تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی وہ پچھلے کئی گھنٹے سے میرے صبر اورخوش اخلاقی کا امتحان لے رہا تھا ۔ میں پوری کوشش کر رہا تھا کہ میرے لہجے میں تلخی یانا راضگی کا عنصر شامل نہ ہو لیکن وہ توشا ید اپنا سارا ڈپریشن میرے پر ہی نکالنے کا ارادہ کر کے آیا تھا میں دبے لفظوں میں اُسے سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا کہ اُسکی ناکا میوں میں مُجھ غریب کا کو ئی قصور نہیں ہے لیکن وہ مجھے قصور وار بنا نے پر تُلا ہوا تھا میں پو ری کو شش کر رہا تھا کہ کسی طرح اُس کو مطمئن کر سکوں لیکن اُس کے لہجے کی تلخی اور زہر میں اضا فہ ہو تا جا رہا تھا اب اُس کی گفتگو کا رخ میر ی طرف سے ہٹ کر خدا کی طرف ہو گیا تھا پہلے تو میں قصور وار تھا اب وہ خدا کے پیچھے پڑ گیا تھا کہ خدا ہے بھی یا نہیں میں توخدا کو تب مانوں گا جب وہ میری دعائیں قبو ل کریگا جب میرے پاس دنیا کی ہر نعمت موجود ہو گی کیونکہ جن لوگوں کے پاس روپے پیسے کی ریل پیل ہے میں اُن سے زیا دہ عبادت گزار ہوں جب میں زیا دہ عبا دت کر تا ہوں تو اللہ تعالی میری کیوں نہیں سنتا میرا حق زیا دہ ہے جب تک وہ میری ذات پر تنقید کر تا رہا میں صبر اور خاموشی بلکہ خو ش مزاجی سے سنتا رہا اب جب وہ رب کعبہ کی ذات پر تنقید کر نے لگا تو میرے صبر کا پیما نہ چھلکنے لگا وہ پچھلے گھنٹے سے مجھے بتا رہا تھا کہ میں نے بہت سارے ذکراذکا ر کئے ہیں نما زیں نوافل ادا کئے میرے اوپر وہ بار بار یہ تنقید کر رہا تھا کہ آپ لوگوں کو تسبیحات بتا تے ہیں اِن کا کو ئی فا ئد ہ نہیں میں نے بہت تسبیحات کیں ہیں مجھے کوئی فائد ہ نہیں ہوارب بھی امیروں کا ہے میں کتنے عرصے سے عبادات کر رہا ہوں۔
میری دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتیںجب وہ وہ بہت بول چکا تو میں نے اُس کی آنکھوں میں جھا نکا اور شفیق لہجے میں کہاتمہا ری دعائیں پتہ قبول کیوں نہیں ہو تیں تمہیں خدا پر یقین ہی نہیں ہے اگر تمہیں خدا پر یقین ہو تا تو تم کبھی ایسی فضو ل باتیں نہ کرتے تم میں یقین کی کمی ہے تم نے خالق کائنات کو مانا ہی نہیں جس دن تم نے خدا پر یقین کرنا سیکھ لیا اُسی دن سے تمہا ری دعائیں قبو ل ہو نا شروع ہو جائیں گی وہ چپ چاپ میری با تیں سنتا رہا اورپھر اُٹھ کر چلا گیا میرے پاس ایسے کئی ما یوس افراد آچکے ہیں جو آتے ہی کہتے ہیں کہ ہم نے آج کے بعد کو ئی نماز نہیں پڑھنی کو ئی تسبیح نہیں کر نی جب خدا نے ہما ری کو ئی دعا قبو ل ہیں نہیں کر نی تو ہم کیوں دعائیں کریں ایسے عقل کے اندھوں کو کون سمجھا ئے دنیا کی ہر پیش رفت کے پیچھے جو قوت نظر آتی ہے وہ یقین ہی ہے بحر ظلما