ہم خواب دیکھتے ہیں۔ حیاتِ جاودانی کا خواب جو مثلِ ساگر قلبِ انسانی میں جوار بھاٹا پیدا کرتے رہتے ہیں اور جس کی بے حد و حساب موجیں وقت اور تقدیر کی سنگلاخ چٹانوں سے ٹکراتی رہتی ہیں لیکن اس خواب کو با لآخر موت کے ہونٹوں پر بوسہ دینا پڑتا ہے۔ حیاتِ جاوداں کے حصول کی یہی خواہش کبوتر کو اس وقت آنکھیں بند کرنے پر مجبور کر دیتی ہے جب اس کا بلی سے سامنا ہوتا ہے لیکن یہ کبھی نہیں ہوا کہ وہ بلی کے خونی پنجہ استبداد سے بچ پائے۔ انتہائی محترم وزیرِ اعظم میاں نواز شریف صاحب فرماتے ہیں” خون کو خون سے دھونے کا راستہ چھوڑ دیا” جبکہ وزیرِ اطلاعات پرویز رشید صاحب کا کہنا ہے ” جنگ کے مقابلے میں جنگ آگ بھڑکاتی ہے۔ ہماری حکومت آگ پر پانی ڈالنا چاہتی ہے آگ کو بھڑکانا نہیں۔ یہ ارسطوانہ خیالات سے بجا لیکن سیانے تو یہ کہتے ہیں کہ شجرِ آزادی کو وقتاََ فوقتاََ محبِ وطن لوگوں اور ظالموں کے خون سے تروتازہ ہوتے رہنا چاہیے کیونکہ یہی اس کی کھاد ہے۔
یاد رہے کہ ہم اُس ”دینِ اوسط”پیروکار ہیں جو امن کا پیامبر ہے لیکن ساتھ ہی اپنے گھوڑے تیار رکھنے کا حکم بھی دیتا ہے ۔یہ بجا کہ دینِ مبیں ظلم و زیادتی کی شدت سے ممانعت کرتا ہے لیکن اپنے حق کی خاطر جان گنوانے والے کو شہید بھی قرار دیتا ہے۔ جنگ کے مقابلے میں جنگ نہ کرنے کا درس دینا زندہ قوموں کے وقار کے منافی اور بزدلی کی علامت ہے۔
زندہ ضمیر زمانے کی سختیاں برداشت کر سکتے ہیں ، صعوبتیں جھیل سکتے ہیں لیکن تذلیلِ ذات کے تیر ان کے لیے جان لیوا ہوتے ہیں ۔کیا اس سے زیادہ تذلیل کا کوئی اور پہلو بھی ہے کہ دور بیٹھا ”عالمی غنڈہ” جب اور جہاں چاہتا ہے ڈرون حملہ کرکے ہماری غیرت و حمیت کی دھجیاں بکھیر دیتا ہے اور ہمیں احتجاج کا حق بھی نہیں دیتا۔ عظیم بیگ عظیم کہتے ہیں۔
شہ زور اپنے زور میںگرتا ہے مثلِ برق وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے کیا قوم یہ سمجھ لے کہ اس نے ابھی گھٹنوں کے بل چلنا بھی نہیں سیکھا؟۔ اگر ایسا ہی ہے اور ہمارا مستقبل قریب یا بعید میں خون کو خون سے دھونے یا جنگ کے بدلے میں جنگ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تو پھر اس مجبور و مقہور اور نا تواں قوم کو کس نا کردہ گناہ کی سزا دی جا رہی ہے؟ ۔ حاکمانِ وقت اپنا ایٹمی پروگرام امریکہ کے حوالے کرکے قوم کو سکھ کا سانس کیوں نہیں لینے دیتے؟۔ کیا کوئی حاکمانِ وقت کو تاریخ کا یہ پیغام پہنچائے گا کہ قوموں پہ ابتلاء کے دور آتے رہتے ہیں لیکن نشیب و فرازِ زمانہ کی خوگر قومیں دل برداشتہ ہونے کی بجائے نئے عزم کے ساتھ اٹھتی اور چھا جاتی ہیں۔ اقبال کا درسِ خودی بھی یہی ہے کہ اگر عثمانیوں پہ کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
آج اگر ہم پریہ دورِ ابتلاء ہے تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ قوم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے بلی کی غذا بن جائے۔ اگر مرنا ہی مقدر ٹھہرا تو پھر گیدڑ کی موت کیوں، شیر کی موت کیوں نہیں ؟۔ہم یہ نہیں کہتے کہ طبلِ جنگ بجا دیا جائے کہ کوئی فاتر العقل ہی جنگی جنوں میں مبتلاء ہو سکتا ہے لیکن جب جنگ مسلط کر دی جائے اور قومی غیرت و حمیت کو نت نئے چیلنجوں کا سامنا ہو تو پھر زندہ قومیں نتائج کی پرواہ کیے بغیرہتھیار اٹھایا ہی کرتی ہیں۔سابقہ صدرِ مملکت جناب آصف علی زرداری نے کہا ”ہم ڈرون تو گرا لیں گے لیکن پھر ۔۔۔؟۔ جنابِ زرداری کے نقشِ قدم پر چلنے کا عندیہ دینے والے جنابِ نواز شریف کی آنکھوں کے سامنے بھی یہی ”پھر” ناچ رہا ہے اور شاید اسی بنا پر وہ خون کو امن کے پانی سے دھونا چاہتے ہیں جو ممکن نہیں کہ تاریخِ عالم میں ایسی کوئی مثال سرے سے موجود ہی نہیں۔
Chaudhry Nisar Ali Khan
