رگوں میں دوڑتے خون سے انسانی زندگی کی ڈور بندھی ہوئی ہے یہ احساس شدت سے اس وقت ہوتا ہے جب کسی بیماری یا حادثے کی صورت میں ہمارے کسی پیارے کو اچانک خون کی ضرورت پڑ جائے۔ ایسے میں رضاکارانہ خون عطیہ کرنے والے افراد کا کردار کسی فرشتے سے کم نہیں جو کسی نفع، نقصان اور رشتے کے بغیر اپنا خون دے کر ایک انسانی زندگی بچاتے ہیں۔ پاکستان میں ہر سال 14 جون کو ورلڈ بلڈ ڈونر ڈے منایا جاتاہے جس کا مقصد عوام میں خون عطیہ کرنے کے لئے شعور بیدار کیا جائے تا کہ ضرورت مند افراد کو یہ میسر ہو سکے۔
صحت مند افراد کو چاہئے کہ سال میں تین بار خون کا عطیہ کریں یا پھر اپنی سالگرہ کے موقع پر ایک خون کی بوتل عطیہ کریں جس سے ان کی صحت مزید بہتر ہو گی۔ملک بھر میں خون کی وجہ سے ایک سے 5فیصد افراد کو خون کا ری ایکشن ہوتا ہے لیکن اگر خون لگانے سے قبل تمام تر اقدمات اور احتیاط کی جائے تو اس شرح میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ عوام کوچاہئے کہ وہ مختلف بیماریوں سے بچنے کے لئے رجسڑد بلڈ بینکوں سے ہی خون حاصل کریں تاکہ مختلف بیماریوں سے بچ سکیں،خون کو چار گھنٹے کے دوران ختم کر لینا چاہئے دیگر صورت میں اس کی افادیت ختم ہو سکتی ہے۔
خون صحت مندافراد اور مختلف بیماریوں سے محفوظ خریدا جائے تاکہ مریض کو مزید مختلف پیچیدگیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے،خون مریض کو لگانے سے ایک گھنٹے تک باہر رکھ سکتے ہیں زیادہ دیر رکھنے سے اس کی افادیت خراب ہوجاتی ہے اور مریض کو لگانے سے مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ خون کا بلڈ بیگ چار گھنٹوں کے دوران ختم ہو جانا چاہئے دیگر صورت میں بچنے والے خون کو ضائع کر دیا جائے کیونکہ اس کی افادیت متاثر ہو جاتی ہے۔ مریض کے خون کا نمونیہ لینے کے بعد اس میں مختلف بیماریوں کے بارے میں بھی معلومات حاصل کر لینی چاہئے۔
Blood Bank
عوام کو چاہئے کہ وہ صرف رجسڑڈ بلڈ بینکوں سے ہی خون خریدیں۔ خون دینے اور خون لگوانے والے افراد کے مختلف بیماریوں سے بچائو کے ٹیسٹ کئے جائیں جس کے بعد خون لگایا جائے تا کہ مختلف پیچیدگیوں سے بچ سکیں۔ مختلف اسپتالوں میں خدمات سرانجام دینے والے طبی عملے کی بھی ٹریننگ و تربیت کرنی چاہئے کہ وہ جب مریض کے تیمار دار کو کسی بھی بلڈ بینک سے خون کی خریداری کے لئے بھیجیں تو اس کی تمام تفصیلات ایک فارم پر تحریر کر کے بھیجیں۔ ایک خاص مدت کے بعد خون دینا ڈونر کی صحت کیلیے بھی اہم ہے۔ ایک وقت تھا کہ جب خون دینے کے حوالے سے شعور بہت کم تھا، لیکن اب لوگ آتے ہیں اور اپنے خون کا عطیہ دیتے ہیں۔ہر صحت مند انسان کو سال میں تین بار خون دینا چاہئے اور اس کا فائدہ یہ ہے کہ اس کے اپنے خون کا سکریننگ بھی ہو جاتا ہے اور اس کے ایچ آئی وی، ایچ بی ایس، ہیپاٹائیٹ سی، ملیریا اور سفلس سارے ٹیسٹ ہو جاتے ہیں۔ کسی بیمار کو خون دینا ایک اخلاقی فریضہ ہے اس سلسلے میں شعور اور آگاہی سے کئی مریضوں کی جان بچائی جا سکتی ہے۔
