تحریر : حفیظ خٹک جسم کے خون میں موجود اجزاء میں بعض اجزاء کی کمی اور سے تھیلیسیمیااور ہیمو فیلیا جیسی بیماری سامنے آتی ہے جس کا انجام سانسوں کا رک جانا ہے۔ میں نے تو یہ فیصلہ ہی نہیں طے کر لیا ہے کہ میں اپنی زندگی میں ہر تین ماہ کے بعد خون زندگی کیلئے دیتا رہوں گا۔ میرے خون سے اگر بچے کو چند لمحے بھی زندگی کے میسر آجائیں تو میرے لئے اللہ کی جانب سے یہ بہت بڑا اجر و انعام ہوگا۔ میں خون دینے کے بعد میری صحت پر آج تک کوئی منفی اثر نہیں پڑا ۔ زندگی کے سبھی فرائض بحسن و خوبی سرانجام دے رہا ہوں۔ جب ملائیشیا اور سوڈان جیسے ممالک سے تھیلسمیا جیسے مرض کا خاتمہ ہوسکتا ہے تو پاکستان سے کیوں کر نہیں ہوسکتا ؟ اپنے ملک کو فری تھیلیمسیا بنانے کیلئے میں اپنے حصے کا کردار اداکرتا رہوں گا۔
فرمان علی خادم نام کا یہ نوجوان نے اپنی گفتگو کے درمیان ذرا سا وقفہ لیا اور ہمارے چہروں کی جانب دیکھنے لگا۔ مجھ سمیت موجود وہاں سبھی افراد ایک اپنے جیسے انسان کو عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے ، بالکل ایسے بھی جیسے کہ کچھ اختلافات ہوں درمیاں، کوئی بحث و مباحثہ ہو، کوئی الجھنے اور سلجھنے والا موضوع ہو، اور ایسے بھی کہ جیسے اس انسان اور دیگر انسانوں میں کوئی نمایاں فرق ہو۔ فرمان علی کسی اور سیارے سے آیا ہوا ہو یا وہاں موجود دیگر سبھی لوگ کہیں اور کی مخلوق ہو۔ اس سے قبل کہ فرمان اپنی بات دوبارہ سے کرتا راقم نے اس کے شہرے کی جانب سے دیکھتے ہوئے اس سے پوچھا کہ آپ نے پہلی بار خون کب دیا تھا ؟ اور یہ بھی بتائیں کہ کیا آپ کے خاندان میں ، یا خاندان سے باہر کوئی بچہ اس مرض سے وابستہ رہا ہے جس کے لئے آپ خون دے رہ ہیں۔ یہ بھی ہمیں بتائیں کہ آج تک آپ نے کتنی بار کون دیا ہے ؟
فرمان نے میری جانب دیکھا اور مسکراتے ہوئے کہا کہ میں نے پہلی بار خون آج سے 20برس قبل دیا تھا وہ 1996کا سال تھا اور میں نے پہلی بار خون دیا تھا ۔ میرے گھر میں ، خاندان میں یا کسی جاننے والوں میں آج تک اس تھیلسیمیا جیسے مرض سے کوئی بچہ بیمار نہیں ہوا۔ ایک شوق تھا جو دل میں آیا اور میں نے اسے پورا کردیا ۔ آج تک میں 70بار خون دے چکا ہوں اور دیئے گئے خون کا تمام ریکارڈ میرے پاس محفوظ ہے۔ اس سے قبل کہ راقم اس سے کوئی بات پوچھتا فرمان نے ازخود بولتے ہوئے کہا کہ یہ سب کام میں کسی نام کیلئے ، کسی ریکارڈ کیلئے ، کسی عالمی کتاب میں اندراج کیلئے نہیں کر رہا اورنہ ہی کسی لالچ کیلئے کر رہاہوں ۔ میرا تو یہ کام کرنے کا مقصد بہت واضح ہے جو کہ کچھ دیر قبل آپ سب کو بتایا کہ میں اللہ کی رضا کیلئے اس کی مخلوق کی خدمت کیلئے ان کی زندگیوں میں چند ساعتیں بڑھانے کیلئے اپنے جسم کا خون ان کی نظر کرتا ہوں ۔ مجھے اس روز بے پناہ خوشی ہوگی جب میں یہ خبر سنوں گا کہ تھیلسیمیا سے پاک میرا پاکستان بھی ہوگیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ خبر اک روز ضرور آئیگی اس کیلئے مجھ سمیت خون دینے والے سبھی اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔
