تحریر: طارق حسین بٹ چیرمین پیپلز ادبی فورم اس میں کوئی شک نہیں کہ قیامِ پاکستان کیلئے مہاجروں کی قربانیاں لازوال ہیں اور انھیں تحریکِ پاکستان کی نظریاتی اساس کا محافظ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ برِصغیر کی جنگِ آزادی میں اقلیتی صوبوں میں مقیم ہونے کے باوجود انھوں نے قیامِ پاکستان میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا تھا تبھی تو انھیں ہجرت کے کرب سے گزرنا پڑا تھا ۔پنجاب سندھ اور سرحدنے تحریکِ پاکستان میں اس طرح توانا کردار اد نہیں کیا تھاجس طرح بنگال اور اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں نے کیا تھا۔ شائد یہی وجہ تھی کہ ملک کے سبھی طبقے مہا جرین کا بہت احترام کرتے تھے ۔لیکن کیا اس کے معنی کہیں پر بھی یہ ہیں کہ ان کی اولادوں کو ان کے آبائو اجداد کے کار ناموں کی وجہ سے دشمنوں سے ساز باز کرنے اور وطنِ عزیز کی یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے کا لائسنس دے دیا جائے اور جو کچھ جو ان کے من میں آئے کرتے جائیں ؟جوکارنامے مہاجرین کے ابائو اجداد نے سر انجام دئے تھے وہ ان کے ساتھ ہیں اور جو کچھ ان کی نسلیں کریں گی اس کی جوابدہی انہی کو ہی کرنی ہو گی۔یہ نہیں ہو سکتا کہ پدرم سلطان بود کے نعرے سے ابائو اجداد کی قربانیوں کے پیچھے خود کو مامون و محفوظ بنا لیا جائے۔ مشرقی پاکستان کے مجیب الرحمان کے ابائو اجداد نے بھی تو پاکستان کے قیام میں لازوال قربانیاں دی تھیں
لیکن شیخ مجیب الرحمان نے کیا کیا تھا۔اسی پاکستان کی کوکھ سے بنگلہ دیش کے قیام کی خاطر اپنے ابائو اجداد کے لہو سے بے وفائی کی تھی۔ شیرِ بنگال مولوی فضل الحق،نو را لامین،حسین شہید سہروردی اور خواجہ خیرالدین کی روح مجیب الرحمان کے افعال پر اب بھی تڑپ رہی ہو گی کہ اس نے ان کے عظیم تحفہ کوٹکرے ٹکرے کرکے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کو دو ممالک میں تقسیم کر کے ان کی لا زوال قربانیوں کو مٹی میں ملا دیاتھا ۔ایک وقت تھا کہ پاکستان کے حقیقی حکمران مہاجر ہی تصور ہوا کرتے تھے اور سیاستدان بس نام کے حکمران ہوتے تھے لیکن دھیرے دھیرے اقتدار پر ان کی گرفت کمزور ہوتی چلی گئی اور انھیں سیاسی سطح پر اپنا مقام بنانے اور احساسِ محرومی سے نکالنے کیلئے الطاف حسین کو ایم کیو ایم تشکیل دینی پڑی اور مہاجروں کو دوسرے صوبوں میں رہنے والوں کی طرح ایک نئی اکائی بنا کر پیش کرنا پڑا۔انھیں اپنے اس نعرے کی وجہ سے دوسرے صوبوں سے شدید تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن انھوں نے اپنے موقف کو تبدیل کرنے سے انکار کر دیا ۔وہ مہاجر کے لفظ پر ڈٹے رہے اور مہاجر ان کے پیچھے ڈٹے رہے۔
