تحریر : شاہد جنجوعہ ”گیرت وائلڈرز” ھالینڈکا و ملعون ممبر پارلیمنٹ ہے جس نے قرآن پاک کو معازاللہ ایک فا شسٹ کتاب کہا اور اسلام مخالف بدنام زمانہ فلم ”فتنہ” بناکر دنیا میں اسلام کے تشخص کو بدنام کرنیکی جسارت کی ، اس بدبخت نے فروری 2005 میں ھالینڈمیں گستاخانہ خاکوں کی سب سے بڑی نمائش بھی منعقد کی اور توہین رسالت کا مرتکب اور مردود ہوا اسکے رد عمل میںپوری دنیا میں مسلمانوں نے شدید اجتجاج کیا ۔گیرت نے وہی تماشا لندن میں بھی کرنیکی کوشش کی مگر یہاں مسلمانوں کے رد عمل اور شدید احتجاج کی وجہ سے حکومت برطانیا نے اسے اپنے ملک میں داخل ہونے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔”ڈاکٹر طاہرالقادری ” یہ وہ شخصیت ہیں جنھوں نے اپنی تحریک منہاج القرآن کا قیام ہی ناموس رسالت مآب ۖ کے تحفظ کی قسم اٹھا کر کیا اور اپنی کتاب ” احکام اسلام اور تحفظ ناموس رسالت ۖ” میںقرآن و حدیث کی روشنی میں یہ ثابت کیا کہ گستاخی رسول ۖ کا مرتکب شخص کوئی بھی ہو وہ ” ملعون و مردود’ ‘ ہے جس کا وجود بھی اللہ تبارک و تعالیٰ اس کائنات ارضی پر برداشت نہیں کرتا تاآنکہ صفحہ ہستی سے اسکا نام و نشان مٹادیا جائے ،،،،،،،،
ایسے حرماں نصیبوں کے لئے روئے کائنات پرٹھرنے کی کوئی جگہ نہیں اسلئے اے امت مصطفوی ۖ کے افراد تم انہیں جہاں اور جس وقت بھی پاو وہیں ان کا سر تن سے جدا کردو اور انہیں چن چن کر قتل کردو ”صفحہ191 ،192شاعت اول مطبوعہ1995 صرف چند ماہ قبل طاغوتی و استعماری طاقتوں کی ایماء پر کی جانیوالی اس سازش جس نے مسلمانان عالم کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ دنیا ہمیشہ دو ہی مرحلوں میں رہتی ہے امن یا جنگ ! امن ہو تو استعماری طاقتیں ہرجگہ سازش کا جال بنتی ہیں اور خواہ مخواہ ایسے حالات پیداکرتی ہیں کہ مسلمان وہ ردعمل دیں کہ ان پر دہشت گردی کا الزام لگایا جا سکے اور پھر جنگ مسلط کرکے انسانی بستیوں کو صفحہ ہستی سے مٹادیا جائے یہ دونوں رویے کسی سوسائیٹی میں نارمل شمار نہیں ہوتے اور نہ ہی تہزیب و اخلاق اور اظہارآزادی رائے کی دنیا میں انہیں معقول سمجھا گیا ہے سوال یہ ہے کہ ایسی خطرناک اور قابل مزمت سازش جس کی بازگشت ابھی تک مغربی میڈیا میں گونج رہی ہے اور شاتم رسول ۖ ایسی اور کئی نمائش منعقد کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں۔
ناموس رسالت ۖ کا دم بھرنے والی تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری کئی سالوں کے بعداپنے پہلے کنٹینٹل دورے پر فرانس تشریف لاتے ہیں۔ سوشل میڈیا میں انکے دورہ فرانس کے دوران یہ بازگشت سنی جارہی تھی کہ وہ شاتم رسول ۖ چارلی ھبدو کو چیلنج کرنے جارہے ہیں اوروہ گستاخانہ خاکوں کے حوالے سے اس ملعون کو قرآن و احادیث پر مبنی اپنے موقف سے خبردار کرتے ہوئے اپنے امن کے نصاب کی ایک کاپی اس شاتم رسول ۖ کے اسکے بھی حوالے کریں گے تاکہ معاشرے میں بین المذاہب باہمی رواداری اور پائیدار امن کے قیام کا آغاز ہو اور آیندہ کوئی بدبخت ایسی گستاخی کرنے سے پہلے اس کے ممکنہ ردعمل اور اسکے خطرناک نجام پر سوچ خوب سوچ لے ! ان سے امید کی جارہی تھی کہ وہ شیخ الاسلام والمسلمین ہونے کا فریضہ ادا کرتے ہوئے فرانسیسی ملعون و مردود ”چارلی ھبدو ” سے ملاقات کیے بغیر وہاں سے ہرگزروانہ نہیں ہونگے مگرنہ جانے کس انجانے خوف اور ڈر کی وجہ سے انہوں نے فرانس میں ایک زبانی بیان تک دینے سے بھی مکمل اجتناب کیا۔ پھر وہ ھالینڈ تشریف لائے اور تحریکی کارکنان سے میل ملاقتیں شروع ہوگی
