اندھا بانٹے ریوڑیاں، مڑ مڑ اپنوں کو دے

Parliament

Parliament

تحریر: روشن خٹک
کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے، نہیں نہیں ، شرم و حیاچہ معنی وارد ؟، ہم تو یہ جانتے ہیں کہ اس مملکتِ خداداد میں سیاست ایک تجارت ہے، اس تجارت میں جتنا بھی منافع کمایا جائے، وہ جائز ہے۔پھر یہ بے چارے پاکستان کے ارکانِ پارلیمنٹ، جن کے گھروں میں دو وقت کی روٹی بھی نہیں پکتی ،جو اپنے لئے دوائی تک نہیں خرید سکتے، جو اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں تعلیم نہیں دِلوا سکتے،جن کے پاس گاڑی خریدنے کی سکت نہیں اور پارلیمنٹ کے اجلاس میں بے چارے پیدل جاتے ہیں۔اورپھر انہوں نے 2018 کے الیکشن میں بھی حصہ لینا ہے، کروڑوں کا خرچہ ہو گا تو پھر اگر انہوں نے اپنے تنخواہوں میں 150 فی صد اضافہ کر دیا، تو یار لوگوں کو کیا تکلیف ہے؟ اپنے ہی عوام کا پیسہ ہے وہ جیسے چاہیں، استعمال کریں اور قرضہ بھی ہم اپنے دوست ممالک سے ہی لیتے ہیں، اس پر بھی ہمارا جائز حق ہے۔ ہماری عوام اللہ کے فضل سے بہت صابر و شاکر ہے ،ان کے حق پر کو ئی بھی ڈاکہ ڈال دے ، تو وہ اف تک نہیں کرتے۔تو پھر کیوں نہ ان کے اس صبر شکر سے فائدہ اٹھایا جائے۔

واضح رہے کہ وفاقی کابینہ نے نے قومی اسمبلی اور سینیٹ ارکان کی تنخواہ 60ہزار 996 روپئے سے بڑھا کر ایک لاکھ پچاس روپے کر دی گئی، چئیرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی کی تنخوا ایک لاکھ بیاسٹھ ہزار روپے سے بڑھا کر دو لاکھ پانچ ہزار روپے کر دی گی،وفاقی وزراء کی تنخواہ ایک لاکھ چھبیس ہزار سے بڑھا کر دولاکھ روپے کر دی گئے ہے جبکہ دیگر بے شمار قسم کے سہولتوں کے مد میں بھی کئی گنا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ایسی خبریں پڑھ کر، پتہ نہیں ، کتنے پاکستانیوں کا بلڈ پریشر میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہوگا، کیا اس ملک کے ارکانِ پارلیمنٹ وہ اندھے ہیں جو مڑ مڑ کر اپنوں ہی میں ریو ڑیاں بانٹتے ہیں ، ان کو عوام نظر نہیں آتے ؟،جن لوگوں نے انہیں منتخب کر کے ان بلند وبالا ایوانوں میں پہنچایا ہے، مسندِ اقتدار پر بٹھایا ہے ، انہیں ان کے انتخابی حلقوں میں عوام کی تکلیف دہ زندگی کا پتہ نہیں ہے ؟کیا انہوں نے اپنے انتخابی حلقوں میں عوام کی فلاح و بہبود کا بھی کو ئی قابلِ ذکر کام کیا ہے ؟ جبکہ ان کو اربوں روپے کا فنڈ عوام کے فلاح و بہبود کے لئے دیا جا چکا ہے،کام تو درکنار کیا ارکانِ اسمبلی اپنے انتخابی عوام کے پاس منتخب ہونے کے بعد دوبارہ جاکر ان کا حال بھی پو چھا ہے ؟اگر نہیں، تو پھر ان کو اپنے تنخواہوں میں ایک سو پچاس فی صد اضافہ پر خوش نہیں ہو نا چاہیئے بلکہ ان کے اپنے ساتھی ،اپنے دوست اورنامی گرامی وزیر دفاع خواجہ آصف نواز کا یہ مشہور جملہ ” کوئی شرم ہو تی ہے، کوئی حیا ہو تی ہے ” کو یاد رکھنا چا ہیے۔”

