تحریر : عتیق الرحمن ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضورانورۖ کا گزر بازار سے ہوا تو ایک تاجر کے ٹھیلے کے پاس آکر اس سے استفسار کیا کہ آپ اچھی کوالٹی کی اشیاء فروخت کررہے ہو تو اس نے جواب میں عرض کیا جی ہاں چونکہ اشیاء فروخت بظار صاف ستھری اور اجلی معلوم ہو رہی تھی جس پر آپ نے اس کی تعریف کی اسی دوران جبرائیل نازل ہوئے اور نبی پاک ۖ کو بتلایا کہ اس ٹھیلے والے کی فروختنی شئی کے اندر ہاتھ ڈال کر چیک کریں جب آپۖ نے دیکھا تو معلوم ہواکہ اس شخص نے دھوکہ دہی سے کام لیتے ہوئے اس تاجر نے خشک اشیاء کو اوپر کے حصہ پر سجا کر رکھا ہواتھا جبکہ تر اشیاء کو اندر کے حصہ میں چھپا یا ہوا تھا کہ وہ جب اشیاء کو فروخت کرتے وقت تراشیاء کو فروخت کردیا کرتا تھا ۔جس پر نبی اکرمۖ نے ارشاد فرمایا کہ جس کسی نے دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔اسی طرح قرآن حکیم کی سورت المطففین میں بھی ناپ تول میں کمی کرنے والے کی مذمت کی گئی ہے ۔
انسانی معاشرے میں ایک مرض عام ہوچکا ہے کہ سماجی طبقوں کے وابستگان اپنی معاملاتی زندگی میں پس و پیش سے کام لیتے نظر آتے ہیں کہ و دھوکہ دہی دیتے ہیں اور کاروبار تجارت، ملازمت و نوکری ، رشتے اور تعلقات کے سلسلوں میں دھوکہ دہی کے بازار کو گرم رکھا جاتاہے۔ جو کہ افسوس ناک امر ہے ۔دھوکہ دہی اور ملاوٹ ایک ایسا ناسور ہے کہ اس مرض میں مبتلا بھی معاشرے کے اکثریتی طبقے ہیں کہ ہر ایک خود کا تیز و چست ظاہر کرکے دوسرے کو دھوکہ دینے کی سعی کرتا ہے درحقیقت وہ اپنے علاوہ کے شعبہ میں دوسروں سے دھوکہ کھاتانظر آتاہے جبکہ نبی اکرمۖ کا فرمان عالی شان ہے کہ مسلمان کی یہ صفت ہونی چاہئیے کہ وہ جو کچھ اپنے لئے محبوب رکھتاہے وہی کچھ دوسروں کیلئے پسند کرے۔ یعنی جب ہم کسی انسان سے نیکی و بھلائی کی توقع کریں تو لازمی ہے کہ ہم بذات خود اس انسان کے ساتھ خیر و صلاح کو لازم پکڑیں۔
یہی وجہ ہے کہ خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروق رات کی تاریکی میں اپنی رعایا کی حاجتوں اور ضرورتوں کے حل کیلئے بازار کا چکر لگاتے تھے کہ ایک دن آپ نے ایک ماں اور بیٹی کا مکالمہ سنا۔ ماں کی یہ خواہش تھی کہ وہ دودھ جو ان کا ذریعہ معاش تھا میں پانی کی ملاوٹ کرکے اسے زیادہ کردے تاکہ اس میں سے نفع حاصل ہوسکے جس پر بیٹی اپنی والدہ کو اس عمل کے اختیار کرنے سے منع کرنے لگی کہ عمر کے زمانہ خلافت میں ملاوٹ کرتی ہو؟ جس پر ماں نے جواب میں کہا کہ رات کا وقت ہے عمر سوچکا ہے وہ تو نہیں دیکھ رہا ہمیںاورہمارے اس عمل کا کسی کو کانوں کان بھی خبر نہیں ہوپائے گی تو قربان جایئے اس غیور و امانت دار بیٹی پر کہ جس نے کہا کہ اس بات میں شک نہیں کہ عمر سوچکے ہیں مگر ان سے زیادہ طاقت ور ذات جو کائنات کی خالق و مالک ہے اور جو قوی و قدیر ،علیم و سمیع اور حی و قیوم ہے وہ تو کبھی نہیں سوتی لہذاہمیں اس عمل سے اجتناب کرنا چاہئے اور چونکہ نبی برحق علیہ الصلاة والسلام کا فرمان عالی شان بھی پیش نظر رہنا چاہئیے کہ ”اس شخص کا ایمان نہیں جو امانت داری کو اختیار نہیں کرتا”ماں اور بیٹی کی یہ گفتگو سن کر حضرت عمر جھوم اٹھے اور صبح سویرے اپنے بیٹے عبداللہ کیلئے اس پاکیزہ لڑکی کا ہاتھ مانگا کہ یہ جس گھر میں بیاہے گی خیروبرکت اور اللہ کی نصرت ساتھ لیکر جائے گی۔
ایک طرف تو یہ منظر ہے کہ صحابہ کرام و اولین مسلمان زندگی کے ہر شعبہ میں پھونک پھونک کر قدم رکھتے تھے کہ مبادا ان کے کسی قول و فعل یا عمل سے کسی بھی مسلمان کو تکلیف نہ پہنچ جائے یہاں تک کے ان کے ایثار و قربانی اور ہمدردی و بہی خواہی کا جذبہ ان میں اس حدتک رچ بس چکا تھا کہ وہ ہر لمحہ اپنے مسلمان بھائی کی کامیابی و کامرانی اور اس کی سہولت کیلئے کوشاں رہتے تھے ۔حاجت مندوں کی حاجت کو بغیر کسی طلب کے پورا کردیا کرتے تھے ۔ اور انہوں نے اپنی زندگی کا رہنما اصول یہ مقرر کرلیا تھا کہ نبی مکرمۖ نے فرمایا تھا کہ ”نہ کسی کا نقصان کرو اور نہ اپنا نقصان ہونے دو”یعنی کہ صحابہ کرام نے اپنی مکمل زندگی کو اسلام کی بنیادی تعلیمات کے سامنے سرجھکائے ہوئے گزار دی کہ جب جب اور جس جس بات سے قرآن حکیم نے یا اللہ کے نبی نے منع فرمایا اس سے رک گئے ۔طرہ امتیاز تو یہ ہے کہ یہی صحابہ و اہل بیت ہی ہیں جنہوں نے اسلامی تعلیمات پر من و عن عمل کرکے تاقیامت ماخذ و مصادر دین اسلام کو مستندو مستحکم کردیا کہ کوئی بھی انسان ان سے دور رہ گئے دنیا و آخرت کی فلاح حاصل نہیں کرسکتا۔
قرآن و سنت میں مسلمانوں کو یہ بنیادی حقوق عطا کئے گے کہ مال کی حفاظت، نسل کی حفاظت، عقل کی حفاظت ، دین کی حفاظت کی ضمانت دی گئی ہے کہ ان میں سے کسی کو بھی مضرت پہنچنے پر وہ بھرپور دفاع کا حق محفوظ رکھتاہے اور اگر اس میں وہ مارا جائے تو شہید ہوگا۔یہی وجہ ہے کہ مسلمان کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ ”مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ و زبان کے شر سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے”۔ایک حدیث میں تو یہاں تک کہہ دیا گیا ہے کہ مومن ایک دوسرے کا آئینہ ہے اورایک مقام پر یہ بھی فرمایا مسلمان پر لازم ہے جو کچھ وہ اپنے لئے پسند و محبوب رکھتاہووہی کچھ اپنے مسلمان بھائی کیلئے بھی پسند کرے۔
