ٹھنڈی دھوپ، کُہر کی چادر اوڑھے تمازت سے محروم سورج، زرد پتّوں کی ”بُکل ” مارے بیمار درخت، لہو جماتی سردی کی اُداس شامیں اوریخ بستہ طویل راتیں۔ یہ ہے موسمِ سرما جس نے زندگی کے سارے رنگ چھین لیے۔ لاہور کا درجہ حرارت صفر سے بھی نیچے جا پہنچا اور اُنگلیوں کی یخ بستہ پوریں قلم سنبھالنے سے بھی عاری ہو گئیں۔ بھاپ اُڑاتا سُوپ اور طرح طرح کے پکوان تو خیر اشرافیہ کے چونچلے ہیں اور بقول اعظم سواتی ہم میاں نواز شریف تو ہیں نہیں کہ ایک ماہ میں ڈیڑھ ارب روپے کے ”سری پائے” ڈکار سکیں لیکن لہو کی حدّت برقرار رکھنے کے لیے ہم گرما گرم پکوڑوں پر انحصار کر تے ہیں یا پھر شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری کے چٹخارے دار خطبات پر۔ یوں تو ہم بھی شیخ الاسلام کے ”مریدین” میں سے ہیں اور عقیدتوں کا تقاضہ تو یہی تھا کہ ہم بھی گھر سے نکل کر مال روڈ پہنچتے اور” عقیدتوں بھری دھمال” ڈالتے لیکن بُرا ہو اِس موسم کا جس نے ہمیں لحاف سے باہر نکلنے ہی نہ دیا اور ہم ثوابِ دارین سے محروم ہو گئے۔ مرشد نے لاہور میں میدان سجایا اور ہم تو خوش تھے کہ بھر پور تماشہ ہو گا لیکن جَلا وطنی کا دُکھ سہنے کے بعد میاں برادران بھی شاید ٹھنڈے ٹھار ہو گئے ہیں اِس لیے نواز لیگ طرح دے گئی حالانکہ اُس کے پاس رانا ثناء اللہ جیسے قدیمی جیالے بھی موجود ہیں اور پرویز رشید جیسے متوالے بھی۔
ہمیں تحریکِ انصاف اور ایم۔کیو۔ایم بھی محض اِس لیے پسند ہیں کہ وہ بھی ”مُرشد” کی طرح قومی لہو گرم رکھنے کی کوئی نہ کوئی سبیل کرتی رہتی ہیں۔ ایم۔کیو۔ایم تو ہم سے بہت دور ہے اِس لیے اُس سے صرف کراچی والے ہی مستفید ہوتے ہیں البتہ الیکٹرانک میڈیا کی بدولت پردیسی قا ئدِ تحریک محترم الطاف حسین کی ”بڑھکیں ” ہم تک بھی پہنچتی رہتی ہیں اور ہم بھی تصورات کی دنیا میں اپنے”گنڈا سے” سے جاگیرداروں کے سروں کی فصل کاٹتے رہتے ہیں۔اگر ہم تصوراتی کھوپڑیوں کے مینار سجانے پہ آجائیں تو چنگیز خاں بھی ہمارا پانی بھرتا نظر آئے۔ محترم عمران خاں کی سونامی نے ابھی تک کوئی معرکہ توسَر نہیں کیا پھر بھی وہ گا ہے بگاہے ہمارا لہو گرم رکھتی ہے ۔ویسے تو خونِ گرم کی لہروں کوتازہ دَم رکھنے کے لیے ”کپتان ” کے بیانات ہی کافی ہوتے ہیں لیکن سونامی کا ”سواد” ہی کچھ اور ہے۔ آجکل بلدیاتی انتخابات کا گلی گلی میں شور ہے اِس لیے اُمیدِ واثق ہے کہ سونامی اپنے چاہنے والوں کوجلدی جلدی دیدار کرواتی رہے گی ۔یہ بھی بلدیاتی انتخابات کی دین ہے کہ بلاول زرداری بھی خم ٹھونک کر میدان میں اُتر آئے اور ”ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات” کے مصداق اُنہوں نے بی بی شہید کی برسی پر لگ بھگ ایک گھنٹہ تقریر کرکے ”سیاسی بوڑھوں” کو یہ سندیسہ بھیج دیا کہ ”ہم سا ہو تو سامنے آئے”۔