تحریر: ڈاکٹر خاورسلطان گزشتہ دو دہائیوں سے ہمارے معاشرے میں جہاں تمام شعبہ جات کمرشل بیسڈ ہوتے جا رہے ہیں وہاں تعلیم کا شعبہ بھی اس سے بچ نہیں سکا ۔اکیسویں صدی کے آغاز سے ہی تعلیم کے شعبے میں عجیب و غریب انقلاب برپا ہواہے ۔ملک میں نجی سکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیوں کی تعداد میں بے قابو اضافہ ہوا ہے ۔کسی چھوٹے سے قصبے کی کوئی گلی ایسی نہیں جہاں ایک دو پرائیوٹ سکول یا کالج نہ ہو۔سکول کالج تو چھوٹی چیز ہے ہر درمیانے سے شہر میںدو چاریونیورسٹیز اور ایسے انسٹیٹیوٹ موجود ہیںجو ڈگری جاری کرنے کی اتھارٹی رکھتے ہوں۔کوئی دیوارایسی نہیںجہاں آپ کوکسی سکول،کالج،یونیورسٹی،لاء کالج، پیرامیڈیکل سکول یااکیڈمی کا اشتہار نظرنہ آئے۔ان تعلیمی اداروںکی فیسیں آسمان سے باتیںکرتی ہیں۔ غریب اوردرمیانے طبقے کے لوگ بھی ہرحالت میں اپنے بچوں کوان اداروںسے تعلیم دلوارہے ہیں۔تعلیم کایہ رجہان ہے کہ ڈہائی سال کے بچے کواسکے وزن سے تین گنا وزن کا بستہ پہناکرماںکی گودسے نکال کرسکول میںڈال دیاجاتاہے۔اس ساری دوڑدھوپ سے ملک کی خواندگی میںتوا ضافہ ہواہے مگرپڑھے لکھے لوگوںمیںایک عجیب فرسٹیشن پیداہوگئی ہے۔معاشرے میںانتشار،عدم توازن،اخلاقی بے راہ وری پیداہوگئی ہے۔بے روزگاری،بے سکونی اورجرائم میںخاطرخواہ اضافہ ہواہے۔
غریب اور درمیانے طبقے کے ماں باپ اپنی زمین جائیدادڈنگروچھابیچ کراپنے بیٹے کواس توقع سے مہنگے مہنگے کالجوںسے تعلیم دلواتے ہیںکہ یہ بڑاافسربنے گا،ٹائی لگاکرگاڑی پر گائوں آئے گا،عزت بنے گی۔لیکن ڈگری مکمل ہونے کے بعداسے دس ہزارکی نوکری بھی نہیں ملتی۔خاندان کی حالت پہلے سے بھی بدتر ہو جاتی ہے۔اب وہ تعلیم یافتہ بیٹاباپ کے ساتھ کھیتی باڑی بھی نہیںکرسکتا۔ڈگری اس کے گلے کا بوجھ بن کر رہ جاتی ہے۔جبکہ ڈگری کی شکل میں کاغذبیچنے والے کالجزکے مالکان امیرسے امیر ہوتے جا رہے ہیں،اورکے ایف سی یا میکڈونلڈزکی طرح نئے نئے شہروں میں اپنی فرنچائزیںکھولتے جارہے ہیں۔ اس ساری صورت حال کے ذمہ دارصرف یہ ڈگری فروش نہیں بلکہ ہم ڈگری کے خریدداربھی ہیں۔کیاہم تعلیم کواسی طریقے سے حاصل کررہے ہیں جیسے اسے حاصل کرنے کا حق ہے۔
Tutor
شائد میرا خریدو فروخت کا لفظ قارئین کو گستاخانہ لگے لیکن یہ سچ ہے کہ گھر میں بچوں کو پڑھانے کیلئے آنے والے ٹیوٹر یاقاری صاحب کو بچوں کی معمولی سی شکایت پر اسی طرح تبدیل کیا جاتا ہے جیسے گھر میں کام کرنے والی بائی کو۔اگرسکول میںاستادبچے کو کسی بات پرڈانٹے اوربچہ گھرآکرشکایت کرے توماںبچے سے یہ نہیں پوچھتی کہ بیٹا آپ کوٹیچرنے کس بات پر ڈانٹا ہے بلکہ فوراًسکول کے مالک یا پرنسپل کو کال کرتی ہے اور پرنسپل بات کی تہہ تک جائے بغیراستادکوفارغ کر دیتاہے تاکہ ان کاکلائنٹ خراب نہ ہو۔