ت میں کشتیاں جلا نا اور گھو ڑے دوڑانا یقین کا ہی کر شمہ تھا اِس یقین کے بل بو تے پر نئی دنیا ئیں دریا فت ہوئیں انکشافات کے نئے چاند روشن ہو ئے اربوں کہکشائوں کا سراغ ملا مریخ اورچاند پر انسان کا قدم پڑا ایجا دات کا سیلاب اُمڈآیا جنگل منگل کاسماںبنا انفرادی یا اجتما عی طو ر پر یقین ہی وہ جذبہ ہے جس نے خوابوں میںحقیقت کا رنگ بھرا یہ یقین کی کمی تھی جو عرب سردار ابوالحکم تھا لیکن ابو جہل کہلا کر عبرت کا نشان بن گیا اور افریقہ کا حبشی غلام بلال شہرت کے آسمان پر اِس شان سے چمکا کہ فاروق اعظم ان کو ہمیشہ ہما رے سردار کہہ کر بلا تے تھے۔
ابو الفضل اور فیضی جیسے دانش ور شاہی ایوانوں کی راہداریوں میں گم ہو گئے جب کہ شیخ سرہندی کی لحد روشنی کا مینار بن کر محشر تک اندھی روحوں کو منور کر نے کا با عث بن گئی یقین و ایمان کا نور دیکھنا ہو تو حضرت سراقہ بن جعشم میں ملا حظہ ہو آخری وقت آن پہنچا مر ض الموت کے آہنی پنجے نے گر فت میں لینا شروع کر دیا اطبا ء لا علا ج قرار دے چکے ورثا ء تدفین کی تیاریوں میں مصروف ہیں یقین کے نو ر سے مالا مال سراقہ کہتے ہیں واللہ ابھی مو ت مجھے چھو بھی نہیں سکتی کیونکہ میں نے ابھی کسری ایران کے کنگن نہیں پہنے جس کی بشارت سرتاج الانبیاء محبوب خدا ۖ نے خو د مجھے دی تھی چشم فلک اور بو ڑھے آسمان نے یہ منظر خود دیکھا تھا ہجرت مدینہ کے وقت کفار نے سرا قہ کو کنگن پہنا نے کا لالچ دے کر نبی کریم ۖ کے پیچھے بھیجا تھا مگر شہنشاہ دوجہاں ۖ نے سراقہ کو دیکھ کر فرمایا تھا کہ اگر تم اسلام قبول کر لو تو ایک وقت آئے گا۔
Iran
جب ایران فتح ہو گا تو شاہ ِ فا رس کے کنگن تمہیں پہنا ئے جائیں گے اور پھر سراقہ صحت یا ب ہو ئے اور پھر ایران فتح ہوا تو خلیفہ وقت جناب فاروق اعظم نے خو د اپنے ہا تھوں سے سراقہ کو کنگن پہنا ئے سراقہ کے دل و دماغ میں بھی پیا رے آقا ۖ کے لب مبا رک سے نکلے ہو ئے الفاظ کا مکمل یقین تھا یقین کا ایک اور نمو نہ ملاحظہ فرمائیں جنگ میں ثابت بن اصیرم مسلمانوں سے بر سر پیکا ر ہے اچانک کسی خیال کے تحت سرور کو نین ۖ کے حضو ر پیش ہو تا ہے اور عرض کر تا ہے اگر میں اسلام قبول کر لوں تو مجھے کیا ملے گا تو آقا کریم ۖ نے فرمایا جنت’ یہ سن کر یقین کی چنگا ری بھا نبھڑ بن گئی کھجو ر کا دانہ جو اُس وقت ہا تھ میں تھا اُس کو زمین پر پھینک دیا اور سرور کا ئنا ت سے عرض کی یا رسول اللہ ۖ آخری سلام قبو ل ہو اب یہ کھجو ر جنت جا کر کھا ئوں گا چیتے کی طرح پلٹا اور کفا ر پر حملہ کر دیا اور پھر جو انمردی سے لڑتا ہوا شہید ہو گیا جنگ کے بعد نبی کریم ۖ نے لا شوں کا معائنہ کر تے ہو ئے فرمایا آئو دوستو میں تمہیں ایسا جنتی دکھا ئوں جس نے نہ نما ز پڑھی نہ روزہ رکھا نہ حج کیا مگر سیدھا جنت گیا’ بقول شاعر پروانے کا حال اِس محفل میں ہے قابل رشک اے اہل نظر شب بھر میں یہ پیدابھی ہوا عاشق بھی ہوا اور مر بھی گیا
