تحریر : جاوید صدیقی کئی دنوں سے میں اپنے اندر بے چینی محسوس کررہا تھا اور اپنے آپ کو کوس رہا تھا ،میں دنیا کا بد ترین شخص محسوس کررہا تھا کیونکہ میں نے کئی موضوع پرلکھنے کی جسارت حاصل کی لیکن میری جان میرا سب کچھ آپ پر قربان ، میرا ایمان ، میری کا میابی ، میری خوش نصیبی، میری عزت، میری دولت، میرا ذکر ،میری عبادت کی منظوری گویا تمام تر روح آپ ﷺ پر قربان اور کھربوں درود و سلام ،مصطفیٰ جان رحمت پے لاکھوں سلام ، شمع بزم ہدایت پر لاکھوں سلام ، آپ ﷺ جس کی تعریف اللہ نے فرمائی، آپ ﷺ کا مرتبہ اللہ نے سب سے زیادہ بلند کیا، آپ ﷺ کے صدقے مجھ جیسے انتہائی گناہگار کو بھی بخشے گا،اُس عظیم ترین ہستی پر میری جسم و روح کا لاکھوں سلام، اللہ کا شکر ہے کہ اُس نے اپنے پیارے حبیب محمد ﷺ کی امت میں مسلم پیدا کیا، کھربوں شکر اللہ کا جس نے اپنے حبیب محمد ﷺ کی محبت کا عطیہ بخشا، میری کھربوں بار زندگی بھی ہو تو آپ ﷺ پر قربان ،اللہ مجھے تا حیات عاشق رسول ﷺ، غلام رسول ﷺ کے شرف سے نوازے رکھے آمین ثما آمین۔۔۔!! معزز قائرین !میری طاقت نہیں کہ میں گناہوں کی پلیٹ میںلپٹا ہو شخص آپ ﷺ کی حرمت میں لکھ سکے یہ بھی آپ ﷺ کی رحمت ہے کہ مجھ جیسے امتی کولکھنے کی سعادت بخشی، اپنے کالم کے سلسلے میں ،میں نے مفتی ڈاکٹرعمیر محمود صدیقی ، اسلامی اسکالر کیو ٹی وی و اے آر وائی نیوز سے اس بابت قرآن و سنت کے حوالہ جات پر رہنمائی لی تاکہ کسی غلطی کا مرتکب نہ ہوسکوں، مین بہت شکر گزار ہوں ڈاکٹرعمیر محمود صدیقی کا کہ انھوں نے اس بارے میں بھرپور تعاون پیش کیا۔۔۔!! معزز قائرین! منافقین اس بات سے ڈرتے ہیں کہ مسلمانوں پر کوئی ایسی سورت نازل کردی جائے جو اُنہیں ان باتوں سے خبردار کردے جو ان (منافقوں)کے دلوں میں (مخفی) ہیں۔ فرمادیجئے:تم مذاق کرتے رہو بیشک اللہ وہ (بات) ظاہر فرمانے والا ہےجس سے تم ڈرتےرہے ہو۔
اگر آپ ان سے دریافت کریں تو وہ ضرور یہی کہیں گے کہ وہ تو صرف بات چیت اور دل لگی کرتے تھے۔ فرمادیجئے: کیا تم اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ مذاق کررہے تھے؟ (اب)تم معذرت مت کرو، بیشک تم اپنے ایمان (کے اظہار)کے بعد کافر ہوگئے ہو، اگر تم میں ایک گروہ کو معاف بھی کردیں (تب بھی)دوسرے گروہ کو عذاب دیں گے اس وجہ سے کہ وہ مجرم تھے،القرآن (سورۃالتوبۃ ۹:۶۴، ۶۵،۶۶)!ان آیات کے بارے میں امام ابوبکر حصاص رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’ اور اس بات پر بھی دلالت کرتا ہے کہ اللہ کی آیات کے ساتھ اور شریعت میں سے کسی بھی چیز کے ساتھ استہزا اس کے فاعل کے ساتھ کفر ہے، (احکام القرآن:ج:۲ /ص : ۱۸۳ )؛ ۔اللہ رب العزت اور رسول اللہ ﷺ کے کسی حکم کا انکار کرنا گویا اللہ اور اس کے رسول کریم ﷺ کا ہی انکار کرنا ہے اسی طرح اگر کوئی فرد کسی شرعی حکم کو خفیف جانتا ہے، اس کا مذاق اڑاتا ہے اس کی توہین کرتا ہے یا اسے قابل قدر شے نہیں سمجھتا تو یہ بھی انکار ہی ہے بلکہ انکار کی ادنیٰ صورت ہے۔ ایسے لوگوں کیلئے درد ناک عذاب تیار کیا گیا ہے اور ان کے ساتھ بیٹھنے سے سخت اجتناب کرنا چاہیئے،قرآنا الحکیم و الفرقان المجید کی سورۃ النسا( ۴:۱۴۰ ) میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اور بے شک (اللہ نے) تم پر کتاب میں یہ (حکم)نازل فرمایا ہے کہ جب تم سنو کہ اللہ کی آیتوں کا انکار کیا جارہا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جارہا ہے تو تم لوگوں کے ساتھ مت بیٹھو یہاں تک کہ وہ (انکار اور تمسخر کو چھوڑ کر) کسی دوسری بات میں مشغول ہوجائیں۔ ورنہ تم بھی انہیں جیسے ہوجاؤ گے۔
بیشک اللہ منافقوں اور کافروں سب کو دوزخ میں جمع کرنے والا ہے۔: اس سے یہ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی آیات اس کے رُسل علیہم السلام اور احکامات کا مذاق اڑانا، ان کا استخفاف کرنا، کفار اور منافقین کا طریقہ ہے، جو شخص اس گناہ کبیرہ کاا رتکاب کرے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے اور آخرت میں اس کیلئے سخت عذاب اور رسوائی ہے۔۔حضرت امام عمر نسفی فرماتے ہیں :’’ اور شریعت کی توہین کرنا کفر ہے اور شریعت کا مذاق اڑانا کفر ہے۔‘‘ (العقائدالنسفیۃ : ص:۱۶۸ )۔اس کی شرح میں سعد الدین تفتازانی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :’’ کیونکہ یہ تکذیب (جھٹلانے) کی علامات میں سے ہے ‘‘۔حضرت امام دبوسی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں : اگر کوئی سنت کو استخفافا ترک کردیتا ہے تو وہ کافر ہوجائے یا فاسق ہوگا کیونکہ اس صورت میں یہ استخفاف اس کے وضع کرنے والے یعنی نبی کریم ﷺ کا استخفاف ہوگا‘‘(تقویم الادلۃ: ص: ۷۹)جو شخص ﷺ اور دیگر انبیا کرام کی گستاخی کرے اسی قطعی طور پر قتل کیا جائے گا اگر وہ توبہ کرلے تو دیگر حدود کی طرح حد قتل ساقط نہیں ہوگی (التحدث بنعمۃ اللہ: ۱۶۴)معزز قائرین! تاریخ اسلام ہمیں بتاتی ہے کہ حرمت رسول ﷺ کیلئے کسی بھی حد تک جایا جاسکتا ہے ، تاریخ کے اوراق میں مسلم سپہ سالار سلطان نورالدین زنگی نے نبی کریم ﷺ کے حکم پر کس طرح ایمانی جذبے کیساتھ ناموس رسالت کیلئے یہودیوں کو جہنم واصل کیا۔
Life
سلطان نور الدین زنگی عشاء کی نماز پڑھ کر سوئے کہ اچانک اٹھ بیٹھے اور نم آنکھوں سے فرمایا میرے ہوتے ہوئے میرے آقا میرے نبیﷺ کو کون ستا رہا ہے ۔آپ اس خواب کے بارے میں سوچ رہے تھے جو مسلسل تین دن سے انہیں آ رہا تھا اور آج پھر چند لمحوں پہلے انھیں آیا جس میں سرکار دو عالم نے دو افراد کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ یہ مجھے ستا رہے ہیں۔اب سلطان کو قرار کہاں تھا ،انہوں نے چند ساتھی اور سپاہی لے کر دمشق سے مدینہ جانے کا ارادہ فرمایا۔اس وقت دمشق سے مدینہ کا راستہ بیس سے پچیس دن کا تھا مگر آپ نے بغیر آرام کیئے یہ راستہ سولہ دن میں طے کیا، مدینہ پہنچ کر آپ نے مدینہ آنے اور جانے کے تمام راستے بند کروادیئے اور تمام خاص و عام کو اپنے ساتھ کھانے پر بلایا، اب لوگ آ رہے تھے اور جا رہے تھے ، آپ ہر چہرہ دیکھتے مگر آپکو وہ چہرے نظر نہ آیا اب سلطان کو فکر لاحق ہوئی اور آپ نے مدینے کے حاکم سے فرمایا کہ کیا کوئی ایسا ہے جو اس دعوت میں شریک نہیں ،جواب ملا کہ مدینے میں رہنے والوں میں سے تو کوئی نہیں مگر دو مغربی زائر ہیں جو روضہ رسول کے قریب ایک مکان میں رہتے ہیں ، تمام دن عبادت کرتے ہیں اور شام کو جنت البقیع میں لوگوں کو پانی پلاتے ہیں ، جو عرصہ دراز سے مدینہ میں مقیم ہیں، سلطان نے ان سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔
دونوں زائر بظاہر بہت عبادت گزار لگتے تھے، انکے گھر میں تھا ہی کیا ایک چٹائی اور دو چار ضرورت کی اشیاء کہ یکدم سلطان کو چٹائی کے نیچے کا فرش لرزتا محسوس ہوا، آپ نے چٹائی ہٹا کے دیکھا تو وہاں ایک سرنگ تھی، آپ نے اپنے سپاہی کو سرنگ میں اترنے کا حکم دیا ، وہ سرنگ میں داخل ہوئے اور واپس آکر بتایا کہ یہ سرنگ نبی پاکﷺ کی قبر مبارک کی طرف جاتی ہے، یہ سن کر سلطان کے چہرے پر غیظ و غضب کی کیفیت تاری ہوگئی،آپ نے دونوں زائرین سے پوچھا کے سچ بتاؤ کہ تم کون ہوں، حیل و حجت کے بعد انہوں نے بتایا کے وہ نصرانی ہیں اور اپنے قوم کی طرف سے تمہارے پیغمبر کے جسم اقدس کو چوری کرنے پر مامور کے گئے ہیں، سلطان یہ سن کر رونے لگے ، اسی وقت ان دونوں کی گردنیں اڑا دی گئیں، سلطان روتے جاتے اور فرماتے جاتے کہ میرا نصیب کہ پوری دنیا میں سے اس خدمت کے لئے اس غلام کو چنا گیا۔۔!!معزز قائرین ! حضور اکرم ﷺ کی حرمت ہی ایمان کا پہلا عنصر ہے اس کے بغیر ایمان اور مسلمان ہو ہی نہیں سکتا۔
سعودی عرب میں چوری پر ہاتھ کاٹ دیئے جاتے ہیں، منشیات پر سزا موت دی جاتی ہے لیکن ریاست پاکستان میں دین فطرت کے مطابق کوئی سزا متعین نہیں کی گئی ہے اسی بابت ریاست پاکستان میں جہاں خلاف شریعت پر بے حرمتی کا سلسلہ جاری و ساری ہے وہیں ناموس رسالت پر حکومتی ایوانوں میں سوائے شور شرابے کے کچھ نہیں ، کوئی ایسا قانون اب تک سامنے نہیں آیا جس کی روح قرآن و سنت کے مطابق ہو۔ ناموس رسالت پر حیل و حجت سے مسلسل کام لیا جاتا رہا ہے کیونکہ حکمران ہوں یا اپوزیشن، اراکین اسمبلی ہو یا بیورو کریٹس سب کے سب اپنے دنیا وی مفادات کو حرمت رسول پر ترجیح دیتے نظر آتے ہیں۔
Pakistan
یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ناموس رسالت پر پھانسی نہیں دی گئی ہے ، اگر ریاست پاکستان میں دین فطرت یعنی دین محمدی کے مطابق جرم پر سزاؤں کا سلسلہ قائم کیا جائے تو نہ صرف ناموس رسالت کرنے والے پیدا ہونگے اور نہ ہی معاشرے میں بد نظمی، فساد اور انتشار پیدا کرنے کی کسی کی ہمت ہوگی، جس اسلامی ریاست میں اسلامی قوانین کو غیر مسلموں کے قوانین پر ترجیح دی جائیگی وہاں کی ریاست دنیا کی بد ترین ریاست بن جائیگی ، یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں خوارجیوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے ، نام نہاد مذہبی ملاؤں کے چکر میں دین کی اساس کا نہ صرف مذاق بنایا جارہا ہے بلکہ دین محمدی کی شکل بھی بگاڑی جارہی ہے ، انتہا پسندوں کو پال کر اپنے غلیظ مذموم مقاصد پورے کیئے جارہے ہیں ، اس بابت سیاسی جماعتوں کے چند گروہ، مذہبی