تحریر: لقمان اسد کبھی کسی کی زمین پر قبضہ کرتا ہے تو کبھی کسی کے معصوم پھول جیسے جگر گوشوں کو اپنے گماشتوں کے ہاتھوں اغواء کراکے اُن کی رہائی کے عوض والدین سے لاکھوں،کروڑوں روپے بطور تاوان وصول کرتا ہے اسی طرح بڑے بڑے تاجروں کو بھتہ لینے کی غرض سے انہیں دھمکاتا ہے نتیجتاً وہ تاجر جو ملکی نظام کی حالت ذار اور حکمرانوں کی نااہلی اور منافقت سے مکمل آگاہ ہوتے ہیں وہ مستقل طور پر اس”ولن”کو منہ مانگی رقم بطور غنڈہ ٹیکس یا بھتہ دینے پر مجبوراً راضی ہوجاتے ہیں جبکہ جو تاجر نظام حکومت اور حکمرانوں سے انصاف اور تحفظ آس امید لگائے بیٹھے ہوتے ہیں وہ اس کے سامنے اکڑجاتے ہیں تو ان اکڑ جانے والے تاجروں کی قسمت کا فیصلہ وہ اس انداز سے کردیتا ہے کہ پھر وہ عمر بھر کسی کھاتے کے نہیں رہتے یاقتل کرکے ان کی زندگی کی کہانی ہی وہ ”ولن”اور اس کے بدمعاش ہمیشہ کیلئے ختم کر دیتے ہیں ایسی فلموں کی کہانی میں یہ نہیں ہوتا کہ کسی حکومت کا کوئی وجود یا کردار اِن کہانیوں میں نہ دکھایا جاتا ہوں یا کوئی قانون یا انتظامی ادارے اس میں کام کرتے نظر نہ آتے ہوں بلکہ حکومت کا وجود بھی ہوتا ہے بڑے بڑے نامی گرامی سیاسی رہنما،نامور قانون دان اور قانون بھی موجود ہوتاہے ۔
وزارتیں،عدالتیں،تھانے کچہری ،پولیس سب کچھ سارا نظام چل رہا ہوتا ہے مگر بدقسمتی سے اس ”ولن”سے اندر خانہ سبھی ملے ہوئے ہوتے ہیں پولیس کیلئے وہ مطلوبہ ترین شخص ہوتا ہے عدالت اسے کئی بار اشتہاری قرار دے چکی ہوتی ہے ملک کے مختلف تھانوں میں اس کے خلاف قتل کی ایف آئی آر سمیت اغواء برائے تاوان، بھتہ خوری اور دہشت گردی کے مقدمات درج ہوتے ہیں جبکہ منشیات کے دھندہ میں ملوث ہونے کے جرائم سے متعلق بھی وہ ”ولن”مختلف تھانوں کیلئے انتہائی مطلوب ہوتا ہے لیکن اس سب کے باوجود وہ بلاخوف وبے خطر جب چاہتا ہے ملک کے ایک شہر سے دوسرے شہر آتا جاتا ہے ملک کی بڑی بڑی تقریبات میں دیکھا جاتا ہے ملک کے عام انتخابات میں اہم کردار ادا کرتا ہے سرعام دندناتا پھرتا ہے نہ تو کوئی پولیس آفیسر اُس پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت کرتا ہے نہ ہی۔
Law
قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سربراہان اس قدر مطلوب ترین شخص کی عدم گرفتاری پر اپنے جونیئر آفیسران سے کسی طرح کی باز پرس یاجواب طلبی کرتے ہیں اگر حکومت میں سے کوئی تگڑا وزیر یا مشیر ملک اور قوم کے دُکھ میں ڈوب کر اس ”ولن ”کے خلاف آواز بلند کرتاہے اور اپنی حکومت کی توجہ اُس کی بدمعاشیوں اور اُس کے مظالم کی طرف دلانے کی کوشش کرتا ہے تو اگلے چوبیس گھنٹوں میں اُس کی وزارت کا بوریا بستر گول کرکے گھر بھیج دیاجاتا ہے۔وطن عزیز کے عوام بھی ایسے ہی ایک بدترین اور اندھے نظام کے تسلط کا شکار ہیں ۔ہرطرف ایک استحصالی طبقہ جو ملکی دولت کو بے رحمی کے ساتھ اپنے دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مصروف ہے۔
جبکہ عام آدمی اور عام آدمی کے بنیادی حقوق اُن کینظر میں قطعاً کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔بغور جب ہم اپنی اجتماعی زندگیوں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمارے سامنے بھی یہی سچائی ایک حقیقت کی صورت میں آکھڑی ہوتی ہے اور ہمیں بھی ایسے محسوس ہوتا ہے کہ فلمیں سٹوریز کے ”ولنز”سے ہمارا بھی سابقہ گویا آن پڑا ہے ایسے سیاسی رہنما اور اس قبیل کے حکمران کہ جو نہ ہمیں پرامن زندگی کی نوید سناتے ہیں نہ ہی ہمارے لیے انصاف کو سوفیصد یقینی بناتے ہیں جبکہ غریب عوام اور پڑھے لکھے بے روزگار جوانوں کیلئے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے بجائے ایسے اقدامات یہ عمل میں لاتے ہیں کہ جن کے سبب بے روزگاری کاآسیب مزید پھلنے پھولنے لگتا ہے۔ (جاری ہے )