آج 24 اکتوبر ہے آج کے دن کو آزاد کشمیر حکومت نے سرکاری طور پریوم تاسیس کا نام دے رکھا ہے۔ آزاد حکومت ریاست جموں کشمیر کے نام سے قائم تقریباً 40 لاکھ آبادی والے، 10 اضلاع پر مشتمل آزاد کشمیر میں اس یوم تاسیس کواس لیے حکومتی سطح پر منایا جانا تھا کہ کشمیر کا اکثریتی علاقہ اب بھی بھارتی تسلط میں ہے جہاں بھارتی افواج و فورسز نے کشمیریوں کی آزادی سلب کر رکھی ہے۔
ریاست جموں کشمیر کی اکائیاں اس وقت عمومی طور پر چار بڑے ٹکروں میں بٹ چکی ہیں۔ جموں، وادی، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان جموں کی اکثریت غیر مسلم ہے، وادی، آزاد کشمیر و گلگت بلتستان میں مسلمان اکثریت میں ہیں۔ چاروں اکائیاں اس وقت تقسیم ہیں، آزاد کشمیر میں الگ حکومت جس کا صدر، وزیر اعظم، وزراء اور اعلیٰ عدالت اپنی ہے۔ گلگت بلتستان میں وفاق کی زیر نگرانی صوبائی طرز کی حکومت قائم ہے جس کے وزیر اعلیٰ، گورنر اور وزراء الگ ہیں جبکہ جموں اور وادی میں الگ حکومت قائم ہے جو ہندو ستان نواز سمجھے جاتے ہیں۔ آج پوری دنیا میں موجود کشمیری نہیں بلکہ چند مخصوص کشمیری اور سیاسی جماعتیں یوم تاسیس کا دن منا رہی ہیں جب کہ اس آزاد حکومت کے قیام اور ریاست کشمیر کی مکمل آزادی کیلئے پوری ریاست جموں کشمیر کی عوام نے جانی و مالی قربانیاں دے رکھی ہیں۔
آج جموں، وادی، گلگت بلتستان کے عوام اور آزاد کشمیر کے اندر موجود لاکھوں کشمیری یوم تاسیس نہیں منا رہے جبکہ آزادی کشمیر کیلئے ہزاروں کشمیری شہید و لاکھوں زخمی و بے گھر ہوئے تھے۔ آزاد کشمیر حکومت کی صورت میں چند لاکھ کشمیری جزوی آزاد ہوئے جبکہ اکثریت آج بھی غلام ہے۔ آج 66 سال بعد ہم آزاد کشمیر میں جو یوم تاسیس منا رہے ہیں اس میں آج وہ جذبہ و جوش باقی نہیں رہی ہے جو غلام کشمیریوں سے تجدید کیلئے ضروری ہے بلکہ آج یہ دن ایک رسم بن چکا ہے۔ اسی لیے تجدید کے عہد والے دن پر کشمیریوں کی اکثریت ہمارا ساتھ نہیں دے رہی اس کی وجہ صاف ہے کہ جس مقصد کیلئے 66سال پہلے آزاد کشمیر حکومت بیس کمیپ کے طور پر قائم کرائی گئی یہ حکومت اس مقصد سے پیچھے ہٹ چکی۔
Indian Army
یہاں صدارت و وزارت کیلئے سیاستدانوں نے ذاتی مفاد کو ریاست جموں کشمیر کی عوام کے مفاد سے مقدم جانا اور بھارتی تسلط میں قید کشمیریوں کو آزاد کرانے کیلئے سنجیدگی سے کام نہیں کیا گیا۔ آج آزاد کشمیر کے عوام خصوصا نوجوان نسل مسئلہ کشمیر سے ناواقف ہو چکی ہے۔ اس کی وجہ گزشتہ و موجودہ حکمرانوں اور سیاستدانوں کی ریاست کشمیر کی آزادی سے عدم دلچسپی اور نصاب میں مسئلہ کشمیر کا تفصیل سے موجود نہ ہونا ہے۔ اسی لیے اب کشمیر کے نام سے منسلک دنوں پرجب پروگرامات کیے جاتے ہیں تو ان میں حکومتی مشینری یا مخصوص سیاسی لوگ رسمی طور پر شرکت کرتے ہیں عام عوام اور نوجوان نسل کو علم ہی نہیں ہوتا کہ یہ دن کیوں منائے جاتے ہیں۔
تاریخ کے اوراق کے مطالعے سے علم ہوتا ہے کہ 4 اکتوبر 47 ء کو کشمیریوں کی کونسل نے ‘ غلام بنی گلکار ‘کو جموں کشمیر کا پہلا صدر بنایا جن کی آزاد و خود مختار حکومت یاست جموں کشمیر میں20 دن تک قائم رہی۔ غلام بنی گلکار کشمیریوں کے نمائندہ سمجھے جاتے تھے انکی حکومت کو ہندوستان و پاکستان حکومت میں سے کسی کی حمایت حاصل نہ ہوسکی اس لیے اس خطہ میں حکومت پاکستان نے ریاست جموں کشمیر میں جاری جہاد کو آئینی اور انتظامی قوت عطا کرنے اور اس جہاد کے مقاصد میں جموں کشمیر کے مسلمانوں کی جدوجہد آزادی کو دنیا بھر میں پروجیکٹ کرنے اور آزاد شدہ علاقوں میں نظام حکومت قائم کرنے کیلئے اپنے حمایت یافتہ پونچھ کے نوجوان قائد بیرسٹر سردار محمد ابراہیم خان کی صدارت میں آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر قائم کرا دی جبکہ غلام نبی گلکار کی حکومت کو زبردستی ختم کر دیا گیا۔