ALLAH
چند لمحے توقف رہا اور ان لمحات میں موجو د سب شرکاء کے چہروں سے فرمان علی کے عزائم نمایاں دیکھائی دے رہے تھے ، جیسے ان سب نے فرمان علی کی باتوں سے نہ صرف اتفاق کیا ہے بلکہ اس کے عزائم کو پورا کرنے کیلئے وہ بھی خون دینے کیلئے تیار ہوگئے ہیں۔ تھلسیمیاکے غریب اور معصوم بچوں کی خدمت میں 70 بار خون کا عطیہ دینے والا سماجی کارکن فرمان علی خادم نے کہا ہے کہ جب تک دم خمہے غریب ،معصوم مریض بچوں کی خدمت میں خون کا نذرانہ پیش کرتا رہوں گا چاہے اس مد میں خون کا آخری قطرہ بھی دینا پڑے ۔اگر نوجوان جو کہ پاکستان کی آبادی کا 65فیصد ہیں ہر تین ماہ کے بعد یا چھ ماہ کے بعد یا پھر سال میں اپنے جنم دن کی خوشی کے موقع پر ایک بار بھی خون کا عطیہ دیں تو یہ ان کا ایک بڑا کارنامہ ہوگا۔اس خوالے سے سب سے بڑا کام آگاہی ہے جو کہ نوجواں میں بے حد ضروری ہے۔
یہاں یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اب فرمان علی خادم ہر تین ماہ کے بعد صرف اور صرف ان معصوم بچوں کا چہرہ دیکھ کر ، ان کے چہروں پر خوشی کے لمحات کو بڑھانے کیلئے خون کا عطیہ دے رہے ہیں۔ انہوں نے گذشتہ برس 23مارچ کو خون دینے کے بعد نیوز کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہاتھا کہ یہ اس دن قرار داد مقاصد یا قرار داد پاکستان پاس ہوا ہمیں بھی اپنے دل میں ایک قرارداد پاس کرنی ہوگی کہ ہمیاں بھی پاکستان کی خدمت کرنی ہوگی اور اس کیلئے ہم ہر قربانی دینے کیلئے تیار ہوں گے جو خون ہمارے جسم میں ہے اس سے سند قطرے اسی پاکستان کے بیمار بچوں کو دے کر ہم اس جذبے کا عملی مظاہر ہ کر سکتے ہیں۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عوامی خدمت کیلئے عہدے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ ایسے لوگوں کو ایسی ہستیوں کو کبھی اسناد سے کبھی تعریفوں کے انبار سے دلچسپی نہیں رہی ہے۔ یہ لوگ اپنے مشن کو اپنا نصب العین کی طرح سامنے رکھتے ہیں اور اسے پورا کرنے کی جستجو کرتے ہیں ۔ ایسے ہی لوگوں کو کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ فرمان علی کے جذبے کو 2011 میں سیکریٹری محکمہ صحت نے مدنظر رکھتے ہوئے 50ہزارروپے کا انعام بھی دیا تھا اس کے ساتھ ہی پنجاب کے وزیر اعلی میاں شہباز شریف نے بھی تعریفی اسناد کے ساتھ 5لاکھ روپے کا انعام دیا تھا۔ اس رقم سے فرمان نے غریب بچوں کیلئے ایک اسکول کی بنیاد رکھی جو کہ آج بھی بغیر کسی فیس کے چل رہا ہے ۔اسکول کے بچوں کو اس کے ساتھ ہی کتابیں ،کاپیاں اور جیب خرچ کیلئے رقم بھی دی جاتی ہے۔ ان طالبعلموں کو یہ ہدایت بھی کی جاتی ہے کہ وہ اپنی جیب خرچی میں آدھی رقم کی بچت بھی کریں۔ ان بچوں کو فضول خرچی سے بچانے کی صلاحیت پیداکرنے کیلئے فرمان انہین تاکیس کرتے ہیں کہ وہ اپنی آدھی جیب خرچی بچائیں اس طرح سے ان بچوں میں بچت کی عادت کا پروان چڑھنا ابھرتا ہے۔