جماعتوں کے چند گروہ اور کچھ بیوروکریٹس کے چند گروہ شامل ہیں ، ریاست پاکستان میں جہاں افواج پاکستان کے ذریعے دہشتگردوں کا قلع قمع کیا جارہا ہے وہیں ،سہولت کار و معاونین کیلئے بھی سخت اقدامات ضروری ہیں، مجرموں کو نیب کے ذریعے چند رقم کے عوض پاک کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے ، اس سے ریاست میں عدم توازن اور تشویش کا عمل بڑھ رہا ہے ، پاکستان اسلامی نظریہ پر بنا تھا،اسے اسلامی نظریہ پر ہی رکھنا ہونا کیونکہ اسلامی نظریہ ہی اس کی بقا و سلامتی کی ضامن ہے لیکن یہ اسلامی نظریہ کسی ایک مسلک یا جماعت کا نہیں بلکہ وہ دین محمدی کا نظریہ جو مسلک سے آزاد تھا۔
ضروری نہیں کہ ایمرجنسی یا مارشلا ہی ریاست میں قانون پر عمل درآمد کرائے یہ جمہوری حکمتوں کی اولین ذمہ داری ہے لیکن جہاں حکمران سے لیکر اراکین و ممبرز خود کرپٹ، لوٹ مار میں مشغول ہوں وہاں کی ریاست یقیناً بد ترین ہوتی ہے ، پاکستان کی ریاست کا حال یہی ہے، پی پی پی ، پی ایم ایل این سمیت کئی چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں کو پاکستانی عوام کو بہت مایوس کیا ہے، اب عوام خود کہتی ہے کہ کون سی ایسی جماعت ہے جو پاکستان اور نظریہ پاکستان کی حفاظت کرسکے یہاں تو آتے ہی ہیں اسی لیئے کہ لوٹ مار کرکے قومی خذانے کو خالی کردیں اورغیروں کے ایجنٹ بن کر غلاماناں سوچ کو فروغ دیا جارہا ہے ، دین اولیا اللہ ، اسلافین اور بزرگان دین کی تعلیمات کو پھیلانے کیلئے کسی بھی جانب ریاست سطح پر تحقیقی کام نہیں کیا جارہا جبکہ جاہلیت کے مارے کچھ غنڈہ نما مذہبی جماعت کے ہاتھوں خوف طاری کرلیتے ہیں ان میں لال مسجد جیسے عناصر ملک بھر میں پھیلے ہوئے ہیں، کہیں بھی قانون و ضوابط دیکھنے میں نہیں آتا اس کی سب سے بڑی وجہ ہماری پولیس اور اس کا نظام ہے۔
پولیس میں سب سے زیادہ برا فعل تفتیش کا ہے جو صرف دولت کمانے کیلئے وطن فروشی تک کر بیٹھتے ہیں یعنی دشمنانان وطن کو سہولت فراہم کر بیٹھتے ہیں ، ناموس رسالت کے واقعات بھی ان ہی دشمنان پاکستان کی جانب سے ہوتا ہے ، وقت اس بات کا متحمل نہیں ہوسکتاکہ ریاست پاکستان میں عوام کی نظریں پاکستان کی بقا و سلامتی اور قانون کی پاسداری کیلئے اب صرف اور صرف عدالت عظمیٰ اور اپک افواج پر مرکوز ہے ، عوام کے مطابق یہی آخری امید ہے بصورت پاکستان کا پھر اللہ ہی حافظ ، عوام کے مطابق اس وقت سیاسی جماعت میں کوئی بھی ایسا نہیں جو ریاست پاکستان کے نظام کو بہتر انداز میں چلا سکے جو وطن عزیز کیلئے اپنی جماعت کو بالا طاق رکھ سکے ان کے مطابق یہاں پاکستان نہیں بلکہ اپنی سیاست جماعت اہم ہیں ، ان سیاسی جماعت کے مطابق افواج پاکستان کی حرمت بھی کچھ نہیں اسی بابت یہ اقتدار میں آکر اپنی ہی افواج کو آنکھیں دکھاتے ہیں اور غیروں کی گود میں بیٹھ کر اطمینان کا سانس لیتے ہیں، اللہ پاکستان کے نظام کو بہتر فرمائے۔۔!!! پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد۔۔۔۔۔!! !
Javed Siddiqui
تحریر : جاوید صدیقی ای میل: Journalist.js@hotmail.com