Blasphemy
مگر اسی ھالینڈ میں ” گیرت وائلڈرز” نام کا ایک کردار وہ بھی رہتا ہے جس پر توہین رسالت مآب ۖ کا الزام ہے اورجس نے آزادی اظہاررائے کے نام پر گستاخی رسولۖ جیسے قبیج جرم کا ارتقاب کیا اور وہ اب بھی مسلسل اس عمل پر اترارہا ہے شیخ الاسلام جب ہالینڈ پہنچنے تو وہاں کے مسلمان بھی یہ توقع کر رہے تھے کہ وہ سب سے پہلے اس ملعون گیرت وائلڈرز کوایک بھرپور مناظرے ی یا مباہلے کا چیلنج کریں گے اور اس کی ان گستاخانہ حرکات پر شدید احتجاج کریں گے جسے وہ اپنی کتاب میں ایک ناقابل معافی جرم قرار دے چکے ہیں ۔ یاد رہے ڈاکٹر طا ہر القادری نے اپنی کتاب ” احکام اسلام اور تحفظ ناموس رسالت ” میں سورة احزاب کی آیت نمبر61 کو بنیاد بناکر گستاخ رسولۖ کی سزا پر خوب بحث کی اور پھر انہوں نے پاکستان کی شرعی عدالت میں گستاخی رسول کی سزا سر تن سے جدا، سر تن سے جدا ثابت کرنیکا مقدمہ لڑا اور وہ توہین رسالت مآب ۖ کی حوالے سے اس قانون سازی کا ہمیشہ کریڈٹ لیتے رہے ہیں لیکن اب جب اس دعوے کا بھرم رکھنے کا وقت آ یا وہ خاموش ہوگئے
آج سے تین سال قبل 8 ستمبر 2012 کو ڈینش ٹی وی کو شاتم رسول ۖ کی سزا کے حوالے سے پوچھے گئے ایک ٹی وی انٹرویو میں ڈاکٹر طاہر القادری کے گول مول جواب نے کئی شکوک و شبہات پیدا کئے جس کی وجہ سے ان پر شدید تنقید ہوئی اور وہ آج تک اس کا جواب دے رہے ہیں ۔انکے ناقدین کا یہ کہنا ہے کہ وہ دیرنیہ موقف سے پسپائی انکی انکی جگ ھنسائی ہوکا سبب بنی اور شاید یہ بھی ایک وجہ ہے کہ انکے ”امن کے نصاب ” کو سنجیدہ حلقوں میں پزیرائی نہیں ملی !!! اس کے ساتھ ساتھ ھمارا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ بالعموم ہم اور ہمارے نام نہاد لیڈرتہزیبی اورفکری طور پر یورپ اور امریکہ سے اس قدر مرعوب ہیں کہ ھماری زندگی کا بیشترحصہ صرف اس تگ و دو میں صرف ہوجاتا ہے کہ ہم علمی و فکری اور عملی و اخلاقی طورپراس طرح نظر آئیں
جیسے وہ چاہتے ہیں اور ایسا نظر آنے کیلئے ہم اپنی شکل و صورت ، نشست و برخاست ، اطوار و عادات اور کردار و اخلاق سے لیکر دین اسلام تک کا حلیہ بگاڑنے پربھی آمادہ و مستعد رہتے ہیں۔ جسے وہ اسلام کہیں ہم ویسا اسلام پیش کرنے میں لگ جاتے ہیں جس طرح کی تہزیب کو وہ پسند کریں ھم اسی طرح کے مہزب بننے میں اپنی توانائیاں صرف کردیتے ہیں جو مسلمانی ان کو درکار ہے ہم ویسے بن جاتے ہیں حالانکہ ہمارے اقدار اور روایات مغرب کی مرہون منت نہیں ہیں ہمیں ہر وقت خدا اور رسول کی رضا مطلوب ہے ھمارا معیارتہزیب اسوہ رسول ۖ ہونا چاہیے کیونکہ انہی کے دین اور انہی کے نام کی نسبت سے ھمارا ملی تشخص قائم ہے ورنہ رنگ ، نسل، علاقہ، اور زبان کسی کو مسلمان یا کافر نہیں بناتے۔
Masjid Quba
