اندھی دیوی

Rich Man

Rich Man

تحریر : ظہیر رونجہ
ہوٹل کا منظر : پہلا شخص: یار قسم سے بہت پیسے تھے اس کا م میں سارے ہڑپ کرگیا ڈکا ر تک نہیں لی ؛
دوسرا شخص : یار ہمارا کونسا باپ کا مال جاتا ہے کھانے دو حکومت کا پیسہ ہے جب وہ خو د نہیں پو چھتی تو ہم کیوں اس جھنجنٹ میں پڑھے۔
پہلا شخص : دوسر ے شخص کی حمایت کرتے ہو ئے ہاں یا ر حکومت جانے حکومت کے کام ” چل چا ئے پی ٹھنڈی ہو رہی ہے” میں ان دونوں حضرا ت کی با تیں کا فی دیر سے سن رہا تھا دونوں کو اپنی جا نب مخاطب کرتے ہو ئے ایک سوال چھوڑ دیا ” کہ آپ دونوں میں سے کو ن کتنا ٹیکس ) Tax ) بھرتا ہے ” دونوں الٹا مجھے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے اور ہنستے ہو ئے میرے سوال کا جواب دیا کہ سر یہ امیروں کے کا م ہیں ٹیکس بھرنا ہم مہنے میں 10 سے 15 ہزار کما نے والے بھلا ٹیکس کہاں سے بھرے گے۔۔۔؟ میں نے ” نہیں “میں سر گھما تے ہو ئے ان کے جواب کو غلط قرار دیا اور ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ ایک اور سوال پو چھ ڈالا کہ آپ دونوں کے پاس تو مو بائل ہو گے ؟ ” دونوں نے ہا ں میں جواب دیا تو مو بائل میں آپ کا رڈز بھی لو ڈ کرواتے ہو گے مو بائل جب آپ دونوں نے نیا لیا ہو گا تو لازمی ٹیکس بھی دے دیا ہو گا اور موبائل میں کا رڈ لو ڈ کرتے وقت بھی آپ ٹیکس ادا کر دیتے ہیں۔

ایسے روزمرہ کے کاموں کو اگر ہم دیکھیں تو ایسی میں اورآپ مینے میں بہت سی چیزیں خریدتے ہیں اورٹیکس بھی بھر دیتے ہیں اور ہمیں ہی نہیں چلتا ٹیکس بھی دو طرح کے لاگو ہو تے ہیں جو حکومت ہمار ی جیبیوں سے نکال کر اپنی بینکیں بھر رہی ہے۔ایک ڈائریکٹ ٹیکس اور دوسرا انڈائریکٹ ٹیکس اگر ان ٹیکسوں کو دیکھا جائے تو آج میں آپ اور پو رے پا کستان کی عوام لگ بھگ 30 سے40 لاگھ کی مالک ہوگی ۔ حکومت ان پیسوں کو ملک میں مختلف ترقیاتی کا موں میں صر ف کر دیتی ہے جو مختلف ذرائع میں استعمال ہو تے رہتے ہیں آ پ دونوں جو ابھی اس معاملے پہ با ت کر رہے تھے کہ پیسہ حکو مت کا ہے ہمار ا نہیں یہ پیسہ ہم جیسی ہی عوام کے خون پسینے سے ہی نکالا جا تا ہے۔