اپنے سیاسی تسط کی خاطر ایم کیو ایم نے اسلحے کے زور پر کراچی میں دوسری لسانی اکائیوں کا جینا دوبھر کر دیا جس سے اس کے اندر جرائم پیشہ افراد نے اپنی جگہ بنا نی شروع کردی اور وہ لوگ جن کا واحد مقصد اپنی تجوریاں بھرناتھا ایم کیو ایم پر حا وی ہوتے چلے گئے ۔مقامی بغاوت سے نپٹنے اور اپنے مخالفین کو سبق سکھانے کی خاطر ایم کیو ایم میں عسکری ونگ قائم کیا گیا جسے الطاف حسین کی مکمل اشیر واد حاصل تھی۔یہ سچ ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کی طرح ایم کیو ایم میں تنقید کوبرداشت کرنے کا کوئی رواج نہیں ہے کیونکہ قائد کو جو غدار ہے ،موت کا حقدار ہے ایم کیو ایم کا بڑا ہی واضح نعرہ ہے ۔اس نعرے نے بہت سے قا ئدین، جن میں عمران فاروق اور عظیم طارق سرِ فہرست ہیں کی جان لے لی ۔ایک تاثر ہے کہ وہ ایم کیو ایم کے قائد سے اختلاف کی وجہ سے اپنی جان گنوا بیٹھے تھے لہذا قتل و غارت گری کے ان گھنائونے جرائم پر الطاف حسین کی جانب بھی انگلیاں اٹھنے لگیں لیکن ان پر جرم ثابت نہ ہو سکا جس سے ایم کیو ایم مزید شیر ہو تی چلی گئی اور قتل و غارت گری روز مرہ کا کا معمول بن گیا جس سے ایم کیو ایم کی دھشت سب پر چھاتی چلی گئی لہذا جس نے ایک کیو ایم پر تنقید کرنے کی کوشش کی اسے اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔
Sult Mirza
صولت مرزا ،عامر خان،عامر صدیقی،اجمل پہاڑی اور عزیر بلوچ کے انکشافات یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں کہ ایم کیو ایم کے اندر عسکری ونگ موجودہیں جو اپنے مخالفین کو بندوق کی گولی سے خاموش کرواتے ہیں۔ان انکشافات سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ ہمارے کچھ سیاست دان کتنے کریمینل مانئڈڈ ہیں۔اس تناظر میں سابق وزیرِ داخلہ سندھ ذولفقار مرزا کی پریس کانفرنسیں ایم کیو ایم کے بارے میں ان کی دھشت گردانہ مائنڈ سیٹ کو منطقی انجام تک پہنچانے میں ممدو معاون بن سکتی ہیں۔رحمان ملک کا کردار اس پورے تناظر میں انتہائی مشکوک ہے کیونکہ ان کے ایم کیو ایم کی قیادت سے انتہائی قریبی تعلقات ہیں جن کا فائدہ ہمیشہ آصف علی زرداری اٹھا تے رہے اور رحمان ملک کو ایم کیو ایم کو ساتھ رکھنے کا خصوصی ٹاسک دیا جاتا رہا اور رحمان ملک نے اس ٹاسک کو جس خوبی سے نبھایا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے لیکن اس کی جو قیمت چکائی گئی وہ پاکستان کی قومی یکجہتی اور اتحاد پر ایسے زخم کی صورت میں لگی ہوئی ہے جسے پوری قوم انتہائی حقارت کی نظر سے دیکھ رہی ہے۔اس زمانے میں ایم کیو ایم سے مذاکرات میں جس طرح سے دھشت گردوں کو محفوظ راستے مہیا کئے گئے اور انھیں جیلوں میںحکومتی سطح پر سہو لیات دی گئیںاس سے کراچی میں دھشت گردی کی کاروائیوں میں اضافہ ہوتا رہا ۔
اقتدار کی خاطر دھشت گردی کا فروغ ایسا گھنائونا جرم ہے جسے کسی صورت میں معاف نہیں کیا جا سکتا۔ایسا کرنا ریاست سے غداری کے مترادف ہے اور اس میں ملوث افراد کو قانون کی عدا لت میں پیش کیا جا نا انتہائی ضروری ہے تا کہ آنے والے حکمران اس طر ح کے غیر آئینی اقدامات سے خود کو دور رکھیں۔ کراچی کی تباہی میں ان سیاستدانوں کا بھی ہاتھ ہے جوذاتی اقتدار کی خاطر قوم کو دھشت گردی کی جانب دھکیلتے رہے ۔