تحریر: ڈاکٹر میاں احسان باری غازی علم دین شہید نے توہین رسالت کرنے والے دشمنِ دین کو جہنم واصل کرڈالا تھاان کا مقدمہ قائد اعظم جیسے عظیم قانون دان نے لڑا تھا مگر وہ آخر وقت تک قتل کااقرار کرتا رہا سلمان تاثیر نے بطور گورنر جیل میں پہنچ کرجرم کی مرتکب خاتون آسیہ بی بی کے بارے میں خو د ہی عدالت کا جج بن کر کہاکہ وہ زندیقہ نہیں بلکہ بے گناہ ہے اور وہ زرداری سے ملاقات کرکے توہین عدالت کی مجرم خاتون کو ملنے والی سزاختم کروائے گا۔
اگر فوری طور پر سر عام توہین رسالت کے قانون کا مذاق اڑانے والے گورنر کے خلاف کاروائی کرد ی جاتی تو شاید غازی ممتاز قادری ایسا عمل نہیں کرتے مسلمانوں کا بنیادی عقیدہ ہے اورا س پر ان کا راسخ ایمان ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور رب ذوالجلال کی کل کائنات زمینوںا ور آسمانوں میں صرف ایک ہستی نبی پاکۖ ہی ایسی ہے جن کی عزت اور شان کے بارے میں خود خالق کائنات بیان فرماتے ہیں اور ان کا فرمان یہ ہے کہ نبی پاک ۖ کی عزت و حرمت کی حفاظت ہر مسلمان پر فرض ہے اورایسا کرنا خدا کی سنت کی ادائیگی ہی ہے۔
رب فرماتے ہیں کہ”اے بنیۖاگر میں تمہیں پیدا نہ کرتا تو کچھ بھی پیدا نہ کرتا حتیٰ کہ اپنے وجود کااظہار بھی نہ کرتا ۔نبی پاکۖ کی حرمت کی حفاظت کے لیے تمام مسلمان اور تمام مسالک اس بات پر متفق ہیں کہ نبی پاکۖ کی شان اقدس میں گستاخی کرنیوالوں کا سر تن سے جدا کردیا جائے اورحکم دیا کہ اپنی آواز تک بھی بنی ۖ کی آواز سے اونچی نہ کرو حضرت عمر فاروق نے اس شخص کا تن سر سے جدا کرواڈالا جس نے صرف اتنا کہا تھا کہ میں نے نبی ۖ سے فیصلہ کروایا ہے جو مجھے پسند نہیں آپ میرا فیصلہ فرمادیں۔
Sulman Taseer
تعزیرات پاکستان کی شق295 C سے یہ بات ظاہر ہے کہ نبی پاک ۖکی ناموس کے خلاف بولنے والوں کو سزائے موت کا حکم ہے۔ دنیا بھر کے تمام مسلمان تمام فقہ کے ماننے والے اور ہر مسلک کے پیروکار اس بات پر یکسو ہیں کہ سلمان تاثیر کا جو رد عمل تھا حکومت فوری اپنا کردار ادا کرتی تو بات یہاں تک نہ پہنچتی اور علامہ اقبال نے غازی علم دین شہید کے لیے بھرپور احتجاج کیااور تحریکیں چلائیںاس کام کودین مخالف یاغیر قانونی نہیں کہا جاسکتا۔
تمام عقائد کے ماننے والوں نے متفقہ طور پر غازی علم دین شہید کی حمایت کی تھی اور آج غازی ممتاز کی بھی حمایت کر رہے ہیں۔ انگریز ججوں نے تو غازی علم دین کو سزائے موت دے ڈالی تھی مگر ہمارے مسلمان جج صاحبان کو اس عظیم ہستی کی بالادستی کو اولین ترجیح دیتے ہوئے انگریز کے بنائے گئے قوانین کو ایک طرف رکھ کرفیصلہ کرنا چاہیے۔ریمنڈ ڈیوس جیسے سفاک قتل کو بھی انہی عدالتوں نے معاف کرکے بھگا ڈالا تھااور ہمارے حکمرانوں اورانتظامیہ نے کئی بارتوہین رسالت کے مرتکبین ،مرتدین اورزندیقین کے خلاف سلمان تاثیر کی طرح مقدمات کا اندارج تک نہیں کیا۔جنوبی پنجاب کے ہی ایک ضلع میں لوگوں کے ایک بڑے اجتماع میںاکبر وینس نامی شخص نے توہین رسالت کی تھی، ہنگامہ برپا ہو گی اسخت طوفان اٹھا مگروقت کے اقتدارپر براجمان وزیر اعلیٰ نے پرچہ ہی درج نہ ہونے دیا برادری ،رشتہ داری آڑے آگئی تھی۔
مگر اس توہین رسالت اور اسکے مجرم کی امداد کے بعدچوہدریوں کا اقتدار باقی نہ رہا اور مشرف اور اس وقت کے اس کے حواری پاکستانی سیاسی جنگلوں کی خاک چھانتے در بدر پھر رہے ہیں اور توہین رسالت کے مجرم کو آج تک اس کا خمیا زا بھگتنا پڑ رہا ہے۔اقتداری دیوی مکمل روٹھ چکی ہے اپنی یاداشت کھو چکا ہے کئی مرض چمٹ چکے ہیں اپنے ہی عزیزوںکو ہی مشکل سے پہچا نتا ہے اورعلاقہ کے لیے اس کا زندہ رہنا ایک عذاب سے کم نہ ہے۔غازی علم دین شہید کے بعد غازی ممتاز قادری جیسے افراد ہی رہتی دنیا تک یاد رہتے ہیں اور شہادت کا رتبہ پاکر توامر ہو جاتے ہیں قادیانیوں کا نام نہاد جھوٹا بنی آخر رفع حاجت کے لیے گیا ہوا اپنے ہی پاخانہ میں منہ کے بل گرا مرا ہو اپایا گیا تھا توہین رسالت ہی بڑا جرم نہیں بلکہ اس کے مجرم کو پناہ دینے والے بھی اسی دنیا میں ذلیل و خوار ہو کرجہنم واصل ہو کر رہتے ہیں۔