تحریر : عفت میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے ١٦ دسمبر کی نوحہ خوانی ختم نہ ہونے پائی تھی کہ ایک دفعہ پھر دہشت گرد قلم اور علم کے خلاف میدان میں اتر آئے اور باچا خان یونیورسٹی کو اپنی بزدلانہ کاروائی کا نشانہ بنایا اس کے نتیجے میں ٢٠ افراد شہید ہوئے اور ٢٠ زخمی جبکہ چاروں دہشت گرد مارے گئے ۔چار خاندان اجڑے ان کی اس بے وقت موت کا غم اور نقصان کبھی پورا نہ ہو پائے گا۔مائوں کے لال کبھی نہ لوٹ پائیں گے باپوں کے کندھے اور جھک گئے ۔اولاد کی منتظر آنکھیں اپنے پاپا کو کبھی نہ دیکھ پائیں گی بہنوں کے بھائی اور بھائیوں کی بہنیں ہمیشہ کے لیے منوں مٹی تلے جا سوئیں ۔کچھ دکھ ایسے ہوتے ہیں جن کے لیے لفظ گنگ ہو جاتے ہیں بس کھو جانے کا احساس ہی باقی رہتا ہے ۔عجب المیہ ہے کہ دشمنوں نے ہمارے تعلیمی اداروں کو ہماری کمزوری سمجھ کر اس طرح کے اوچھے وار کرنے شروع کر دیے ہیں ،وہ ہماری نسلوں کے زیاں پہ اتر آئے ہیں ۔بچے کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں ان سے ہی ہمارا مستقبل وابستہ ہوتا ہے مگر افسوس کہ آج ہمارے مستقبل کو ایسے خطرات سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے ۔قربانیوں در قربانیوں کا خراج ادا کرنا پڑرہا ہے ۔ہماری پاک فوج اگرچہ دہشت گردی کے لیے برسر ِپیکار ہے اور اس کی کامیابیاں چشم ِکشا ہیں ۔ہمیں بھی اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
بے شک ہماری قوم بہادر اور باصلاحیت ہے مگر ان دیکھا دشمن اور آستینوں کے سانپ بھی تو ہمارے اردگرد پنپ رہے ہیں اور ہم ان سے بے خبر ہیں ۔ایسے میں ہمیں بے انتہا محتاط اور باخبر رہنے کی ضرورت ہے ۔کہ ہم ان سیاہ ہاتھوں کی پہچان کریں تاکہ ان کے وار سے اپنے اداروں اور ملک کو محفوظ کر سکیں۔ دہشت گردی میں صرف بیرونی ہاتھ ہی ملوث نہیں ہوتے بلکہ ہر وہ اندرونی خلفشار جو دہشت ذدہ کرنے کے زمرے میں آتی ہے وہ دہشت گردی ہے ۔مجموعی طور پہ دیکھا جائے تو معاشرتی طور پہ ہم دہشت گردی کی فضا میں ہی سانس لے رہے ہیں مہنگائی، غربت، رشوت، سفارش، بیروزگاری، انتقامی سیاست، معاشرتی بے راہ روی، قتل وغارت، خودکشیاں، ظلم و تشدد، زیادتیاں، عصمت دری، طاقت کا استعمال ،عدم تحفظات کا شکار زندگی یہ سب ایسی دہشت گردیاں ہیں کہ ان کے خلاف کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا کہ ان عناصر کی بیخ کنی کی جائے۔