پاک فوج نے جس طرح نائن زیرو پر چھا پہ مارا وہ فوج کی اعلی حکمتِ عملی کی گواہی دینے کیلئے کافی ہے۔نائن زیرو کے اندر ویڈیو کیسٹ نے ایم کیو ایم کی سیاسی ساکھ کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے ۔اجمل پہاڑی اور پھر عامر خان کے انکشافات نے ایم کیو ایم کے چہرے کو مزید بے نقاب کر دیا ہے۔وہ ابھی تک اس بات کا جواب نہیں دے سکے کہ بابر ولی کا قاتل نائن زیرو میں کیا کر رہا تھا؟بلدیہ کراچی میں آگ لگانے والے اور بھتہ خوری کا دھندہ کرنے والے نائن زیرو میں کیوں پناہ لئے ہوئے تھے؟انسان کبھی کبھی سیاسی طاقت کے بل بوتے پر فاش غلطیاں کر جاتا ہے جس کا خمیازہ اسے بعد میں بھگتنا پڑتا ہے۔ایم کیو ایم بھی ایسی ہی سنگین غلطیوں کی سزاور بنی ہوئی ہے۔اسے کب خبر تھی کہ اس کی صفوں میں کچھ ایسے عناصر بھی موجود ہیں جو ایجنسیوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور ان کی سیاسی لنکا ڈھانے کا خواب سجائے ہوئے ہیں۔،۔
Altaf Hussain
اس میں کوئی شک نہیں کہ جون ١٩٩٢ میں بھی ایک فوجی اپریشن ہوا تھا جس میں قائدِ تحریک الطاف حسین لندن فرار ہو گئے تھے اور ابھی تک لندن میں ہی قیام پذیر ہیں۔وہ آج تک پاکستان واپس نہیں آسکے کیونکہ ان پر قتل کے بے شمار مقدمات ہیں ۔یہی حال سندھ کے گورنر عشرت العباد کا بھی ہے لیکن گورنر ہونے کی حیثیت سے انھیں جو آئینی تحفظ ہے اس کی وجہ سے مقدمات التوا میں ہیں۔وہ جب بھی گورنر کے عہدے سے سبکدوش ہو جائیں گئے تو پھر ان کو بھی عدلیہ سے خود کو پاک صاف کروانا پڑیگا۔یہ ٢٠١٥ ہے ١٩٩٢ نہیں کیونکہ اس وقت ایم کیو ایم کافی طاقتور تھی۔الطاف حسین کا مہاجر شناخت کا نعرہ بھی تازہ تازہ تھا لیکن ایک وقت گزرنے کے بعد پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے اور ایم کیو ایم کے اندر کئی دھڑے موجود ہیں جس سے ایم کیو ایم میں وہ توانائی باقی نہی رہی جو کسی وقت اس کا خا صہ ہوا کرتی تھی ۔
پی پی پی نے بھی ١٩٩٦ میں نصیراللہ بابر کی سربراہی میں ایک اپریشن کیا تھا جس نے ایم کیو ایم کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی لیکن بعد میں جنرل پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں ٢٠٠٢ کے انتخابات میں ایم کیو ایم کی پارلیمنٹ میں عددی موجودگی نے انھیں ایک نئی زندگی بخشی اور ایم کیو ایم جنرل پرویز مشرف کی ڈارلنگ بن گئی۔اسے بے شمار فنڈز دئے گئے جس سے اس نے تین سے سو زیادہ پولیس فورس کے افراد کا قلع قمع کیا تھا جھنوں نے فوجی اپریشنز میں حصہ لیا تھا۔الظاف حسین بھول گئے کہ لہو کی پکار ایک دن اپنے قاتل کو تلاش کر لیتی ہے اور پھر قاتل کو عدالتی کٹہرے میں کھڑے ہو کر بے گناہ لہو کا حساب دینا ہوتا ہے ۔بی بی سی کی جانب سے حالیہ الزمات نے ایم کیو ایم کو بالکل فالج زدہ کر دیا ہے اور بحیثتِ سیاسی جماعت اس کی ساکھ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایاہے جس سے اس کا انجام بالکل قریب ہے ۔،۔