Increase in Salaries

Increase in Salaries

سرکاری ملازمین کے تنخواہوں میں اضافہ کبھی ساڑھے سات فی صد اور کبھی دس فی صد ، مگر اپنے لئے ایک سو پچاس فی صد اضافہ حکمرانوں کے لئے باعثِ شرم ہونا چاہیے۔ جس ملک کے غریب عوام دو وقت کی روٹی کے لئے مجبور ہوں،ان کے حکمرانوں کا اپنی تنخواہوں میں اتنا بڑا اضافہ غریب عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔جب سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کی بات ہو تی ہے تو یہی ارکانِ پالیمنٹ کے زبانوں کو تالے لگ جاتے ہیں اور خزانہ خالی ہے ک ا راگ الاپتے ہیں لیکن اپنے لئے ہر وقت خزانہ بھرا رہتا ہے اور اپنی تنخواہوں میں من مانا اضافہ کر لیتے ہیں اور جو فرق رہ جائے۔

وہ کرپشن کر کے پورا کر لیتے ہیں ۔عوام کا حال سبھی کو پتہ ہے، سبھی جانتے ہیں کہ کہ اٹھارہ کروڑ عوام میں چھ کروڑ سے زیادہ لوگ خطِ غربت سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ،چند ہی روز پہلے حکومت کی اپنی ہی وزارت برائے تحفظِ خوراک نے ارکانِ پارلیمنٹ کو آگاہ کیا ، کہ ملک کی اٹھاون فیصد آبادی خوراک کے عدم تحفظ کا شکار ہے ۔حکومت کے اپنے اعتراف کے مطابق ان کے دور میں غربت کی شرح میں اضافہ ہوا ہے اور آج جو تناسب ہے ، وہ ان کے اقتدار میں آنے سے پہلے کے مقابلے میں زیادہ ہے ،اس کے باوجود اپنی تنخواہوں میں بے تحاشہ اضافہ حیران کن ہے۔لگتا ہے۔

Pakistani Public

Pakistani Public

برسرِ اقتدار جماعت کو آنے والے الیکشن کی تیاری کا بھی فکر ہے اور نواز شریف کو پانامہ لیکس سے جان چھڑانے کا غم بھی ، ان حالات میں ارکانِ پارلیمنٹ کی وفاداریاں اور ہمدردیاں حاصل کرنا ایک بڑی ضرورت ہے ،شاید اسی مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ارکانِ پالیمنٹ کے تنخواہوں میں 150 اضافہ کرکے سرکاری ملازمین اور عوام کے زخموں پر نمک چھڑکا گیا ہے۔

عوام اپنے ان زخموں کو چاٹتی رہے گی یا آنے والے الیکشن میں انتقام لے گی ؟ یہ تو ہم نہیں جانتے مگر حکومت سے اتنی گزارش ضرور کریں گے کہ خدارا! مظلوم عوام پر رحم کھائیے، ان کو لالی پوپ دینے کے بجائے ان کے مسائل حل کرنے کی مخلصانہ کو شش کیجئے۔ لاکھوں پاکستانی نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں لئے ہوئے روزگار کی تلاش میںمارے مارے پھر رہے ہیں، ان کو روزگار دیجئے، سرکاری ملازمین کم تنخواہ کی وجہ سے نفسیاتی مریض بن رہے ہیں، ان کی تنخواہ میں اتنا اضافہ تو کیجئے کہ وہ اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی ، تعلیم اور بیماری کی صورت میں علاج کر سکیں۔۔

Roshan khattak

Roshan khattak

تحریر: روشن خٹک
03339839392