فلاح انسانیت فائونڈیشن نے ملک بھر کے بڑے شہروں میں بلڈ بینک بنائے ہیں جہاں سے ضرورت مند مریضوں کو بروقت خون مہیا کیا جاتا ہے، فلاح انسانیت فائونڈیشن کے چیئرمین حافظ عبدالرئوف کے مطابق بلڈ ڈونیشن اور بلڈ گروپنگ کے لئے وقتا فوقتا کیمپ بھی لگائے جاتے ہیں۔ فلاح انسانیت فائونڈیشن کا مرکزی دفتر لاہور میں ہے جہاں سے دیگر شہروں میں قائم بلڈ بینکوں میں بھی رابطہ رکھا جاتا ہے، لاہور کے مختلف ہسپتالوں کے پاس بھی بلڈ بینک بنائے گئے ہیں تا کہ کسی ابھی ایمرجسنی کی صورت میں فوری خون مہیا کیا جا سکے، بلڈ بینک میں بھی خون دستیاب ہوتا ہے اور اگر ضرورت پڑے تو ڈونر سے بھی رابطہ کیا جاتا ہے، فلاح انسانیت فائونڈیشن مختلف شہروں میں ڈونرز کے ساتھ رابطے میں رہتی ہے۔ مختلف شہروں میں فلاح انسانیت فائونڈیشن کی 870 بلڈ ڈونر سوسائیٹیز کام کر رہی ہیں۔ پاکستان میں سالانہ 26 لاکھ خون کی بوتلوں کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ سالانہ 16 لاکھ بوتلیں جمع ہوپاتی ہیں۔
پاکستان میں عطیہ خون کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے جب بھی کوئی حادثہ یاکسی مرض میں خون کی ضرورت پیش آتی ہے تو مریض کے لواحقین کو انتہائی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر پاکستان میں دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرح عطیہ خون کے رجحان کو فروغ دیا جائے تویہ صورتحال نہ ہو۔ مارے معاشرے میں خون عطیہ کرنے کے حوالے سے چند غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں’ مثلاً خون دینے کے نتیجے میں خون کی کمی ہونا’کمزوری ہونا’ بے جا اور بے بنیاد وہم اور خوف جبکہ عطیہ خون کے حوالے سے حقیقت یہ ہے کہ ہرانسان کے جسم میں تین بوتل اضافی خون کا ذخیرہ ہوتا ہے۔ ہرتندرست فرد’ہرتیسرے مہینے خون کی ایک بوتل عطیے میں دے سکتا ہے۔ جس سے اس کی صحت پرمزید بہتراثرات مرتب ہوتے ہیں اور اس کا کولیسٹرول بھی قابو میں رہتاہے اورہارٹ اٹیک کا امکان کم سے کم ہو جاتا ہے۔ تین ماہ کے اندرہی نیا خون ذخیرے میں آجاتاہے’ نیاخون بننے کے ساتھ ساتھ جسم میں قوت مدافعت کے عمل کو بھی تحریک ملتی ہے۔ جو صحت مند افراد ہر تیسرے ماہ خون کا عطیہ دیتے ہیں وہ نہ تو موٹاپے میں مبتلاہوتے ہیں۔ نہ ہی ذہنی وجسمانی امراض کا شکار ہو سکتے ہیں اورنہ ہی انہیں کوئی اوربیماری لاحق ہوتی ہے۔ ڈونر کی عمرکم ازکم اٹھارہ سال ہو’ ڈونرکاوزن کم ازکم kg 50 ہو اسے گزشتہ دوسال کے عرصے میں یرقان نہ ہوا ہو۔ پیدائشی یرقان اس سے مستثنیٰ ہے’ گزشتہ ایک سال میں ملیریانہ ہوا ہو’ دل کی بیماری’بلڈپریشر’شوگروغیرہ نہ ہو’ گزشتہ ایک سال میں خون نہ لگا ہو۔ اگر میجر سرجری ہوئی ہو تو اسے کم ازکم ایک سال گزر چکا ہو۔ اگراس سے پہلے خون دیاہوتو دوبارہ خون دیتے وقت کم ازکم 3 ماہ کا وقفہ رکھا جائے۔ خون کی کمی نہ ہو’ ہیموگلوبن کی مقدار12.5g/dl ہو’ خون دیتے وقت بخار یاکسی قسم کا کوئی انفیکشن نہ ہو’ بغیر کچھ کھائے خون نہ دیا جائے ‘ڈونر کوئی دوالے رہا ہو تو اس کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کرے’ نشہ آورا دویات استعمال نہ کرتا ہو’ ان تمام باتوں کی تسلی کر لینے کے بعد ڈونرسے خون لے لیا جاتا ہے جس کی مقدار تقریباً 450 ملی لیٹر ہوتی ہے۔
ایک صحت مندشخص میں تقریباً 5 لیٹرخون موجود ہوتا ہے’ جس بیگ میں خون لیاجاتا ہے اس میں خون کی مقدار 450ml اورAnticoagulan کی مقدار63ml ہوتی ہے۔ Anticoagulan وہ کیمیکل ہے جو خون کو جمنے سے بچاتا ہے اور اس کے خلیات کو زندہ رہنے کے لیے بنیادی غذا فراہم کرتا ہے۔ ڈونرسے خون حاصل کرنے کے بعد مختلف بیماریوں کے لیے اس خون کی اسکریننگ کی جاتی ہے مثلاً ایچ آئی وی (ایڈز)’ ہیپاٹائٹس بی’ہیپاٹائٹس سی’Syphilis۔ خون کے اجزا اور ان کا استعمال:۔ مکمل خون (Whole Blood) خون کے بہت زیادہ بہہ جانے کی صورت میں مکمل خون لگایا جاتا ہے۔ مثلاً کسی ایکسیڈنٹ کے بعد’ سرخ خلیات (Packed Red Cells) اگر مریض کا ہیموگلوبن خطرناک حدتک کم ہو گیا ہو۔
Cancer Patient
پلیٹیلیٹس (Platelets) جب خون میں پلیٹیلیٹس کی تعداد معمول سے بہت کم ہو جائے مثال کے طور پر ڈینگی یا ڈینگی ہیمرجک فیور اور کینسر میں۔ پلازما (Fresh Frozen Plasma) جگر کی متعلقہ بیماریوں کے لیے دیا جاتا ہے۔ فیکٹرز (Factor Concentrates) یہ خون کو جمانے والے مختلف فیکٹرز کی کمی کو پوراکرنے کے لیے دیے جاتے ہیں مثلاً (1) ہیموفیلیا اے میں فیکٹرviii کی شدید کمی ہوتی ہے جس کو پورا کرنے کے لیے Factor viii Concentrates دیے جائیں گے۔ (2) ہیموفیلیابی میں فیکٹرix کی کمی ہوتی ہے جسے پورا کرنے کے لیے Factor ix Concentrates دیے جاتے ہیں۔ عمل ظاہر کردے’ اس امکان کو ختم کرنے کے لیے بلڈبینک میں ڈونرکے خون کو مریض کے خون کے ساتھ ٹیسٹ کیا جاتا ہے اور کسی قسم کا ردعمل ظاہرنہ ہونے کی صورت میں یہ خون مریض کو لگایا جاتا ہے۔