اگر ہم بنظر غائر جائزہ لیںتو ہم روز جس دہشت گردی کا شکار ہوتے ہیں اس کا حساب کتاب لگایا جائے تو واضح ہو گا کہ ہم کس قدر گھاٹے میں ہیں اور کس طرح روز جیتے اور روز مرتے ہیں ۔اخبار کھولیں اپنے اردگرد جائزہ لیں ۔ایک باپ نے غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنی بیوی اور بچوں کو ما ر کر بعد میں خودکشی کر لی ۔زمین دار نے کام نہ کرنے پہ مزارع کے ہاتھ کاٹ دئیے،نوکری نہ ملنے پہ نوجوان نے اپنی ڈگریوں کو آگ لگا کر ٹرین کے آگے لیٹ کر جان دے دی،ماں غربت کی وجہ سے اپنا لخت ِجگر کچرے کے ڈھیر پہ پھینک گئی ،بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی۔
Terrorism
ہمارا معاشرہ جرائم کا گڑھ بن چکا ہے میڈیا جہاں خبر فراہم کرنے کا موثر زریعہ ہے وہاں فلم اور ڈرامے بھی جرائم کو جنم دے رہے ہیں ہمارے فلموں اور ڈراموں کے موضوعات یا تو عشق و محبت پر مشتمل ہوتے ہیں یا پھر جرائم اور انڈر ورلڈ کو موضوع بنایا جاتا ہے اور ایک نیگٹو پارٹ کو اتنا پاور فل دکھایا جاتا ہے کہ وہ کچے ذہنوں کے لئے پسندیدگی کی چھاپ چھوڑ جاتا ہے اور وہ ان جیسے بننے کی کوشش میں خودکو تباہ کر لیتے ہیں ۔تعلیم یافتہ نوجوان جب نوکریوں کی تلاش میں سر گردان پھرنے کے باجود ناکام رہتے ہیں تب وہ مایوسی کے باعث معاشرے سے انتقام لینے کے لیے چوری، ڈاکے، اسمگلنگ اور غیر قانونی کاموں میں ملوث ہوجاتے ہیں ،اب تو جرائم کا زریعہ انٹر نیٹ بھی بن گیا ہے ۔ایف بی کے زریعے دوستی دھوکا اور پھر بلیک میلنگ سر ِفہرست ہیں ۔پچھلے دو برسوں میں اغوا برائے تاوان اور دشمنی کی بناء پہ قتل، کم سن بچوں سے زیادتی کے بہت کیس سامنے آئے اور اس میں ملوث افراد میں بچے اور نو عمر لڑکے بھی شامل ہیں جنہوں نے برملا اعتراف کیا کہ یہ سب انہوں نے ٹی۔وی پہ اور فلموں میں دیکھا۔کیا تعلیم اور تربیت کر رہے ہم اپنی نسل کی ۔در حقیقت ہم سب عدم تحفظ اور بے یقینی کا شکار ہیں ہم اپنے مستقبل کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔
دنیا کے حالات اور معاشرے کی بھیڑ چال نے ایسا رخ اختیار کر لیا ہے کہ پیسا اور طاقت ہر مسئلے کا حل بن گیا ہے اگر آپ کے پاس بہت سا پیسا ہے اور آپ طاقت رکھتے ہیں تو آپ کامیاب انسان ہیں ۔اگر یہ سب نہیں تو آپ ایک عام فرد میں شمار ہوتے ہیں اور اس عام فرد کو ہر دکھ سہنے کے لیے تیار رہنا ہوگا ،مسائل کے ڈرون حملے آپکی زندگی میں دہشت بھر دیں گے اور آپ قدم قدم پہ اس دہشت گردی سے نبرد آزما رہیں گے۔
اگرچہ یہ سب خوش کن نہیں مگر سچ ہمیشہ تلخ ہوتا ہے اور یہ سیاہ ہاتھ نقاب چڑھائے ہماری آستینوں میں ہی موجود ہے ۔بس ضرورت ہے تو دیدہء بینا کی ،معاشرتی برائیوں کا قلع قمع ہی ترقی ،امن،اورکامیابی کی راہ ِحیات ہے۔معاشی استحصال اور استبداد تاریکیوں کی جانب لے جائے گا اور حقوق سے محروم لوگ ایک دن آپکا گریبان ضرور پکڑیں گے اگر یہ پکڑ نہ بھی ہوئی توصاحب وہاں پکڑ ضرور ہوگی جہاں ایک ہی قانون رائج ہے آنکھ کے بدلے آنکھ دانت کے بدلے دانت اور پھر کسی کی سفارش کام نہ آئے گی۔