9 فروری2013 کا دن دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت کے چہرے پر سیاہ کلنک کے طور پر ہمیشہ دمکتا و چمکتا رہے گا کیونکہ اس روز بھارتی نیتاووں نے دلی کی تہاڑ جیل میں مقبوضہ کشمیر کے حریت پسند نوجوان لیڈر افضل گورو کو بھارتی پارلیمان پر دہشت گردانہ حملے کے فسوں کار الزام میں پھانسی کے تخت کا دولہا بنا دیا۔ افضل گورو کا جرم یہ تھا کہ وہ ایک طرف مقبوضہ کشمیر کا رہائشی تھا تو دوسری طرف وہ لاکھوں کشمیریوں کے غصب کردہ حق خود ارادیت کا طرف دار تھا۔
بھارتی عدلیہ میں شہید کشمیر گورو کا کیس40 ماہ زیر سماعت رہا۔ بھارتی عدلیہ کے علمبرداروں نے انصاف کا خون کیا۔ گواہوں اور ثبوتوں کی عدم موجودگی کے باوجود سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ انڈین ضمیر کی تسکین صرف اسی صورت میں ممکن بن سکتی ہے کہ مجرم کو پھانسی کا پھندہ پہنایا جائے۔ ججبز کا کہنا تھا ملزم بھارتی سماج کے لئے خطرہ ہے چنانچہ اسکی زندگی مٹادی جائے۔ بھارتی سپریم کورٹ کی زبان میں اسکی زندگی مٹادی گئی۔یہ وہی جیل ہے جہاں تین دہائیاں قبل عظیم کشمیری لیڈر مقبول بٹ کو پھانسی دی گئی تھی۔ دونوں شہدا کی لاشیں ورثا کو نہ مل سکیں۔ بٹ اور گورو کی تدفین بھارتیوں نے جیل کی گمنام قبروں میں کردی۔ افضل گورو کی پھانسی پر اہل کشمیر کے ساتھ ساتھ ہر پاکستانی گلوگیر اور ماتم کناں ہے مگر بھارت کی سنگدلی کا یہ عالم ہے کہ اسے نہ تو دنیا کے اجتماعی ضمیر کی پرواہ ہے اور نہ ہی وہ مقبوضہ کشمیر میں جاری ظلمت کی گرفت کو ڈھیلا کرنے کا کوئی ارادہ رکھتا ہے۔ افضل گورو کی بے گناہی کا ثبوت اقوام عالم کی باضمیر دانشور اور انڈین مصنفہ ارون دھتی رائے کے10 فروری کے ارٹیکل میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ارون دھتی رائے نے لکھا کہ گورو کی پھانسی سے بھارتیوں کی تسکین ہوچکی ہوگی۔ ارون دھتی رائے نے سچائی کی تلاش میں 4 سال صرف کئے۔
افضل گوروکی پھانسی انڈین ایجنسیوں اور پولیس کی مشترکہ سازش تھی جس میں پاکستان اور مقبوضہ وادی کے حریت پسندوں کو واضح پیغام اور دھمکی دینا مطلوب تھا۔ ارون دھتی رائے نے 4 سالہ ریسرچ کے شواہد و حقائق کو 2008 کے انڈین جریدے اوٹ لک میں شائع کیا۔ ارون دھتی رائے کے مطابق13 ستمبر2003 کو بھارتی پارلیمان کا اجلاس جاری تھا۔ گیارہ بجے پانچ مسلح افراد ایمبیسڈر کار میں پارلیمان ائے۔ سیکیورٹی نے روکنے کی کوشش کی تو حملہ اوروں نے فائرنگ شروع کر دی جوابی فائرنگ میں تمام حملہ اور ہلاک ہوگئے۔ بھارتی پولیس نے اگلے روز بیان جاری کیا کہ ٹوٹل ملزمان کی تعداد12ہے جس میں پانچ ہلاک شدگان پاکستانی دہشت گرد جیش محمد کے غازی بابا مولانا مسعود اظہر اور چارکشمیری باشندےsar gelani افضل گورو شوکت گورو اور اسکی بیوی افشاں گورو شامل ہیں۔21 دسمبر کو بھارت نے اسلام اباد سے اپنا ہائی کمشنر واپس بلا لیا۔ انڈو پاک میں فضائی اور زمینی سفر پر پابندی عائد کر دی۔سمجھوتہ ایکپریس کے پہیے جام ہوگئے۔
Indian Supreme Court