ہندوستان نے آزاد کشمیر حکومت اور پاکستان کے کشمیریوں کی حمایت کے اقدامات پر بڑے پیمانے پر سازشیں شروع کر رکھی تھیں انہی سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے جنرل کونسل نے سری نگر میں سردار محمد ابراہیم کے گھر میں 19جولائی 1947ء کو اپنے اجلاس میں قرارداد منظور کی تھی جس میں مہاراجہ ہری سنگھ سے مطالبہ کیا گیا تھا تقسیم ہند کے اصولوں کیمطابق اور ریاست جموں کشمیر میں مسلمانوں کی 80 فیصد آبادی اور ریاست کے پاکستان سے قدیم مذہبی، اقتصادی اور مواصلاتی رابطوں کی رو میں ریاست کا الحاق پاکستان سے کرے ورنہ مسلمان علم جہاد بلند کر دینگے۔1947 ء میں کشمیری مجاہدین نے بھارت کی اس وقت کی بڑی اور جدید اسلحہ سے لیس فوج کا مقابلہ بڑی جرات ، پامردی اور عزم و استقلال سے کیا۔
Kashmir Mujahideen
مجاہدین ہر قدم پر فتح و نصرت کے جھنڈے گاڑتے ہوئے آگے بڑھتے گئے اور ریاست کا ایک بڑا حصہ بھارتی اور ڈوگرہ افواج کے تسلط سے آزاد کرا لیا۔ اس جہاد کو مزید قوت پہنچانے، عوامی تائید فراہم کرنے اور دنیا بھر میں پروجیکشن کیلئے 24 اکتوبر کو آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کا قیام حکومت پاکستان کی مرضی سے عمل میں آیا۔ ہندوستان مجاہدین کشمیر کے مسلسل حملوں کی ہر گز تاب نہیں رکھتا تھا۔ چنانچہ اس نے 13اگست 1948ء اور 5جنوری 1949ء کی قرار دادوں میں اقوام متحدہ سے جنگ بندی کی اپیل کی اور اقوام عالم کے سامنے یہ وعدہ کیا کہ وہ کشمیری عوام کے رائے شماری کے ذریعہ اپنی تقدیر کا فیصلہ کرنے کا موقع فراہم کرے گا ۔کشمیری عوام کئی سال تک انتظار کرتے رہے کہ انہیں رائے شماری کے ذریعے فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے گا لیکن بھارت نے ایسا موقع دینا تھا نہ دیا۔ بھارت کی وعدہ خلافیوں سے مایوس ہو کر مقبوضہ کشمیر کے عوام نے تحریک مزاحمت شروع کر دی جس کے نتیجہ میں آج تک ایک لاکھ سے زائد کشمیری عوام جام شہادت نوش کر چکے اور انہوں نے کشمیر جنت نظیر کو خون سے لالہ زار بناکر آنے والی نسلوں پر کشمیر کی آزادی کا قرض چھوڑ دیا ہے۔ کشمیری عوام نے اپنی آزادی اور حق خود ارادیت کے حصول کیلئے تاریخی قربانیاں پیش کی ہیں جس سے ساری دنیا پر یہ واضح ہے کہ وہ اپنا نصب العین حاصل کر کے رہیں گے۔
جواہر لال نہرو نے اپنی پارلیمنٹ میں اور سری نگر کے لال چوک میں خطاب کرتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ ہم ان قراردادوں پر عمل کرینگے۔ چاہے انکے نتائج سے ہمیں دکھ ہی ہو لیکن ہندوستان نے آج تک ان قراردادوں پر عمل نہیں کیا اور کشمیر کو زبردستی اپنا اٹوٹ انگ بنا رکھا ہے۔
ٍ 27 اکتوبر47 ء کو ریاست جموں کشمیر کی سیاسی تاریخ کا ایک المناک باب قرار دیا جاتا ہے اسی روز ریاست کے مطلق العنان حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیری قوم کی جمہوریت نواز عوامی تحریک کے سامنے بے بس ہو کر اپنے اقتدار کو بچانے کیلئے ہندوستان سے فوجی مدد طلب کی اسی طرز پر حکومت پاکستان نے بھی 24ا کتوبر کو اپنی من پسند حکومت آزاد کشمیر میں قائم کی تھی۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہندوستان نے اپنی فوجی امداد کے معاوضے کے طور پر مہاراجہ سے الحاق کا تقاضا کیا لیکن مہاراجہ نے ہندوستان پر واضح کیا کہ وہ کشمیری عوام کے مرضی کے برخلاف ایسا اقدام نہیں کر سکتا۔ کشمیری عوام گذشتہ 66 برس سے 27 اکتوبر کو یوم سیاہ کے طور منا کر اس بات کو عالمی برادری پر واضح کرتے آرہے ہیں کہ جموں کشمیر کے لوگ ہندوستان کے ساتھ رہتے ہوئے مطمئن نہیں ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہندوستان و پاکستان کی سول سوسائٹی سے وابستہ لوگ اپنے ملک کے اہل اقتدار کو حقائق تسلیم کرنے پر آمادہ کریں اور دونوں ملکوں کی حکومتوں پر دبائو ڈالیں کہ وہ مسئلہ کشمیر کو حل کریں۔ آج ماہ اکتوبر کے اختتام پر تمام کشمیری عالمی برادری سے ایک بار پھر اپیل بھی کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ بھارت کوانسانی حقوق سے متعلق بین الااقوامی قوانین اور اصول و ضوابط کا پابند بنانے اور مسئلہ کشمیر کو حق و انصاف کی بنیادوں پر حل کروانے کیلئے اپنی ذمہ داریاں پورا کریں۔