ایک طرف اسلامی تعلیمات کا بحر ذخار ہے کہ اس میں مسلمانوں کے حقوق و فرائض کے تحفظ کی تلقین کی جارہی ہے اور اس میں کسی ایک کو کسی رنگ و نسل ،حسب و نسب کی وجہ سے فوقیت نہیں دی گئی مگر اس بات کے کہ وہ اللہ سے ڈرنے والا ہو۔ جبکہ دوسری جانب مسلم معاشرہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کا تمسخر و مذاق اڑانا اور اس سے اعراض کرنا اپنا وطیرہ بناچکا ہے ۔ اسلامی اخلاقیات کا مسلم معاشرے سے جنازہ نکل چکا ہے کہ ذخیرہ اندوزی، گراں فروشی، دھوکہ دہی، فراڈ ، غبن و خیانت،سود و ناجائز منافع خوری جیسے مکروہ اعمال کو معیوب سمجھنے کی بجائے کاروبار کا حصہ سمجھا جاتاہے ۔کہ کہیں دودھ میں پائوڈر وکیمیکل مواد اور انجکشن کے ذریعہ ملاوٹ کی جاتی ہے تو کہیں مرچوں میں رنگ ملایا جاتاہے ۔کہیں دال و چاول میں پتھریاں شامل کی جاتی ہیں تو کہیں سبزیوں اور فروٹ میں بدبودار و ناقص اشیاء کو ڈھیری میں چھپا کر فروخت کیا جاتاہے ۔کہیں الیکٹرک کانٹے(ترازو) کو فکس کیا جاتاہے تو کہیں لیتے وقت زیادہ اور دیتے وقت کم دینا شعار بنالیا گیا ہے جبکہ نبی کریمۖ نے فرمایا ہے کہ معاملہ کرتے وقت آسانی پیداکرو یعنی خریدتے وقت کم لو اور بیچتے وقت زیادہ دو کیونکہ یہ عمل تقویٰ کے قریب ہے۔
بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارے ہاں اس بات کو سمجھنے میں کوتاہی برتی جاتی ہے کہ اگر میں کسی فرد بشر کو اپنے کاروبار وہ تجارت ہو یا ملازمت،لین دین ہو یا کوئی بھی معاملہ، نکاح و طلاق کا مسئلہ ہو یا جانوروں کی خرید و فروخت کا مسئلہ روزمرہ کی جمیع اشیاء کے کاروبار میں سے کسی ایک شعبہ سے وابستہ فرد دانستہ طورپر دھوکہ دہی یا فراڈ کرکے خوش ہوجاتاہے کہ میں نے فلاں کا نقصان کردیا ہے جبکہ حقیقت میں وہ اکیلا کسی ایک کو دھوکہ دے رہاہوتاہے جبکہ باقی شعبہ جات کے سبھی افراد خود اس کو بھی دھوکہ دیتے ہیں اور اس سے فراڈ کرتے ہیں ۔ ایسے میں ضرور ت اس امر کی ہے کہ پاکستان کا اسلامی معاشرہ قرآ ن و سنت اور تعلیمات اسلاف پر عمل کرتے ہوئے اللہ کے حضور خشوع و خضوع کے ساتھ تائب ہو کہ وہ آئندہ کسی کو نہ دھوکہ دے گا نہ غلط بیانی کرے گا ، نہ فراڈ کرے گا ، نہ بددیانتی کرے گا، نہ سود کھائے گا، نہ حرام مال کھائے گا، اور نہ ہی تمام محرمات کے مرتکبین افراد کی حمایت و تائید کرے گا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام صرف درست عقیدہ اور عبادت کو ہمیشگی سے اختیار کرنے کا نام ہی نہیں بلکہ حسن معاملہ اور سیاسی، سماجی اور مذہبی تعلقات انفرادی ہوں یا اجتماعی میں اعلیٰ اخلاق و کردار کو اختیار کرنا بھی ضروری ہے ۔جس دن سے ہم نے یہ عزم کرلیا تو ملت اسلامیہ کو دنیا کی کوئی طاقت شکست سے دوچار نہیں کر سکے گی۔
Atiq ur Rehman
تحریر : عتیق الرحمن ناظم وحدانی نظام تعلیم فورم پاکستان سیکرٹری اطلاعات ترنول پریس کلب اسلام آباد ممبر نیشنل فرنٹ آف جنرلسٹ پاکستا ن 0313-5265617