اگر ہم اپنے پیسوں پر بھی آواز نہیں اٹھا ئے گے تو سب یو ں ہی ہمارے پیسے کھاتے رہے گا ہم اور چپ ہیں تھبی تو ایسے لو گ فائدہ اٹھا تے ہیں آ پ پا کستان کو ایک طرف رکھیں لسبیلہ کو ہی دیکھ لیں کتنے ترقیاتی کام شروع ہو ئے جو آج تک مکمل نہیں ہو ئے اور جومکمل ہو ئے وہ خستہ حالی اور خرد برد کا شکار ہو گے لسبیلہ سے اگر ہم صرف بیلہ کے مسائل کا جائز ہ لیں تو آ پ کو تما م کا م آدھے نظر آئے گے کو ئی مکلمل نظر نہیں آے گا اور جو مکمل ہو گا اس میں دو نمبری دور سے نظر آئے گی لیکن ہم بولے گے کھبی نہیں کیونکہ ہم ان چیز وں کا اپنا کھبی سمجھتے ہیں نہیں ————- اوتھل پولیٹکل کالج اور ریذڈیکل کالج جس کو بنے ہو ئے کہیں سال بیت گے لیکن کلاسز شرو ع نہیں ہو سکی کلاسز شروع ہونے کے دعوے صرف اخبارات تک محدودو ہوگے ہیں اور ہم صرف خوش آمدی میں لگے ہوئے ہیں۔

Corruption

Corruption

،بیلہ بس ٹرمینل کا حال دیکھ لیں جس کی شروعات کی گی لیکن اختتام نہ ہو سکا ،جسکا خواب محروم جام میر یوسف نے دیکھا تھا لیکن وہ خواب خواب ہی رہ گیا ۔بیلہ کی تما م یونین کونسل میں ہونے والوں کاموں کو اگر دیکھا جائے تو کام کم اور کرپشن زیادہ نظر آتی ہے جس کی جیگتی جاگتی تفصیل لوہانی سولرواٹر سپلائی اسکیم ہے بیلہ شہر میں ہونے والے فٹ پاتھ اور سورئج کے کی لائنوں کی ہر دو ماہ بعد کھودائی سے عوام اور کاروباری حضرات ذہنی تنائو کا شکار ہیں تو دوسری طرف منظورنظر لوگوں کی گھر کے سامنے پانچ فٹ گلی کا پختہ کرکرکے ریکارڈ ترقیاتی کام کرنے کا ڈھنکہ بجایا جاتا ہے مضمون لکھتے وقت ایک دوست سے بیلہ میں ترقیاتی کاموں کے مسائل کے بارے میں پوچھنا چاہا تو” تو کہنے لگے کہ سب سے بڑا مسئلہ یہ کہ ترقیاتی کام ہوئے ہی نہیں”۔

واقعی میں اگر ہم صرف بیلہ میں ترقی کی با ت کریں تو صرف اخبارات اور سوشل میڈیا پر ہی نظر آتی ہے اور شاہد مستقبل میں ایسا ہو کہ ٹینڈر کے ساتھ ترقیاتی کا م بھی مقامی اخبارکے صفحہ نمبر ٢ پر ہوں۔ اگر ہم مذید گہرائی میں چلے جائے تو شاہد منظور نظر کرپشن کے گہرے کھڈوں سے باہر نہ نکل نہ پاے کام اس طرح کردیے گے ہیںکہ ہم سب دیکھ کر بھی چپ رہتے ہیں۔

Problem

Problem

مجھے ایک صاحب کی ایک بات یاد ہے۔ شاہد آپ ساتھیوں کے نظروں سے گزری ہو جوانہوں نے ایک ساتھی کو فیس بک پر ان ہی مسائل کے بدلے میں جواب دیا تھا ”کہ ہم سست اور انتہاہی بے بس قوم ہیں قسمت ہی ایسی ہے” میں اس بات پہ متفق ہوں کیونکہ ہم خود اپنے لیئے کچھ نہیں کرتے ہم دوسروں کے آسرے پہ انحصار کیے بیٹھے ہیں کہ کوئی آئے گا او ر ہماری قسمت بدلے گا ہمیں اپنی قسمت خود بدلنی ہو گی ہم یہ دکھا دے گے اس زو ر قلم سے کہ نہ ہم سست ہیں نہ ہی بے بس اور اس قسمت کی اندھی دیوی کے ساتھ اس نظام کو ہی بدل دے گے۔

تحریر : ظہیر رونجہ