تحریر : محمد جاوید اقبال صدیقی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہر منی پاکستان ، شہرِ قائد، کراچی میں بدھ کے روز صبح ہی صبح بندوق برداروں نے تقریباً چار درجن کے قریب اسماعیلی کمیونٹی کے لوگوں کو بس میں گھس کر گولیوں سے چھلنی کر دیا۔جن میں نہ صرف مرد بلکہ خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔یوں کراچی میں ”امن ” قائم رکھنے کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا ”اس سانحے کے بعد امن کی فاختہ کے پاس سوائے منہ تکنے کے اور کوئی راستہ نہیں تھا۔سانحہ صفورہ کو میڈیا پر تاریخ کے بد ترین سانحات میں شمار کیا جا رہا ہے۔ اس کے بعد وہی ہوا جو ہوتا رہا ہے، مذمتی بیانات، معاوضے کا اعلان، سوگ منانے کا اعلان، شمع روشن کرنے کی ریت، سب کچھ درست مگر کیا کسی کے اپنے جو اُس روز بچھڑ گئے یا اس سے پہلے بچھڑتے رہے ہیں، وہ واپس مل سکتے ہیں، ظاہر ہے نہیں کیونکہ ابدی نیند سونے والے واپس نہیں آیا کرتے۔
جانے والوں کے لواحقین سے پوچھو کہ اپنوں کے بچھڑنے کا درد کیا ہوتا ہے، اور انہیں صبر کیسے ملے گا ، ہم سب پاکستانیوں کی یہ دعا ہے کہ اللہ رب العزت ان تمام لواحقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس قسم کے واقعات اسلامی ریاست پاکستان کے علاوہ افغانستان، عراق، شام، یمن، فلسطین ، اور دیگر ممالک میں گاہے بگاہے ہوتے رہتے ہیں، اب تک بے حساب بے گناہ لوگ اس عفریت کا نشانہ بن چکے ہیں۔بقول شاعر: دوسری چیزیں ہیں بہت ہی مہنگی خون ارزاں ہے صرف مسلم کا
ملک میں فرقہ وارانہ عصبیت پسندی، تنگ نظری اور علیحدگی پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحانات، منافقانہ جذبات و احساسات کا اُجاگر ہونا ملک کے لئے ایک بڑا خطرہ بنتے جا رہے ہیں، حکومت کو چاہیئے کہ فوری طور پر ایکشن میں آئے اور ملزمان کی سرکوبی کرتے ہوئے ملک بھر میں امن و امان قائم کریں، آپریشن تیز کریں یا سلو، مشورہ یہ ہے کہ کوئی بے گناہ شہری اس کی زد میں نہ آئے تاکہ یہ بڑھتی ہوئی عوامی احساسِ محرومی کو دوام ملے۔سانحہ صفورا نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کے تمام محب وطن شہریوں کو لرزا کر رکھ دیا ہے ، اخبارات میں یہ بھی قیاس کیا جا رہا ہے کہ اس سانحہ کے منفی اثرات داخلی و خارجی سطح پر مرتب ہوں گے، اس کی ایک مثال تو زمبابوے کی کرکٹ ٹیم ہے جس کا پاکستان میں کھیلنے کے لئے آنے کا فیصلہ ہو چکا تھا اب وہ ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں۔
Namaz e Janaza
سانحہ صفورہ میں جاں بحق ہونے والوں کی نماز جنازہ بھی الاظہر گارڈن میں ہو چکی ہے ، جاں بحق افراد کی تدفین سخی حسن قبرستان میں واقع آغا خان کمیونٹی کے قبرستان النور میں ہو گئی ہے۔ اسماعیلی کمیونٹی کے ہزاروں افراد ، ان کے عزیز و اقارب ، دوست احباب نے آہوں اور سسکیوں کے ساتھ جنازے میں شرکت کی اس موقع پر کئی سو جوان اونچی عمارتوں پر ماہر نشانہ بھی تعینات رہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سانحہ صفورا نے ایک بار پھر دردِ دل رکھنے والوں کو خون کے آنسو رُلا دیا ہے۔جس دن یہ واقعہ رونما ہوا اُسی دن اسلام آباد میں پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے پر حکومت کی زیرِ صدار ت آل پارٹیز کانفرنس بھی تھی۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ پاکستان کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل بھی ہے بلکہ روشن مستقبل کا ضامن ہے۔
اُسی دن اس واقعے کا رونما ہونا یقینا کسی غیر ملکی کارستانی کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ تفتیش جاری ہے دیکھئے کہ کب تک ان سفاک لوگوں کو قانون اپنے شکنجے میں جکڑتا ہے۔اخبارات اور میڈیا چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ شہریوں کا امن و سکون تباہ و برباد کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ شہرِ قائد کو ایک مرتبہ پھر خون سے نہلا دیا گیا، دہشت گردوں نے نہ صرف شہرِ قائد بلکہ کروڑوں پاکستانیوں کو بھی ایک دفعہ پھر غم سے نڈھال کر دیا ہے۔
پشاور اسکول کے بچوں کی بیہمانہ واردات ہو یا سانحہ صفورہ، یہ سب انتہائی لرزہ خیز وارداتوں میں شمار ہو رہے ہیں،ملکِ پاکستان کو امن کا گہوارہ بنانے کے لئے آرمی چیف کا عزم قابلِ ستائش ہے۔ امیدِ قوی ہے کہ ایک روز اس ملک کے عوام کو بھی امن و امان نصیب ہو سکے گا۔ چونکہ اُمید پہ دنیا قائم ہے اس لئے اُمید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیئے۔