ماہِ رمضان تمام مہینوں کا سردار جس میں اللہ تعالی کی رحمتوں کی مو سلا دھا ر برسات جا ری ہے ۔ اللہ تعالی نے روزے رمضان میں فرض کئے ہیں اور دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ لا زم ملزوم قرار دیا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ ان دو برکتوں اور سعادتوں کا اجماع بڑی حکمت اور اہمیت کا حامل ہے اور اِس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ رمضان ہی وہ مہینہ ہے جس میں قرآن مجید نازل ہوا اور گم کردہ راہِ انسانیت کو صبح صادق نصیب ہو ئی اِس لیے یہ عین مناسب تھا کہ جس طرح طلوع صادق روزہ کے آغاز کے ساتھ مربوط کر دی گئی ہے اِسی طرح طویل اور تاریک رات کے بعد جس مہینے میں پو ری انسانیت کی صبح ہو ئی اِس کو پو رے مہینے کے روزوں کے ساتھ مخصوص کر دیا جا ئے خاص طور پر اِس وقت جبکہ اپنی رحمت و برکت روحانیت اور نسبت ِ باطنی کے لحاظ سے بھی یہ مہینہ تمام مہنیوں سے افضل تھا اور بجا طور پر اِس کا مستحق تھا کہ اس کے دنوں کو روزوں سے اور راتوں کو عبادت سے آراستہ کیا جائے کوئی اور مہینہ اِس سے بہتر ہو ہی نہیں سکتا تھا جس میں قرآن مجید نا زل ہوا ملتِ مصطفوی ۖ کی بنیاد مستحکم ہو ئی مزید براں یہ کہ شبِ قدر کا امکان بھی زیادہ تر اِسی مہینہ میں ہے ( حجتہ اللہ البالغہ جلد )۔حضرت مجدد الف ثانی فرماتے ہیں اِس مہینہ کو قرآن مجید کے ساتھ بہت خاص منا سبت ہے اور اِسی مناسبت کی وجہ سے قرآن مجید اِسی مہینہ میں نا زل کیا گیا یہ مہینہ ہر قسم کی خیر و برکت کا جامع ہے۔
آدمی سال بھر میں مجموعی طور پر جتنی برکتیں حاصل کر تا ہے وہ اِس طرح ہیں جیسے اِس مہینہ کی نیکیوں کے سامنے سمندر اور قطرہ اِس مہینہ میں جمعیت با طنی کا حصول پو رے سال جمعیت با طنی کے لیے کا فی ہو تا ہے اور اِس انتشار اور پریشان خاطر بقیہ تمام دنوں بلکہ پو رے سال کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے قابل مبارک باد ہیں وہ لو گ جن سے یہ مہینہ راضی ہو گیا اور نا کام اور بد نصیب ہیں وہ جو اِس کو نا راض کر کے ہر قسم کے خیر و برکت سے محروم ہو گئے ۔ حضرت ابو ہریرہ سے حضور اکر م ۖ سے روایت کر تے ہیں آپ ۖ نے فرمایا جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جا تے ہیں جہنم کے دروازے بند کر دیے جا تے ہیں اور شیا طین کو پا یہ زنجیر کر دیا جا تا ہے رمضان شریف کو ہم نیکیوں کا موسم بہار بھی کہہ سکتے ہیں۔
اِس ماہ میں اللہ تعالی کی رحمتوں کی برسات ایک ہی وقت میں شہروں دیہات کرہ ارض کے چپے چپے پر امیر غریب کے محل اور جھونپڑے پر خوب برستی ہے ماہ رمضان کر ہ ارض کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک ایک جشن کا سا سماں ہو تا ہے جب مسلمانوں کے چہرہ پر روزوں کے چاند سورج روشن ہو تے ہیں ایک واضح ملکو تی حسن کا نظارہ کیا جاسکتا ہے گھروں اور مساجد میں خوب اہتمام کئے جا تے ہیں ایسا معلوم ہو تا ہے پو رے اسلامی معاشرہ پر نورانیت کا ایک وسیع شامیانہ سایہ فگن ہے روزہ ایک عالمگیر تہوار کی شکل اختیار کر گیا ہے ۔ یہاں تک کہ جو لوگ سارا سال عبادت اور نمازوں میں سستی کو تا ہی بر تتے ہیں وہ بھی اجتماعی طور پر جب ہر طرف روزے کے فیوض اور برکات کا مشاہدہ کر تے ہیں تو ایسے سست لو گ بھی نور کی اِس بر سات سے بچ نہیں پا تے اور لوگوں کے ہجوم میں وہ بھی شامل ہو جا تے ہیں ہم کہہ سکتے ہیں کہ روزہ ایک عالمی روزہ بن جا تا ہے عالمی طور ہر ایسی روحانی نو رانی فضا بن جا تی ہے کہ روزہ رکھنا اور نبھانا بہت آسان ہو جا تا ہے ۔ یہ ایک اٹل حقیقیت ہے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے جس کے سامنے کا ئنات کی تمام قوتیں سرنگوں ہیں لیکن بعض اوقات انسان اپنے نفس کے ہاتھوں مجبور ہو کر بہت پستی میں گر جا تا ہے تو اِن حالات میں انسان کا شرف و اعزاز اِس بات میں ہے کہ نفس سرکش کو قابو میں لا کر عبدیت کے اعلی مقام تک پہنچ سکے۔
معرفت الہی اور رضا ئے خداوندی کسی بھی انسان کی حقیقی منزل ہے اگر کو ئی بھی انسان اِس سے غافل ہے تو وہ اپنے فرض عبدیت سے غافل ہے اللہ تعالی کا فرمان ہے جس نے اپنے نفس کو پا کیزہ کر لیا اس نے فلاح پا ئی اور جس نے ایسا نہ کیا اس نے خود کو تبا ہ و برباد کر لیا لہذا یہ بات روشن ہو تی ہے کہ بہترین سعادت مند انسان وہ ہے جس نے عبا دت مجا ہدے اور روزے سے اپنے نفس کو قابو کر لیا اپنے نفس کو مغلوب اور پاکیزہ بنا نے کے لیے تین چیزوں کی اشد ضرورت ہو تی ہے اول نفس کو تمام شہوتوں اور لذتوں سے روک دیا جائے کیونکہ جب سرکش گھوڑے کو گھاس چارہ دانہ نہ ملے تو وہ کمزور اور تابع ہو جا تا ہے اِس طرح روزے کے ذریعے نفس کی سرکشی اور بغاوت بھی دور ہو جا تی ہے دوئم اِس پر عبادت کا بہت سارا بو جھ ڈال دیا جا ئے جس طرح سرکش گھوڑے کو گھاس دانہ کم دیا جا ئے اور اس پر بوجھ زیادہ لاد دیا جا ئے تو وہ سرکشی چھوڑ کر نرم ہو جا تا ہے اِسی طرح انسان کا نفس بھی نرمی اختیا ر کر جا تا ہے انسان کی سرکشی اور نفس کی بغاوت دوسرے انسانوں کے لیے تکلیف دہ ہو تی ہے روزہ ہی واحد عبادت ہے کہ انسان کی شرکشی اور بغاوت کو نر می میں ڈھالا جا سکتا ہے۔
اِس لیے کثرت سے عبادات اور استغفار بھی کر نا چاہئے روزے کی افادیت اِس لحاظ سے بھی بہت بڑھ جا تی ہے کہ پریشان بھوکا پیاسا دولت مند ہی کسی دوسرے کی بھوک اور پیاس کا احساس کر سکتاہے روزے کی حالت میں جب سرمایہ دار اور فیکٹریوں کے مالک بھوک پیاس محسوس کر تے ہیں تو انہیں وطن عزیز میں پھیلے ہو ئے کروڑوں غریبوں مسکینوں کی بھوک اور پیاس کا شدت سے احساس ہو تا ہے یہ امیر لو گ جب اہل خانہ اور بچوں کو روزے کی حالت میں بھوکے پیا سے دیکھتے ہیں تو انہیں شدت سے غریبوں کے بچے یا د آتے ہیں تو پھر اِن کے دلوں میں دوسروں کی پیاس اور بھوک کا احساس بیدار ہو تا ہے کہ ملک میں لاکھوں مفلوک الحال بھوکے پیا سوں کی مدد کی جا ئے لوگوں میں صدقہ خیرات بانٹے جا ئیں سرمایہ داروں کو اگر روزے کی حالت میں بھوک پیاس کی شدت کا احساس نہ ہو تو کبھی بھی اِنہیں