تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری پاکستانی تاریخ کا سیاہ ترین دن 16 دسمبر ہر سال آتا ہے اور گزر جاتا ہے مگر ہمارے سبھی سیاستدانوں کو اس پر ذرا برابر بھی ملال نہیں ہوتا۔اس دن تین بڑے واقعات ہوئے اسی روز مشرقی پاکستان ہمارا ساتھ چھوڑ گیا جنرل نیازی نے بھارتی سورمائوں کے آگے ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں بمعہ 93000 مسلم سپاہ کے ہتھیار ڈال دیے اور ملک جو کہ لاکھوں قربانیوں اور شہادتوں سے 1947 میں معرض وجود میں آیا تھا 16 دسمبر 1971 کو صرف چوبیس سال بعد ہی دو لخت ہوگیا ہر سال ہی یہ سیاہ جان لیوا دن آتا ہے اور خاموشی سے خال خال ہی بڑی پارٹیوں کے سیاستدان روایتی بیان بازی تک محدود رہتے ہیں اسی روز آج سے دو سال قبل 2011 میں بھارت و دیگر سامراجی ممالک کے پروردہ دہشت گردوں نے آرمی پبلک سکول پشاور پر صبح ساڑھے دس بجے حملہ آور ہوکر 132 سکول کے معصوم طلباء اور9اساتذہ و سکول ملازمین کو خون میں نہلا ڈالااور ان کی روحیں شہادتیں پاکر اگلے جہاں کو سدھار گئیں اس کے علاوہ 114بچے شدید زخمی ہوئے گو کہ ہماری بہادر افواج نے آناً فانا ًان کو گھیر لیاسبھی دہشت گرد ہلاک کرکے جہنم واصل کرڈالے گئے ۔مگر اس وقت تک سکول کے معصوم طلباء کو وہ پرندوں کی طرح ظالم تاک تاک کر بھون چکے تھے۔
پورے ملک میں کہرام مچ گیایہ انتہائی دردناک واقعہ تھا جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم تھی۔زبانی کلامی تو بہت بیان بازی کی گئی مگر عملاً آرمی چیف راحیل شریف کے علاوہ کوئی جغادری سیاسی فرد وہاں نہ پہنچا ۔پھر ان شہید بچوں کو کفنانے دفنانے اور قل خانیوں کے پروگراموں میں بھی کسی بڑے سیاستدان نے شرکت نہ کی شاید اپنی مخصوص سرمایہ دارانہ بزدلیوں کی وجہ سے ڈر گئے کہ کہیں دوبارہ وہاں حملہ نہ ہو جائے۔امسال ان شہید بچوں کی دوسری سالانہ برسی کے موقع پر بھی موجودہ آرمی چیف جناب قمر جاوید باجوہ ہی بنفس نفیس تشریف لے گئے اور سخت بیان جاری کیا اور دہشت گردوں کی مکمل سرکوبی کرنے اور مکمل خاتمہ تک جدوجہد جاری رکھنے کا عزم صمیم کیا۔مگر حکمرانوں یا اپوزیشنی سیاستدانوں حتیٰ کہ کے پی کے حکومت کا کوئی نمائندہ ان کے لواحقین کے آنسو پونچھنے نہ گیا۔
اپوزیشن حکمرانوں کے خلاف کیونکہ جوتم پیزار میں مشغول ہے اس لیے ان کے پاس وقت کہاں برسر قتدار شریف برادران تو بیچارے پانامہ لیکس کی وجہ سے نکو نک ہوچکے ہیں۔اس لیے ان بیچاروں کے پاس تو ویسے ہی غالباً ایسے” فضول کاموں”کے لیے فرصت نہ ہے وہ بیچارے حکومتی نائو کو ڈوبنے سے بچائیں یا دہشت گردوں کی طرف سے کی گئی معصوم طلباء کی قتل وغارت گری کے سالانہ برسی پروگراموں میں شرکت کریں۔ابھی لاہورکے گرینڈ اقبال پارک کے رت رنگیلے ہزاروں برقی قمقموں سے چمکتے دمکتے روشن پروگرام میں ” من ترا ملاں بگوئم و تو مرا حاجی بگو” کا عملاً مظاہر ہ کیا گیا۔
