رحمتوں اور برکتوں کی انوار لئے انتہائی بابرکت مہینے رمضان المبارک

Ramadan

Ramadan

تحریر: علینہ ملک
رحمتوں اور برکتوں کی انوار لئے انتہائی بابرکت مہینے رمضان المبارک کیآمد آمد ہے. بلاشبہ اللہ تعالی جن لوگوں کو توفیق کے عمل سے نوازے گا وہ رحمت ومغفرت کے اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ خیروبرکت کے حصول میں مشغول ہونگے. اور بے شک یہ اک عظمت و برکت والا مہینہ ہے ،مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس مہینے کی رحمتیں اور برکتیں ہر شخص کے حصے میں ایک جیسی نہیں آتیں کچھ لوگ جھولی بھر بھر کر رحمتیں سمیٹ لیتے ہیں اور کچھ تھوڑی کم اورکچھ لوگ مکمل طور پر محروم رہ جاتے ہیں. بالکل اسی طرح جیسے جب بارش ہوتی ہے تو ندی ،نالے اور گھڑے اپنی اپنی وسعت اور گہرائی کے مطابق ہی اس کے پانی سے فیض یاب ہوتے ہیں. بارش تو زمین پر یکساں ہی برستی ہے مگر چھوٹے گڑھے کے حصے میں اتنا وافر مقدار میں پانی نہیں آتا جتنا کہ ایک لمبے چوڑے تالاب میں بھر جاتا ہے. بالکل اسی طرح رمضان المبارک کی برکتیں اور رحمتیں تمام مسلمانوں کے لئے یکساں طور پر اتریں گی…

اس مہینے کی عظمت وبرکت اتنی بیش بہا ہے کہ ہم اس ماہ کی بلندیوں کا تصور بھی نہیں کرسکتے.نہ تو ہماری زبان اور قلم اس کی ساری عظمتوں اور برکتوں کو بیان کرسکتے ہیں مگر تمام مسلمان اس بیش بہا خزانے سے کیسے مستفید ہوسکتے ہیں ؟تو یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ہمارے دل کی زمین نرم ہو اور آنکھیں نم ہوں ،ہم ایمان کا بیج اپنے اندر ڈالیں اور اپنے اعمال کی حفاظت کرسکیں تو بیج پودا بنے گا اور پودا تناور درخت اور درخت اعمال صالح کے پھلوں اور پھولوں سے لہلہااٹھے گا. اگر دل پتھر کی طرح سخت ہوں اور ہم اپنے اعمال سے غافل کسان کی طرح کوتاہیاں کرتے رہے تو رحمت وبرکت کا سارا پانی بہہ جائے گا اور ہمارے حصے میں کچھ بھی نہیں آ پائے گا. تو کہیں ایسا نہ ہو کہ رمضان کا پورا مہینہ گزر جائے اور رحمتوں اور برکتوں کی برسات برستی رہے اور ہم اتنے بد نصیب ہوں کہ ہماری جھولی خالی رہ جائے

چنانچہ پہلے سے ہی اپنی کمر کس لی جائے اور نیت و ارادہ کرلیا جائے تو بہتر ہے روزے کے بارے میں نبی پاک صہ کا فرمان ہے : کتنے روزہ دار ایسے ہیں جن کو اپنے روزوں سے بھوک پیاس کے سوا کچھ نہیں ملتا ،اور کتنے راتوں کو نماز پڑھنے والے ہیں جن کو اپنی نمازوں سے رت جگے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا (الدارمی ؛ابوہریرہ رضہ)… چنانچہ اس مبارک مہینے کی اتنی اہمیت ہے کہ ہمیں چاہیے کہ اس کے ایک بھی قیمتی لمحے کو ضایع نہ کریں. اور یہ بھی جان لیں کہ خیروبرکت کا یہ حصول محض سحری کھانے ،دن بھر کھانے پینے سے اجتناب کرنے اور شام کو افطار کرنے پھر تراویح کی8 یا 20 رکعت نماز ادا کرکے ختم نہیں ہوجاتا ،کیوں کہ سب اوپر کی سطح کے کام روزہ کی اصل روح اس سطح کے نیچے کی ہے ،اگر وہ حاصل نہ ہو تو جیسا کہ نبی پاکۖ نے فرمایا : جس شخص نے روزہ رکھ کر بھی جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو اللہ کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ وہ بھوکا اور پیاسا رہتا ہے :(بخاری)….