یہ ثابت بن اصیر م کا شاہ عربی ۖ پر یقین ہی تھا جو شہا دت کے مر تبے پر فا ئز ہوکر جنت الفردوس کا مکین بنا اور پھر کو ن بھول سکتا ہے تا ریخ انسا نی کے عظیم کردار دانش ور اہل علم سقراط کو دو ہزار سال قبل یونان کا شہر ایتھنز اِس شہر کے لوگ اپنا حاکم خود منتخب کر تے تھے علم فلسفہ آرٹ ان کی رگوں میں دوڑتا تھا اِس شہر کی اسمبلی تھی جہاں لوگوں کے مسائل زیر بحث کر تے 404قبل مسیح سپا رٹا کے جر نیل لینڈر نے چند شر پسند عنا صر کے ساتھ مل کر عوامی جمہو ریت کی جگہ آمریت کی باد شاہت قائم کر دی عدالت جر نیل کی زرخرید بن گئی امر کے اشارے پر فیصلے ہو نے لگے مخا لفوں کو پھانسی کی سزائیں دی جا نے لگیں اِسی عدالت میں تا ریخ کا بہت بڑا کر دار لایا گیا سقراط جس پر علم و آگہی اور نوجوانوں کو گمراہ کر نے کا الزام تھا مقدمہ قائم ہوا اور سقراط کو بھی پھانسی کی سزا سنا ئی گئی سقراط نے اپنے سچ کے یقین پر زہر کے پیا لے کو اپنے ہو نٹوںسے لگا لیا اور کہامیں موت سے مغلوب ہو رہا ہوں اور تم بدی سے اور پھر اِسی یقین کی دولت کی وجہ سے سقراط قیامت تک کے لیے تا ریخ کے اوراق میں امر ہو گیا۔
یقین کا ایک اور جلوہ آپ کی نذر یہ کہ حضرت فاروق اعظم کے دورمیںمصر فتح ہو چکا تھا مصریوں کا یہ عقیدہ تھا کہ ہر سال جب دریا ئے نیل خشک ہو جا تا تو وہ نو جوان لڑکی کو دلہن بنا کر اُس کی گردن پر چھری پھیر کر خشک دریا کو انسا نی خون کی بھینٹ دیتے جس سے دریا ئے نیل رواں ہو جا تا اور پھر تا ریخ انسانی کے سب سے عظیم حکمران حضرت عمر فاروق کے دور میں بھی نیل خشک ہو گیا اہل مصر نے انسانی خو ن کی بھینٹ چڑھانے کی درخواست دربار خلافت میں دی تو فاروق اعظم یقین سے بھر پور لہجے میں بو لے یہ عقیدہ تو حید اور ایمان کے منا فی ہے انسانی جان نہیں دی جا ئے اور دریا ئے نیل کو میرا یہ پیغام دو دریا ئے نیل بہنا شروع ہو جا ئے گا یقین کی عبا رت ملا حظہ فرمائیں” اے نیل اگر تو بھینٹ لے کر بہتا ہے تو قیا مت تک خشک رہ اگر تو خدا کے حکم سے چلتا ہے تو خدا کا یہ بندہ عمر تجھے حکم دیتا ہے کہ تو بہنا شروع کر دے کیونکہ مخلوق خدا قحط میں مبتلا ہے” اور پھر فاروق اعظم کا رقعہ نیل کی پاتال تک جیسے ہی پہنچا نیل کے کنا روں سے پا نی اچھلنے لگا۔
PROF ABDULLAH BHATTI
تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ای میل: [email protected] فون: 03004352956