Black Day In The History Of Pakistan
پہلے تو متعلقہ بیوروکریٹ اور چھوٹے بھائی وزیر اعلیٰ پنجاب نے بڑے بھائی وزیر اعظم کو سونیئر پیش کیا پھر بڑے بھائی وزیر اعظم نے اسی بیورو کریٹ کے ساتھ مل کر چھوٹے بھائی وزیر اعلیٰ پنجاب کو سونیئر پیش کیا ایک دوسرے کے بارے میں ریمارکس کہ یہ تو صرف ان کی مہربانیوں سے ہی پارک کی تکمیل ہو سکی ہے غالباً انہوں نے اپنے ذاتی سرمایہ سے ہی اسے تعمیر کیا ہو گااس لیے ان پر “اندھا بانٹے ریوڑیاں مڑ مڑ کراپنیاںنوں”والا مقولہ بالکل فٹ آتا ہے ۔سرکاری اور سود در سود قرضوں سے حاصل کردہ سرمایہ خرچ ہوتا ہے مگر بلے بلے شریفوں کی ہورہی ہے غالباً اس لیے کہ ایسی تعمیرات سے کروڑوں کے کک بیکس ان کو اور مخصوص سرکاری درباری و ذاتی ٹولوں کے افراد کو ملتے ہوں گے۔تیسرا بڑا سانحہ 16دسمبر کو وہ ڈرون حملہ ہے جو کہ باجوڑ میں دمہ ڈولہ کے مقام پر ایک دینی مدرسہ پر صبح سویرے کیا گیا تھا۔
16 دسمبر 2007 کا وہ دن اسلامیان پاکستان پر قیامت ڈھاگیا کہ کمانڈو مشرف جس نے ایک کال پر سامراج کو اپنے ملک کے باسیوں پر ظلم ڈھانے کا اجازت نامہ دے دیا تھا اسی کی اجازت اور مشوروں سے فرعونی ڈرون حملے ہوتے تھے اس بزدلانہ ڈرون حملہ میں قرآن مجید پڑھتے اسی بچے شہید کرڈالے گئے ان بچوں کی نویں برسی 16دسمبر کو ہی پڑتی ہے جو کہ اس فرعونی سفاکیت کا شکار ہوئے تھے۔یہاں اپنا ہی سابق صدر بین الاقوامی سہولت کار کے فرائض انجام دے رہا تھا ۔اس نے اپنے اسرائیلی و سامراجی گماشتوں کے کہنے پر ہی اسلام آباد کے مدرسہ حفصہ کی ہزاروںحافظہ ودینی تعلیم حاصل کرنے والی بچیوں کوفاسفورس بم مار کر شہید کرکے ان کی بھسم شدہ سوختہ لاشوں اور ہڈیوں تک کو انڈر گرائونڈ گٹروں میں بہا ڈالا تھا بعض لوگوں کے مطابق خود کش بمبار اسی بہیمانہ ظلم کی وجہ سے پیدا ہو گئے تھے واللہ علم باالصواب ۔ڈکٹیٹر مشرف پر تو آج تک بچیوں اور اکبر بگٹی کے قتل کے مقدمات چل رہے ہیں مگر کمانڈو دونوں بازو لہراتا مکے دکھاتا بیماری کا بہانہ کرکے بیرون ملک اپنے آقائوں کے پاس جا پہنچا ہے۔
آرمی پبلک سکول ،پاکستان کے دو لخت ہونے اور باجوڑ پر فرعونی ڈرون حملوں کے تینوںدرد ناک واقعات کہ اس دن پر بھی سیاستدانوں کو اپنی اپنی پڑی رہی انھیں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے اور گالم گلوچ سے ہی فرصت نہ ہے چاروں طرف سے اغیار بھی حملہ آور ہیں سبھی کام آرمی افسران کے ہی ذمہ ہیںنہ جانے خدائے عز و جل کب ایسے حکمرانوں اور نام نہاد جغادری اپوزیشنی لیڈروں سے جان خلاصی کروا کر اپنے بندوں کو اقتدار سونپیں گے تاکہ وحشت و دہشت گردی اور لوٹ کھسوٹ کا کاروبار مکمل طور پر ختم ہو کر ملک صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی مملکت بن سکے۔