ایک باربھرے دربارمیںاکبرابادشاہ کواس کے استادنے ڈانٹاتویہ بات اسے ناگوارگزی،لیکن وہ خاموش رہااوراس کا اظہار اس نے اپنی ماںسے کیاتوماںنے اسے ڈانٹاکہ تم نے اس ناگوارخیال کو اپنے دل میں آنے کی اجازت بھی کیسے دی جبکہ وہ تمہارااستادتھا۔اسی طرح عباسی خلیفہ ہارون الرشیدکے بیٹے اپنے استادکے جوتے اٹھاتے تھے اور خلیفہ کواس بات پرفخراورخوشی تھی۔اورآج اگر استاداپنے شاگردکوکوئی کام کہہ دے تویہ بات حکام بالا تک ایک بڑے جرم کی طرح پہنچائی جاتی ہے۔
اور نتیجہ کیا نکلتا ہے وہ ان پڑھ بھی اکبر اعظم بنے اورہم ڈگریزرکھتے ہوئے بھی بے روزگار گھوم رہے ہیں۔ آپ اس نظام کی تعلیم سے کیا توقع رکھیںگے جہاںٹیچرکوباپ کے بجائے نوکراورسٹوڈنٹ کوکلائنٹ کادرجہ دیاجاتاہو۔تعلیم بکائو نہیں ہے یہ اللہ کی نعمت ہے۔کیا اسے حاصل کرنے کا یہی طریقہ ہے۔ اقبال کہتے ہیں تھے وہ بھی دن کہ خدمت استادکے عوض دل چاہتا تھا ہدیۂ دل پیش کیجیے بدلہ زمانہ ایسا کہ لڑکا پس از سبق کہتا ہے ماسٹرسے کہ بل پیش کیجیے !
Health
اسی طرح صحت بھی اللہ کی نعمت ہے۔یہ ہزار نعمت کہلاتی ہے۔میں نے اپنی پریکٹس ایسے مریض دیکھے ہیںجوآتے ہی کہتے ہیں ڈاکٹر صاحب جتنی مہنگی دوائی لکھنی ہے لکھ دیںہم آفورڈکر سکتے ہیںلیکن آرام آنا چاہیے۔نادانو!شفا تواللہ کی نعمت ہے۔اس کا مہنگی یا سستی دوائی سے کیا تعلق۔دوائی کی کیا حیثیت ہے کہ وہ کسی کو شفا دے سکے۔یہ تو اللہ کی مہربانی ہے کہ وہ کس دوا میں شفا ڈال دے۔میں ایسے لوگ شفایاب ہوتے دیکھے ہیں جن کو ہم ڈاکٹرزلاعلاج سمجھ رہے ہوتے ہیں۔اور ان کے ٹھیک ہو جانے کے بعد بھی ان کے ٹھیک ہونے کا میکانزم ہماری سمجھ میں نہیں آتا۔اور ایسے رئیس بھی میں نے دیکھے ہیںجو اپنا بلڈپریشر بھی چیک کروانے کے لیے پروفیسر ڈاکٹرز کودن میں تین دفعہ اپنے گھر بلاتے ہیں۔اوران کا معمولی سا مرض بھی بگڑتا بگڑتا لا علاج بن جاتا ہے۔اگرپیسوں سے،بڑے بڑے ہسپتالوںسے اوربڑے بڑے ڈاکٹروں سے شفا ملتی ہوتی تونوازشریف صاحب نے لندن سے دل کا اپریشن کروایا تھاان کو انفیکشن نہ ہوتی اورپاکستان کے سرکاری ہسپتالوں سے جہاںسہولیات کافقدان ہے کوئی مریض جانبرہوکر نکلتا۔
علم اورصحت کی طرح اللہ کریم کی تمام نعمتیں ناٹ فارسیل ہیں۔ان کو اپنی طاقت اور دولت سے حاصل نہیں کیا جا سکتابلکہ ان کو نہایت احترام،عاجزی اور عقیدت کے ساتھ اللہ پاک سے مانگا جاتا ہے۔اور نعمت پا لینے کے بعد اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کیونکہ اگر اللہ چاہے تو وہ نعمت دینے کے بعد بھی اسے ہمارے لیے بیکار کر سکتا ہے۔اگر کسی کے پاس اربوںروپے ہوں اور وہ شوگر کا مریض ہو تو اس کے لیے میٹھا بند،بلڈ پریشر ہو تو نمک بند،دل یا گردہ کا مسئلہ ہو تو پانی بند۔اب جس شخص کے لیے نمک،مرچ،میٹھا،پانی،پھل سب بند ہوچکاہواس کے لیے رزق کے خزانے بھی کس کام کے۔اسی طرح جو تعلیم معاشرے کو تہذیب نہ سکھا سکے اس تعلیم کا کیا فائدہ۔