دوسروں کی بھوک پیاس کا احساس نہ ہو دولت مند سرمایہ دار اونچے شاہی محلوں جیسے گھروں میں رہنے والوں کے سامنے جب کو ئی بھوکا پیا سا ضرور ت مند ہا تھ پھیلاتا ہے تو یہ ان کو نہیں دیں گے کیونکہ یہ بھوک پیاس سے واقف ہی نہیں لیکن روزے کی وجہ سے یہ امیر لوگ بھی بھوک پیاس سے واقف ہو تے ہیں اِس لیے جب کو ئی ضرورت مند اِن کے سامنے سوالی بن کر آتا ہے تو یہ ان کو دیتے ہیں کہ کیونکہ روزے کی بدولت یہ بھوک پیاس سے واقف ہو چکے ہو تے ہیں اللہ تعالی نے انسانوں کی تربیت کے لیے روزے فرض کئے ہیں تا کہ اِس تربیت کے اثرات سال کے باقی مہینوں پر بھی پڑیں اِس کے لیے اللہ تعالی نے مسلمانوں کو بہت زیادہ ترغیب دی ہے تا کہ انعام کے لیے زیادہ سے زیادہ لوگ روزے رکھیں پیارے آقا ۖ کا فرمان مبارک ہے جس نے رمضان کے روزے محض اللہ کے لیے تو اس کے سب اگلے پچھلے گناہ صغیرہ بخش دئیے جائیں گے۔
سرور کائنات ۖ کا ارشاد مبارک ہے کہ روزے دار کے منہ کی بدبو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیا دہ پیا ری ہے قیامت کے دن روزے کا بے حد ثواب ملے گا عبا دات کے مقاصد میں قرب الہی کے علاوہ ایک صالح معاشرے کا قیام بھی ہے رمضان شریف میں ہمیں یہ روح واضح طور پر نظر آتی ہے جب لوگ صدقہ خیرات کر تے نظر آتے ہیں مساجد نمازیوں اور عبادت گزاروں سے بھر جا تی ہیں روزہ صرف بھوک پیاس کا نا م نہیں ہے بلکہ با طنی طہارت کا بھی ذریعہ ہے ۔ محبوب خدا ۖ کا فرمان ہے کہ تم میں سے کو ئی روزہ سے ہو تو نہ بد کلامی اور فضول گو ئی کر ے اور نہ شور و شر کر ے اگر کو ئی گالی دے اور لڑے جھگڑے پر آمادہ ہو تو یہ کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں (بخاری شریف)آپ ۖ نے یہ بھی ارشاد فرمایا جس نے جھوٹ بو لنا اور اس پر عمل کر نا نہ چھوڑا تو اللہ تعالی کواس کی کو ئی حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑدے حدیث شریف میں آتا ہے کتنے روزے دار ہیں جن کو ان کے روزے کے بدلے سوائے پیاس کے کچھ ہا تھ نہیں لگتا اور کتنے ایسے عبادت گزار ہیں جن کو قیام میں شب بیداری کے سوا کچھ نہیں ملتا ( بخاری شریف )۔ حضرت ابو عبیدہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ۖ نے فرمایا کہ روزہ ڈھال ہے جب تک اِس کو پھاڑ نہ ڈالا جا ئے سوال کیا گیا کہ کس چیز سے پھا ڑ ڈالے ارشاد ہوا جھوٹ اور غیبت سے ۔ اگر ہم روزہ رکھتے ہیں سارادن بھوک پیاس بھی برداشت کر تے ہیں عبادت نمازیں قرآن مجید بھی پڑھتے ہیں لیکن جھوٹ غیبت لڑائی جھگڑا کر نے سے باز نہیں آتے تو ہما ری عبادت اور روزہ قبول نہیں ہو گا بلکہ رد کر دیا جا ئے گا روزے کا ثواب کے حق دار ہم تب ہیں ہو گے جب ہم تمام امور کا خیال رکھیں گے۔
Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti
تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ای میل: help@noorekhuda.org فون: 03004352956 ویب سائٹ: www.noorekhuda.org فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org