تحریر : عماد ظفر عراق جنگ سے متعلق سر جان چل کوٹ کی مفصل رپورٹ بالآخر برسہا برس کے بعد منظر عام پر آ ہی گئی. رپورٹ میں سابقہ برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کو غفلت کا مرتکب قرار دیا گیا.چونکہ یہ رپورٹ عراق جنگ میں برطانیہ سے متعلق تھی اس لیئے اس میں تفضیلا امریکی قیادت کی غلطیوں کا احاطہ تو نہیں کیا گیا لیکن اس وقت کے امریکی صدر جارج بش کو بھی مجرمانہ غفلت کا مرتکب قرار دیا گیا ہے.رپورٹ میں یہ واضح تحریر کیا گیا ہے کہ صدام حسین دنیا کیلئے کسی بھی خطرے کا باعث نہیں تھا اور عراق پر حملہ کرنے میں عجلت کا مظاہرہ کیا گیا جبکہ اگر بش اور بلیئر چاہتے تو ڈپلومیسی کے ذریعے صدام کو کیمیائی ہتھیار یعنی ویپن آف ماس ڈسٹرکشن تلف کرنے اور دیگر مطالبات ماننے پر مجبور کر سکتے تھے ویپن آف ماس ڈسٹرکشن کے متعلق انٹیلیجنس معلومات اور ان کے اصل میں موجود ہونے یا نہ ہونے پر بھی رپورٹ میں کئی سوالات کھڑے کیئے گئے ہیں۔
برطانیہ میں اس وقت میڈیا اور عراق جنگ میں مرنے والے سینکڑوں برطانوی فوجیوں کے خاندان سابقہ وزیر اعظم ٹونی بلیئر پر جنگی جرائم اور برطانوی و عراقی شہریوں کے قتل کا مقدمہ چلانے کیلئے اصرار کر رہے ہیں اور ہر آنے والے لمحے میں یہ مطالبہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے اس رپورٹ نے نیو کنز سوچ اور مشرق وسطی میں بد امنی اور امریکی و برطانوی تسلط قائم کرنے کے بھیانک عزائم کو بھی عیاں کر دیا ہے. صدام یقینا ایک ڈکٹیٹر تھا اور جابر انسان تھا لیکن یہ عراق کا اندرونی معاملہ تھا جسے عوام خود حل کر سکتے تھے. عراق جنگ کے بعد سے ہونے والی خون ریزی آج قریب 13 برس بعد بھی جاری ہے اور عراق میں یہ خون ریزی اتنے افراد کی جان لے گئی کہ خود گنتی کو گنتی بھول گئی۔
سلسلہ یہاں تھما نہیں مصر سے لیکر لیبیا اور بھر شام تک ہر جگہ امریکہ و برطانیہ نے حکومتوں کا تختہ الٹا کرنل قزافی کو لیبیا میں مروایا حسنی مبارک کو منظم طریقے سے اقتدار سے ہٹایا سیریا کو آگ و خون میں نہلایا. یہ تمام حقائق واضح نشاندہی ہے کہ دنیا اور اس کے وسائل پر قبضہ کرنے کی یہ گھناونی خواہش دنیا کے امن کو غارت کر بیٹھی. ان تمام جنگوں اور زبردستی حکومتوں کے تختے الٹنے کے بعد ایک خلا پیدا ہوا جسے طالبان القائدہ اور داعش نے پر کیا. آپ غور کیجئے کہ امریکہ و برطانیہ کے تمام حملے اور اقتدار الٹنے کی سازشیں مسلمان ممالک کے خلاف تھیں اور مشرق وسطی کا نقشہ تبدیل کرنے دوارے تھیں. سر جان چل کوٹ کی اس رپورٹ کے مطابق برطانیہ عراق جنگ سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہا۔
America
اگر امریکہ میں بھی اس طرح کی کسی تحقیقاتی رپورٹ کو تیار کیا جائے تو امید غالب ہے کہ عراق سے لیکر افغانستان تک امریکہ دوارے بھی یہی لکھا جائے گا کہ مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہو سکے. اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کو نفرت اور دہشت کی آگ میں جھونکنے والے جارج بش اور ٹونی بلیئر کو بھی دہشت گرد قرار دے کر ان پر دہشت گردی اور جنگی جرائم کے مقدمات کیوں نہیں بنائے جاتے. ان دونوں کی وجہ سے آج دنیا بھر میں انسان گاجر مولی کی طرح کٹ رہے ہیں اور داعش جیسے کئی عفریت دنیا بھر کا امن تباہ و برباد کر رہے ہیں. اگر یہ رپورٹ کسی مسلمان حکمران دوارے ہوتی تو شاید اب تک برطانیہ اور امریکہ اسے دہشت گرد قرار دیتے ہوئے یا تو اس پر چڑھائی کر چکے ہوتے یا پھر ملک کے اندر ہی تختہ الٹ دیا جاتا۔