بھارت نے 5 لاکھ فوجی جوان بھاری اسلحے سمیت پاکستانی سرحد پر بھیج دئیے۔ تناو اتنا شدید ہوگیا کہ برصغیر ایٹمی جنگ کی ریڈ لائن پر سرکتا چلاگیا۔ ارون دھتی رائے لکھتی ہیں اس سارے ڈرامے پر قومی خزانے کے دس ہزار کروڑ خرچ ہوئے۔سپریم کورٹ نے چار اگست2005 کو کیس کا فیصلہ کیا۔ کورٹ نے حملے کو جنگی کاروائی سے تعبیر کرنے کے فلسفے کی تائید کی۔ ججز نے پارلیمان سانحہ کو ہندوستان کی ازادی و خود مختیاری کے مظہر پر حملہ قرار دیا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہارڈ کور فدائین کے اختیار کردہ طریقے ہندوستان کے خلاف جنگ شروع کرنے کی دلالت کرتے ہیں۔ پولیس کی ساری کاروائی اقوام عالم کی ہسٹری کے کالے تر قانون پوٹا کے تحت تیزی سے انجام کو پہنچی۔عدلیہ نے گیلانی شوکت افضل گورو کو سزائے موت جبکہ افشاں گرو کو 5 سالہ قید کی سنائی گئی۔ ہائی کورٹ نے شوکت گرو اور افضل گورو کی سزائے موت بحال رکھی جبکہ گیلانی اور افشاں کو بری کردیا۔
سپریم کورٹ نے کمال شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے شوکت گورو کو موت کی جگہ سال قید کا تحفہ دیا مگر افضل گورو کو 2 مرتبہ عمر قید اورتین بار سزائے موت دینے کا نادر شاہی حکم سنایا۔سپریم کورٹ نے تسلیم کیا کہ یہ پتہ نہیں چل سکا کہ افضل گورو اور ہلاک شدگان کا تعلق کس شدت پسند تنظیم سے ہے۔ ارون دھتی لکھتی ہیں کہ کشمیر میں رائے عامہ غضبناک بنی ہوئی ہے۔ عدالتی فیصلے پر احتجاج تو کیا جاتا ہے مگر کسی کشمیری کو بھارتی عدالتوں سے انصاف ملنے کی امید نہیں۔ کشمیری بہت بربریت جھیل چکے ہیں۔ ارون دھتی رائے کی محولہ بالہ ریسرچ اور بھارتی سپریم کورٹ اور عدالتی ٹرائل پر غور و خوض کیا جائے تو افضل گورو کی بے گناہی الم نشرح ہے۔ پولیس نے چاروں ملزمان پر ایک جیسے مقدمات مسلط کئے تھے۔ سپریم کورٹ نے تین ملزمان کو بری کردیا اگر شوکت گورو گیلانی اور افشاں گورو بے گناہ تھیں تو تب افضل گورو کس طرح ملزم بن گیا؟ پوٹا کورٹ اور ہائی کورٹ میں تینوں ملزمان کی سزائیں معاف ہوتی رہیں افضل گورو کو رعایت کیوں نہ مل سکی؟ سپریم کورٹ نے اعتراف کیا کہ افضل گورو کی وابستگی کس تنظیم کے ساتھ تھی اسکا پتہ نہیں چل سکا کیا معزز عدلیہ کا یہ اقرار سود و زیاں گورو کی بے گناہی کی دلالت نہیں کرتا؟ یہ تسلیم کرنا چاہے کہ جہاں انڈین پارلیمان پر دہشت گردانہ حملہ قابل مذمت تھا تو وہاں سپریم ججز کا فیصلہ بھی انصاف کشی سے کم نہیں۔ بگ ڈیموکریسی اف ورلڈ میں قانون کی کارفرمائی کا قصہ ارون دھتی رائے سناتی ہیں۔
میں چار اکتوبر کو افضل گورو کے عدالتی فیصلے کے خلاف دلی میں ہونے والے احتجاج میں شریک تھی۔ مجھے یقین ہے کہ افضل گورو شر انگیز کھیل کا محض پیادہ تھا وہ اژدھا نہیں بلکہ اسکے پاوں کا ایک نشان تھا جو اگر مٹ گیا تو ہم کبھی نہ جان سکیں گے کہ اژدھا کون تھا۔مجھے پتہ چلا کہ احتجاج کو منظم کرنے والا ملزم نمبر3 ایس ار شوکت گیلانی تھا جو عربی ادب کا لیکچرار ہے۔پولیس نے گیلانی اور اسکی فیملی کو غیر قانونی حراست میں رکھ کر بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ گیلانی نے18 ماہ کی ظلمت بھری قید برداشت کی۔انتظامیہ نے اسکے خلاف شرانگیز مہم چلائی جو تخیلاتی اور غیر تھی جسے قوم پرست بھارتی میڈیا نے بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔زی ٹی وی نے جھوٹ پر مبنی فلم بھی کاسٹ کی۔گیلانی معصوم تھا اسی لئے ہائیکورٹ نے اسے بری کر دیا۔افضل گورو کی بیوی جو گرفتاری کے وقت حاملہ تھی نے جیل میں بچے کو جنم دیا اس نے تشدد اور تلخ تجربات کی شب دیجور کے جس جبر کا سامنا کیا وہ روح انسانیت کو لرزا دیتا ہے۔ افضل گورو کو کسی قسم کی قانونی اور مشاورتی کمیٹی کی خدمات حاصل نہ تھیں۔