ہم اندرونی اور بیرونی خطرات میں جس بری طرح سے گھر چکے ہیں اس کا حل راہِ فرار نہیں عزم و ہمت ہے۔ وزیرِ داخلہ جناب چوہدری نثار علی خاں نے پریس کانفرنس میں وہ سب کچھ کہہ ڈالا جو قوم کو نیا حوصلہ بخشنے کے لیے ضروری تھا۔ اُن کے لب و لہجے کی تلخی اس امر کی غماز تھی کہ کئی دنوں سے کارِ آشیاں بندی میں مگن چوہدری صاحب کو اپنے جوڑے ہوئے تنکے بکھرنے کا شدید رنج ہے۔ انہوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر یہ کہا کہ امریکہ پاکستان میں امن کی ہر کوشش کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے اور امریکی ڈرون حملہ حکیم اللہ محسود پر نہیں امن پر کیا گیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم امریکہ سے تعلقات اور تعاون پر نظرِ ثانی کریں گے۔ ان کا یہ کہنا بھی بالکل بجا ہے کہ حکیم اللہ محسود پاکستانی قوم کا دشمن اور قاتل تھا۔ اس مطلوب دہشت گرد کے سر کی حکومتِ پاکستان نے بھی پانچ کروڑ روپے قیمت مقرر کر رکھی تھی لیکن وہ طالبان کا امیر بھی تھا جس کے بغیر امن مذاکرات ممکن نہیں تھے۔
میاں شہباز شریف اور چوہدری نثار علی صاحب، دونوں نے کہا کہ پاکستان میں امریکی سفیر رچرڈ اولسن نے یہ گارنٹی دی تھی کہ دورانِ مذاکرات کوئی ڈرون حملہ نہیں کیا جائے گا جس کا امریکہ نے پاس نہیں کیا۔ دوسری طرف طالبان یہ کہتے ہیں کہ پاکستان اور امریکہ نے مل کر سازش کے تحت مذاکرات کا جھانسا دے کر یہ حملہ کیا۔ سراج الدین حقانی کا بیٹا نصیر الدین حقانی کہتا ہے کہ اب مذاکرات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پاکستانی طالبان اگر اس قسم کی بات کہتے ہیں تو بجا کہ وہ گم کردہ راہ سہی لیکن ہیں تو ہمارے اپنے لیکن افغانی پناہ گزیں نصیر الدین حقانی کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ ہمارے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کرے؟۔ اسے چاہیے کہ وہ اپنے حامی طالبان کو ساتھ لے کر افغانستان واپس جائے اور وہاں نیٹو افواج کے خلاف جہاد کرکے اپنا شوق پورا کرے۔ اگر حقانی گروپ اس زعم میں مبتلاء ہے کہ وہ حکومتِ پاکستان کی رٹ کو چیلنج کر سکتا ہے تو یہ اس کی بھول ہے ۔ افواجِ پاکستان جب چاہیں ان کو صفحہ ہستی سے اس طرح مٹا سکتی ہیں کہ ان کی ”داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں۔ ان کے پاس یہ آخری موقع ہے اور وہ جنابِ وزیرِ اعظم کے خون کو خون سے نہ دھونے کے بیان کو غنیمت سمجھیں اور اپنا بستر بوریا سمیٹ کر واپس چلے جائیں کہ یہی ان کے حق میں بہتر ہے۔
خلیل جبران کہتا ہے ”اگر تمہارے اندر لگن اور جذبہ نہیں تو بہتر ہے کہ سب کچھ ترک کر کے کسی مندر کے دروازے پر بیٹھ کر ان لوگوں سے بھیک مانگو جو لگن سے اپنے کام میں مگن ہیں۔ ہمارے تجزیہ نگار سچ کہتے ہیں کہ جس قوم کے ہاتھ میں کشکولِ گدائی ہو اسے اپنے ان داتا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا کشکولِ گدائی تھامنے کی ذمہ دار قوم ہے یا وہ خون آلودہاتھ جنہوں نے دستانے پہن رکھے ہیں۔ قوم تو سسک رہی ہے لیکن غیر ملکی خزانے آج بھی ہماری اشرافیہ کی دولت سے لبالب ہیں۔ کہاں گئے خادمِ اعلیٰ کے بلند بانگ دعوے اور وعدے؟۔ قوم آج بھی ہر چوراہے پر لگی ان ”سولیوں ” کو دیکھنے کے لیے بیتاب ہے جن پر خائنوں اور بد دیانتوں کو الٹا لٹکایا جانا تھا۔قوم کی آشاؤں کا محور و مرکز آج بھی نواز لیگ ہی ہے اور تحقیق کہ قوم ا بھی تک امید کی اس ڈوری سے بندھی ہے جس کا خواب نواز لیگ نے دکھایا تھا۔ اگر میاں برادران ایفائے عہد کرتے ہوئے وہ سب کچھ کر گزریں جس کا قوم سے وعدہ کیا گیا تھا تو پھر نہ کسی کشکولِ گدائی کی ضرورت رہے گی اور نہ ہی ایسے بیانات کی جو مصلحتوں کی چادر اوڑھ کر دیئے جا رہے ہیں۔