Pakistan
ملک میں ایسی متعدد شخصیات ہیں جنہوں نے تنہا اس طرح کے کام اللہ کی رضا اور پاکستان کی سلامتی و بقا کیلئے شروع کئے ابتداء میں وہ تنہا رہے انہیں مشکلات و مسائل سے بھی دوچار ہونا پڑا لیکن مستقل مزاجی سے اپنی دھن میں آگے بڑھتے رہنے کے باعث ایسا وقت جلد ان کے سامنے آجاتا ہے کہ جب چہار سو ان کی کارکردگی کو سراہا جاتا ہے ، ان کے اچھے کاموں میں ان کا ساتھ دینے اور انہی کی طرح اچھے کاموں کو بڑھانے کیلئے نئی نئی راہیں اختیار کر لی جاتی ہیں۔ شہر قائد میں بلکہ پورے ملک میں اور ملک سے باہر بھی عبدالستار ایدھی کا نام عام فہم ہے ان کا نام سامنے آتے ہی ان کے اچھے کاموں کی طویل فہرستیں سامنے آجاتی ہیں،ان کی عزت و احترام ہر دل میں قائم ہے اور یہ مقام دائم رہے گا۔ وہ تنہا تھے اور اب اسی طرح کے فلاخی کام کرنے والوں کی نہ صرف شہر قائد میں تعداد بڑھی ہے بلکہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی فلاحی کاموں کی مقدار میں اضافہ ہوا ہے۔ فرمان علی خادم نے آج تک اگر 70بار خون کا عطیہ دیا ہے تو یہ ہندسہ یہیں مقیم نہیں رہے گا بلکہ فرمان نہ صرف اس میں خود اضافہ کریں گے بلکہ اس ہندسے تک خون کا عطیہ دینے والے اور کئی افراد یہاں پہنچیں گے اور اس سے بھی آگے نکلیں گے۔ وہ بھی فرمان علی خادم کی طرح اس ملک کو تھلیسیمیا سے پاک کرنے کیلئے اپنا اعلی کردار ادا کریں گے۔
یہ ایک بدقسمتی ہے کہ خبروں میں حالات و واقعات میں ایسی خبروں کا اضافہ ہی دیکھائی دیتا ہے جو کہ خون سے متعلق ہوتی ہیں، خون خرابی کی ہوتی ہیں نفرت و دہشت گردی کی ہوتی ہیں انہیں سن کر اور دیکھ کر دل بیتاب ہوجاتا ہے دل کی حالت بھی ڈوبنے لگتی ہے ۔ ایسے حالات اور ایسی خبروں سے دور رہنے کے لئے عوام خود کو خبروں تک سے دور رکھنے کی جانب زیادہ مائل ہونے لگ گئی ہے۔ تاہم ایسی ہی صورتحال میں جب خون دینے کی کوئی ایسی خبر سامنے آجاتی ہے کہ جس میں خون دینے والا یہ کہتا ہے کہ میں تو خون کا عطیہ تو کسی بیمار بچے کی زندگی کو بڑھانے کیلئے دے رہا ہوں ۔ میں خون زندگی کیلئے دے رہا ہوں اور ایک بار نہیں میں تو متعدد بار یہ عطیہ دے چکا ہوں تو خبر دیکھنے اور سننے والوں کو اول تو یقین نہیں آتا لیکن جب وہ خون دینے والے کی صحت کو دیکھتے ہیں۔
Doctors
ڈاکٹرز کی باتوں کو سنتے ہیں بیماربچوں کے چہروں پر آنے والی ہنسی و خوشی کو دیکھتے ہیں تو مثبت سرگرمی کرنے کیلئے ان کے اندر بھی ہمت ابھرتی ہے۔ خون سے متعلق آنے والی خبروں میں زندگی کیلئے خون دینے کی خبر کودیکھ کر اور سن کر اطمینان و خوشی کا احساس ہوتا ہے۔ملک میں سماجی خدمات کرنے والی تنظیمیں ، صوبائی حکومتیں اور سب سے آگے مرکزی حکومت کو چاہئے کہ وہ فرمان علی خادم جیسے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کیلئے اقدامات کریں۔ یہ ایک مثبت قدم ہوگا اور یہ مثبت تبدیلی کیلئے ہی ہوگا اب دیکھنا یہ ہے کہ کب ، کون اور کہاں سے اس جانب اقدام کیلئے آگے برھتا ہے۔۔۔۔۔