادی کے شانہ بشانہ ہیں۔میاں مقصود احمد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ مسئلہ کشمیر کی اصل مجرم ہے۔مسلمانوں کے ملکوں کو توڑ کر مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان تو بنایا جاتا ہے لیکن مسلمانوں کو آزادی نہیں دی جاتی۔اگر یہ دوہرا معیار ختم نہ ہواتو دنیا میں کہیں بھی امن قائم نہیں ہو سکے گا۔ علامہ زبیر احمد ظہیر نے کہا کہ پاکستان کو مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے بنیادی کردار ادا کرنا ہوگا۔بھارت شرافت کی زبان نہیں سمجھتا۔اسی اس کی زبان میں ہی جواب دینا ہو گا۔مولاناامجد خاں نے کہا کہ کشمیری قوم کے آزادی کی لازوال جدوجہد سے نئی تاریخ رقم کی ہے ۔انہیں منزل تک پہنچانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
کشمیر کی آزادی دفاع پاکستان کی ضمانت ہے۔ مولانا عبدالغفار روپڑی،پیر سید ہارون گیلانی،میاں اشرف عاصمی، رائو طاہر شکیل، نعمان یحییٰ ودیگر نے کہا کہ کشمیر ی قوم دنیا کی بہادر ترین قوم ہیں۔ان کے جذبے کو بھارت شکست نہیں دے سکا۔بھارت نے اگر کشمیر کا مسئلہ حل نہ کیا تو بہت جلد اس کے ٹکڑے ہو جائیں گے۔اس موقع پر جمیل فیضی ایڈووکیٹ کی قرار داد کو متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔قرار داد میں کہا گیا کہ بھارت کے ساتھ تمام تر تعلقات اور خارجہ پالیسی کی بنیادمسئلہ کشمیر ہونا چاہیے۔بھارت کے ساتھ تمام مذاکرات میں کشمیری قوم کو اعتماد میں لیا جائے۔پاکستان، خطہ کشمیر کی تمام اکائیوں کے رہنے والے اہل کشمیر کو بلا روک ٹوک سارے خطہ کشمیر میںآزادانہ نقل و حرکت کی اجازت دلانے کے لئے کوشش کرے۔کشمیریوں کی جہادی و سیاسی تحریک آزادی کی کھل کر حمایت کی جائے۔مقبوضہ کشمیرمیںمیڈیا پرعائد پابندیاں ختم کرانے کے لئے آوازبلند کی جائے۔کشمیریوں پر بھارتی مظالم کو دنیا بھر میں اجاگر کیا جائے۔ مقبوضہ کشمیرکی آزادی کے لئے بر سرپیکارکشمیری تنظیموں پر پابندیوں کی بھارتی و امریکی کوششوں اور سازشوں کو ناکام بنایا جائے۔ پاکستان اس سلسلے میں حقائق دنیا کے سامنے لائے۔