جیسے مسجد کا ایک اپنا ڈیزائن ہوتا ہے اور گرجا اور مندر کا اپنا ڈیزاین حالانکہ سبھی اینٹ اور پتھر سے بنے ہوتے ہیں لیکن انکے ڈیزائن ہی سے ہم مسجد، گرجا اور مندر میں فرق کرتے ہیں اسی سے پہچان ہوتی ہے کہ مسلمانوں کی عبادت گاہ کون سی ہے اور کون سی عمارت چرچ ہے ۔ اگر ہم ان علاما ت اور تشخصات و اصلاحات کے بارے میں یہ سوچ پیداکرلیں کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے تو سب کچھ گڈمڈ ہو جائے گا پھرنہ کوئی مسلمان رہے گا اور نہ کوئی کافر۔ روشن خیالی اور وسعت نظری کہ آڑ میں دین اور ثقافت کو کھلی چراگاہ قرار دینے کے نتائیج بہت بیانک ہونگے اور آنے والے دنوں میں لوگ اپنے مفادات ، خواہشات اور اشغال کو دین کا نام دیکر اس کے بنیادی تصورات کا حلیہ بگاڑ دیں گے ، پھر تضحیک شعائر اور عیش کوشی کرنے والے للکاریں گے کہ کوئی فقیہ اور راسخ العقیدہ مسلمان ان کے اطورار کردار پر سوال کرنے کاحق نہیں رکھتا جس کے نتیجے میں ہمارے لئے اپنے خیرخواہ اور باطل ، طاغوتی اور استحصالی طاقتو ں کے ہاتھ کھیلنے والے کسی ایجنٹ کو خدا اور رسول کا باغی قرار دینا قریبا ناممکن ہوجائے گا۔
آج ہمیں اس ذہنیت کو ردکرنا ہے جو یورپ کے اعزاز کو ہی اصل اعزاز اور اس کے الزام کو یہ اصل الزام سمجھکرتھرتھرا جاتے ہیں اس کی ایک وجہ انکے اندر اعتماد کا فقدان ہے لیکن اس کا قطعا یہ مطلب نہیں ہے کہہ ہم وقت کے تقاضوں اور عالمی نشیب و فراز سے لاتعلقی کا رویہ اپنا لیں جدید علوم و فنون سے بے بہرہ رہیں اور اسکا قطعا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہمیں اپنی ‘ثقافت” حقیراور دوسروں کی ”ثقافت” میں حسن نظرآنے لگے ۔گورنر مدائن حضرت سلمان فارسی کسی دوسرے ملک کے اعلیٰ وفد سے ملاقات کررہے تھے اس دوران کھانے کا وقت ہوا تو زمین پر دسترخوان بچھایا گیا دوران طعام حضرت سلمان فارسی کے ہاتھ سے روٹی کا ایک ٹکڑا چھوٹ کر زمین پر گرا تو آ پ نے اسے فورا اٹھاکر جھاڑا اور تناول فرمالیا۔ آپ کے ذاتی معاون نے فوری آپکو سرگوشی کی کہ حضرت بڑے مہزب ملک کا وفد ہے پرتکلف لوگ ہیں کیا سوچیں گے کہ مسلمانوں کو حکومت مل گئی لیکن نفاست نہیں آئی ، مٹی سے لقمہ اٹھاکرگئے
آپ نے بڑے اعتماد سے جواب دیا کہ کیا میں اپنے پیارے رسول ۖ کی سنت کو ان احمقوں کی وجہ سے ترک کردوں؟ اور پچھلے تیس سال ان اولی العزم ہستیوں کی مثالیں دینے والے ڈاکٹر طاہر القادری سے یہ سوال پوچھنے میں کوئی حرج نہیں کہہ ان کے امن نصاب کی تقرییب لندن میں ہو یا اسلام آباد۔ دنیا میں امن تباہ کرنیوالے اور کشمیر ، فلسطین اور برما میں نہتے مسلمانوں کو آ گ اورخون میں نہلانے والے نصف صدی سے مسلمانوں کی نسل کشی کررہے ہیں مگر ڈاکٹر قادری نے بیرون ملک آج تک کبھی کھل کر انکی زبانی مزمت نہیں کی ؟ انکا امن نصاب مڑ مڑ کر انہی مسلمانوں کے لئے ہی کیوں ہے جو پہلے ہی مظلوم اور بے کس و مجبورہیں ، اب گستاخ رسول ۖ کے حوالے سے ڈاکٹر طاہر القادری کا انکے موقف کے حوالے سے ایک ا متحان ہے۔ سابق گورنر سلمان تاثیر پر اہانت رسول ۖ کا الزام اور اسکے گواہی مبہم تھی لیکن یہاں توسب کچھ واضح ہے ، دیکھتے ہیں وہ اس دفعہ اپنے موقف کی کس طرح وضاحت کرتے ہیں !!!