Allah

Allah

اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتے ہیں :”اے ایمان والوں والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں پر فرض کیے گئے تاکہ تم تقوی حاصل کرسکو. (البقرہ) …. بلاشبہ روزے کی اصل روح تقوی ہے ،اور تقوی ہی وہ اجالا ہے جو زندگی کی شاہراہ کو روشن کرتا ہے رضائے رب کی منزل کو پہنچاتا اور انسان کے اندر وہ قوت پیدا کرتا ہے جس کی بدولت وہ اللہ کی نافرمانیوں سے اپنے دامن کو بچاتے ہوئے اپنی زندگی کا سفر طے کرتاہے. اسلامی زندگی تقوی کے محور کے گرد گھومتی ہے اور تقوی کی اصل روح کو حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ روزہ پورے شعور ،پورے یقین اور پورے احساس کے ساتھ رکھا جائے. رمضان تربیت و تزکیہ نفس کا مہینہ ہے. تو اگر یہ مہینہ بھی ہمارے قلوب کی اصلاح نہ کرسکے اور گناہوں سے نہ بچاسکے ،تو پھر کیا چیز ہمیں بچاپائے گی…

جہاں تک تقوی کا تعلق ہے تو تقوی ایسی قوت ارادی کا نام ہے ہمارے اندر ضبط نفس پیدا کرتا ہے ،جس کے بل پر ہم اس چیز سے رک جاتے ہیں جس کو ہم غلط جانتے اور سمجھتے ہیں اور جسے ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے اللہ اور نبی پاک ۖ نے منع فرمایا ہے. تقوی کے لغوی معنی بچنے کے ہیں ،چنانچہ تقوی کے یہ معنی اگر ہم اپنے زہن میں رکھیں تو یہ بات سمجھنا کچھ دشوار نہیں کہ یہ تقوی پیدا کرنے کے لئے روزہ ،قیام لیل اور تلاوت قرآن سے زیادہ مؤثر نسخہ کوئی ہو ہی نہیں سکتا اور اس نسخہ کے استعمال کے لئے رمضان سے زیادہ موزوں اور کوئی مہینہ نہیں. ارشاد باری تعالی ہے…

“رمضان ہی وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا. جو سارے انسانوں کے لئے سرتا سر ہدایت ہے اور ایسی واضع تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں لہذا جو شخص اس مہینے کو پائے لازم ہے کہ وہ اس مہنے کے روزے رکھے “… بلاشبہ ماہ رمضان کی جو عظمت اور برکت ہے اس کا سارا راز صرف ایک چیز میں پوشیدہ ہے ،وہ یہ کہ اس مہینے میں قرآن مجید نازل کیا گیا ،یعنی نزول قرآن شروع ہوا ،اس لحاظ سے رمضان ،نزول قرآن کی سالگرہ کا مہینہ ہے ،جس کی وجہ سے اس مہینے کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے… تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اپنی مصروفیات اور مشاغل میں لگے رہیں اور خیروبرکت کا یہ مہینہ ہاتھ سے نکل جائے اور اگر ہم نے تھوڑی سی بھی غفلت اور سستی سے کام تو یہ مہینہ اپنی مدت پوری کرنے میں ذراسی بھی غفلت نہیںبرتے گا اور ہم خدانخواستہ خالی ہاتھ اور خالی دامن نہ رہ جائیں…

Quran

Quran

کہیںایسا نہ ہو کہ رمضان کا مہینہ ہم سے نیکی اور بھلائی کے راستے پر چلنے کوکہے اور ہم اپنے ہی کسی راستے پر چلتے رہیں ،نبی پاک ۖ کا فرمان ہے کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں “ابن آدم کا ہر عمل اس کے لئے ہے سوائے روزے کے کہ وہ خاص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا”… تو کیوں نہ ہم اس سال ماہ رمضان کو اس طرح گزاریں ،کہ اس کے ایک بھی لمحے کو اللہ کی یاد اور خوشنودی کے سوا کسی بھی اور کام میں نہ گزاریں اور اس مہینہ کی رحمتوں اور برکتوں کو جھولی بھر بھر کر سمیٹیں اور کسی بھی قسم کے خسارے کے بجائے ابدی منافع سمیٹ سکیں… اللہ تعالی توفیق عمل عطا فرمائے. آمین.

تحریر: علینہ ملک