انصاف کے تقاضے پورے کرنے کیلئے ٹونی بلیئر اور جارج بش دونوں کو عدالت کے کٹہرے میں لانا ضروری ہے جہاں ان سے سوالات پوچھے جا سکیں کہ آخر اتنی عجلت میں جنگوں کے فیصلے کیوں کیئے گئے اور اگر یہ سب غصے یا ڈر کی وجہ سے بھی کیا گیا تو کیا اس کی سزا نہیں؟ یہ ڈبل اسٹینڈرڈ اور منافقانہ پن دراصل شدت پسندی کی جڑ ہے جب آپ رنگ نسل قومیت یا مذہب کی بنا پر ایک طرف بش اور بلیئر جیسے مجرموں کو کچھ بھی نہ کہیں اور دوسری جانب عراق سے لیکر افغانستان تک آپ انصاف کے نام پر بم بارود کا بے دریغ استعمال کر کے ہزارہا افراد کو مار ڈالیں تو پھر مسلمانوں میں شدت پسندی اور تعصب تو ضرور پیدا ہو گا اور رد عمل کے طور پر دہشت گرد جماعتیں وجود میں آتی ہی رہیں گی۔
نائن الیون سے پہلے دنیا قدرے بہتر اور پر امن تھیلیکن اس حادثے کے بعد دنیا کا امن مکمل طور پر خطرے میں پڑ گیا. افغانستان پر امریکی یلغار اور پھر عراق پر امریکی اور اس کے اتحادیوں کے حملے نے دنیا کے حالات کو یکسر تبدیل کر ڈالا. ا ن جنگوں میں خرچ ہونے والی رقم کے سپانسر اسلحے کی انڈسٹری کو چلانے والے بڑے بڑے سرمایہ دار فارماسسیوٹیکل کمپنیاں اور آئل کمپنیاں تھیں. اسلحے کی کمپنیوں نے جنگوں اور بغاوتوں کی وجہ سے خوب کمائی کی اسی طرح افغانستان کی پوست فارماسیوٹکل کمپنیوں کے منافع کے کام آئی لیبیا عراق اور دیگر ممالک کے تیل کے ذخائر بڑی بڑی آئل کمپنیوں کے کام آئے۔
Iraq
یہی نہیں جنگوں کی تباہ کاریوں کے بعد دوبارہ سے تعمیری سرگرمیوں یعنی کنسٹرکشن اور انفراسٹرکچر کی تعمیر میں بھی بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو فائدہ ہوا. یہ منافع بلین ڈالرز سے بھی زیادہ ہے لیکن یہ منافع ہزارہا بے گناہ افراد کی لاشوں اور دنیا کے امن کو تباہ کر کے کمایا گیا. بڑے بڑے بین الاقوامی میڈیا ہاوسز کے ذریعے کمال مہارت سے پراپیگینڈہ کر کے ان جنگوں کو مسلمانوں کے کھاتے میں ڈال کر انہیں مذہبی رنگ دیا گیا کہیں مسلمانوں کو آپس میں ہی لڑوا کر فسادات برپا کروائے گئے. لیکن یہ جنگ نہ تو پہلے مسلمانوں یا کسی اور مذہب کے درمیان تھی اور نہ آج. یہ جنگ صرف اور صرف اپنا تسلط دنیا بھر میں قائم رکھتے ہوئے دنیا کے وسائل پر قبضے اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیئے منافع کما کر اپنی معیشت مضبوط کرنے کی ہے۔
اگر ٹونی بلیئر اور جارج بش کو کٹہرے میں لا کر مقدمات چلائے جائیں تو بہت سے پردہ نشیں بے نقاب ہو سکتے ہیں. ان جنگوں کے پیچھے چھپی لالچ اور حرص دنیا پر عیاں ہو سکتی ہے. دنیا بھر میں عام انسان چاہے عراق میں بستے ہوں پاکستان میں یا امریکہ و برطانیہ میں یہ تمام عام انسان زندگی کی ضروریات کیلئے جہد مسلسل میں مصروف رہتے ہیں لیکن ان عام انسانوں کے ذہنوں کو برین واش کر کے ایک دوسرے کے خلاف نفرت اور تعصب پیدا کرنے والے پوری انسانیت کے مجرم ہیں۔
ٹونی بلیئر جارج بش اور ان کے پس پردہ حلیف کسی طور بھی داعش، القاعدہ یا طالبان سے کم خطرناک نہیں اور اتنے ہی شدت پسند ہیں جتنا کہ یہ تنظیمیں. ان دونوں مجرموں کو انسانیت کا مجرم قرار دیتے ہوئے بین الاقوامی عدالت میں ان پر فی الفور مقدمہ چلانے کی از حد ضرورت ہے تا کہ جدید تہذیبوں کے نقابوں میں چھپے دہشت گرد بھی بے نقاب ہو سکیں۔