افضل گورو سے رجبیر سنگھ نامی سفاک تفتیشی پولیس کمشنر نے تفتیش کی جو بھارت میںencounter specialist کے لقب سے شہرت رکھتا ہے۔اسکا دامن سینکڑوں بے گناہوں کے خون سے تر ہے۔ رجبیر سنگھ نے تفتیشی سیل میں غیر قانونی پریس کانفرنس رکھی جس میں افضل گورو سے زبردستی اقبال جرم کروایا گیا۔ پولیس ڈپٹی کمشنر اشوک چند نے میڈیا کو بتایا کہ گورو اپنا جرم تسلیم کرچکا ہے مگر اشوک کا انکشاف اس وقت غلط ثابت ہوا جب رجبیر سنگھ کی موجودگی میں افضل گورو نے میڈیا کے سامنے نہ صرف اقبال جرم کی صحت ماننے سے انکار کردیا بلکہ اس نے عربی پروفیسر ایس ار گیلانی کی معصومیت کا شور مچایا۔انکاونٹر سپیشلسٹ رجیر سنگھ نے میڈیا کے نمائندوں کو فرعونی حکم جاری کیا کہ گورو کے انکار جرم سے متعلق کوئی خبر ریلیز نہ کی جاوے۔ میڈیا نے رجبیر سنگھ کے نادر شاہی حکم کی تعمیل کی۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ میڈیا نے حقائق دفنا کر صحافت اور سچ کاencounter کیا۔بھارتی ٹی وی اج تک نے سانحہ پارلیمان پر خصوصی پروگرام >سودن< نشر کیا جس میں افضل گورو کا وحشیانہ تشدد برانڈ اقبال جرم دکھایا گیا۔ گورو کا قانونی بنیادی حق غصب ہوا جس نے ججز کو پھانسی کی راہ ہموار کرنے کا موقع فراہم کیا۔ گورو کا بیرونی دنیا سے رابط منقطع تھا۔کسی کو نہ تو ملاقات کی اجازت دی گئی اور نہ ہی اسے اسکی مرضی کا وکیل مل سکا۔عدالت نے دکھاوے کی خاطر ایک جونیر وکیل مقرر کیا مگر وکیل نے جیل میں نہ تو اپنے موکل سے ملاقات کی اور نہ ہی عدالت میں کسی گواہ کو پیش کیا۔
گورو نے پیشی پر عدالت کو5 وکلا کے نام پیش کئے اور درخواست کی کہ5 میں سے کسی ایک کو وکیل صفائی نامزد کیا جائے مگر پانچوں وکلا نے حکومتی دباو پر اسکا کیس لڑنے سے انکار کردیا۔ افضل کے لئے اس سے بڑی بیچارگی اور کیا ہوگی ؟ افضل گورو جموں کا رہنے والا تھا۔ بھارتی فورس گاہے بگاہے تلاشی کے نام پر اسے تنگ کرتی رہتی۔2000 میں راجہ موہن رائے نامی فوجی افسر نے گورو کی ہر ہفتے ارمی کیمپ میں حاضری یقینی بنانے کا حکم دیا۔ گورو سے حریت پسندوں کے نام پوچھے جاتے رہے۔ بھارتی فوج اسے اپنا ایجنٹ بنانا چاہتی تھی مگر اسکے انکار پر بھارتی فوج نے مزہ چکھانے کی ٹھان لی۔ گورو کی الات جراہی کی ڈسٹری بیوشن کمپنی تھی۔tsf نے جولائی2002 میں دفتر جاتے ہوئے گورو کو اچک کر پانچ دن انسانیت سوز تشدد کے مظالم کی پل طراط پر لٹکادیا۔ یوں مظلوم کو گرفتار کرنے کا غیر قانونی عمل جو دوہزار میں شروع ہوا وہ بھارتی پارلیمان پر حملے کے خود تراشیدہ الزام اور پھر اسکی پھانسی پر ختم ہوا۔ بھارتی فورسز نے کشمیر میں 1948 سے ظلم کا بازار گرم کر رکھا ہے۔
Afzal Guru Protest kashmir
گورو کی پھانسی شہادتوں کی ایک فصل ہے جو مقبوضہ کشمیر میں روزانہ کٹتی ہے۔تقسیم ہند1947 سے لیکر2013 تک مقبول بٹ کی شہادت سے لیکر افضل گورو کی پھانسی تک رجبیر سنگھ ایسےencounter ماہرین سے لیکر بھارتی میڈیا کےencouter journalist کے بہیمانہ کرداروں تک تحریک ازادی کشمیر کی تابندہ ہسٹری میں بھارتی فورسز نے اب تک ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو اتنک وادی کے جھوٹے مقدمات میں پھڑکا نے کا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ دنیا کی بگ ڈیموکریسی کو خون شہدا کا بگ ریکارڈ مبارک ہو۔ یاد رہے کہ اسی خون شہدا کی مہک سے بہت جلد افتاب ازادی کی صادق کرنوں کا ظہور ہوگا۔