ہم حیران تھے اورتھوڑے پریشان بھی کہ بلاول زرداری نے اتنی لمبی چوڑی تقریر ” مُنہ زبانی” کیسے کر لی۔ ہماری اِس پریشانی کوبھانپتے ہوئے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے سردار نے سارا راز فاش کر دیا ۔اُس کے مطابق عوام کے سامنے محترمہ بینظیر شہید کی تصویر تھی اور تصویر کے پیچھے لگی ہوئی سکرین پر لکھی ہوئی تقریر جسے بلاول زرداری الیکٹرانک میڈیا کے ”نیوز کاسٹرز” کی طرح پڑھ رہے تھے ۔
Bilawal Bhutto
بہرحال جو کچھ بھی تھا بلاول نے سماں باندھا اور خوب باندھا۔ نوجوان بلاول نے اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو اور ماں بینظیر بھٹو کے انداز کی کامیاب نقل کرکے جیالوں کوماضی کی سیر کروا دی۔ بلاول تحریکِ انصاف اور نواز لیگ پر خوب گرجے برسے جبکہ جنابِ آصف زردزری نے ”فرینڈلی اپوزیشن ” کا تاثر دے کر ماضی کو یوں دُہرایا کہ پیپلز پارٹی کے دَورِ حکومت میں چھوٹے میاں صاحب ”زَر بابا ، چالیس چوروں” کو گلیوں میں گھسیٹنے کے نعرے بلند کیا کرتے اور بڑے میاں صاحب فرینڈلی اپوزیشن کا بھرپور تاثر دیا کرتے تھے۔ اب چھوٹے زرداری نے گرجنے برسنے کا منصب سنبھال لیا ہے اور بڑے زرداری نے فرینڈلی اپوزیشن کا۔
بلاول زرداری نے اپنے پُر جوش خطاب میں عمران خاں صاحب کو ”بُز دِل خاں ” تک کہہ دیا جو کسی بھی لحاظ سے مناسب نہیں اور اِس کی بھرپور مذمت بھی کی جانی چاہیے ۔ویسے بھی کپتان صاحب کے ا قوال وا فعال سے کبھی بُزدلی کا اظہار نہیں ہوا ۔اُن کے اندازِ سیاست پر تو بھر پور تنقید کی جا سکتی ہے لیکن بُزدلی کا طعنہ نہیں دیا جا سکتا۔ بلاول نے یہ بھی کہا ”چار لوٹوں میں پانی بھر دینے سے سونامی نہیں آ جاتا۔ اگر بلاول زرداری کی چار لوٹوں سے مُراد شاہ محمود قُریشی ، مخدوم جاوید ہاشمی ،جہانگیر ترین اور پرویز خٹک ہیں تو اُسے یاد رکھنا چاہیے کہ وہ عمر میں اِن اصحاب سے بہت چھوٹا ہے اور اُسے ایسی باتیں زیب نہیں دیتیں۔ ویسے بھی پاکستان میں ”لوٹا کریسی” اب ایک فَن کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے اور ایسے فنکار پیپلز پارٹی میں بھی بہت ہیں۔
سیاسی جماعتوں کی اِس گرماگرمی سے سب سے زیادہ الیکٹرانک میڈیا مستفید ہوتا ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ صرف الیکٹرانک میڈیا ہی مستفید ہوتا ہے ۔اگر سیاسی جماعتیں ہلچل پیدا نہ کریں تو الیکٹرانک میڈیا ”بریکنگ نیوز” کو ترسنے لگے اور اینکرز اور اینکرنیاں ” ویہلے” بیٹھ کر مکھیاں مارتے رہیں۔یہ سیاسی جماعتوں کی ہی دین ہے جو الیکٹرانک میڈیا کے مالکان دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹ کر اپنی تجوریاں بھررہے ہیں اِس لیے الیکٹرانک میڈیا کو سیاسی جماعتوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنی بھرپور توانائیوں کے ساتھ”تیلیاں لگانے” اور ”جلتی پر تیل چھڑکنے” کا کام سَر انجام دیتے رہنا چاہیے کیونکہ اسی میں اُس کی روزی روٹی مضمر ہے ۔الیکٹرانک میڈیا کو زندہ رکھنے اور قومی لہو گرم رکھنے کی جتنی تَگ و دَو میرے مُرشد شیخ الاسلام حضرت مولانا ڈاکٹر طاہر القادری کر رہے ہیں اُتنی کوئی اور کر ہی نہیں سکتا ۔پچھلے سال وہ ریاست بچانے کے لیے آئے تھے اور یہ اُنہی کی ”کرامت” ہے کہ ریاست تا حال قائم و دائم ہے ۔ہمیں تو یہ سوچ کر بھی ہَول اُٹھنے لگتے ہیں کہ اگر مُرشد تشریف نہ لاتے تو پتہ نہیں یہ ریاست (خُدانخواستہ) کتنے ٹکڑوں میں تقسیم ہو جاتی ۔اب کی بار اُنہوں نے ”انقلاب یا شہادت” کا نعرۂ مستانہ بلند کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر قوم باہر نکل آئے تو 24 گھنٹوں میں نیلسن منڈیلا جیسا انقلاب آ سکتا ہے جسے ”طاہر القادری کا انقلاب” کہا جائے گا۔ اُنہوں نے یہ بھی فرمایا ہے کہ انقلاب کے بعد وہ یا اُن کا خاندان قومی خزانے سے ایک پائی بھی وصول نہیں کریں گے۔ کچھ بَد باطن کہتے ہیں کہ جب پورا خزانہ ہی مولانا کے تصرف میں ہو گا تو اُنہیں”پائی” وصول کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ ہم وزیرِ اطلاعات جناب پرویز رشید کی بہت عزت کرتے ہیں لیکن اُنہوں نے مُرشد کو ”مسلمہ جھوٹا” کہہ کر ہماری نظروں میں اپنا قَد بہت چھوٹا کر لیا ہے۔
مُرشد اگر کہتے ہیں کہ وہ ایک ہزار کتابوں کے مصنف ہیں تو اِس میں جھوٹ کیا ہے ؟۔وہ اگر ملک کو 35 ٹکڑوں (صوبوں) میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں تو اِس میں بُرائی کیا ہے ؟۔شایدمحترم پرویز رشید نہیں چاہتے کہ ہم بھی بڑے فخر سے کہا کریں کہ ہم اُس دیس کے باسی ہیں جس میں 35وزرائے اعلیٰ اُتنے ہی گورنر ، چیف سیکرٹریز ، آئی جیز، سول سیکرٹریٹ اور ہائی کورٹس ہیں ۔ہم تو مُرشد کو بصد ادب یہ بھی درخواست کرنے والے ہیں کہ وہ مرکزی حکومت کے لیے بھی کوئی ایسا ہی” نسخۂ کیمیا ”تجویز کریں تاکہ ہر سیاسی پارٹی کا اپنا اپنا وزیرِ اعظم اور وزیرِ اعلیٰ ہو ۔ایسا کرنے سے ”کُرسی” کے لیے جاری جنگ کا خاتمہ بھی ہو جائے گا اور بلاول زرداری ”پنجابی اسٹیبلشمنٹ” کا طعنہ بھی نہیں دے سکیں گے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کو تو خود پتہ نہیں ہو گا کہ وہ کہاں کی ہے۔