تحریر : فاروق عزیز سستی اور کاہلی ایک قاتل جراثیم اور مہلک مرض ہے جس سے علاقے پسماندہ اور جوان بے کار ہو جاتے ہیں افراد نفسیاتی اور اعصابی بے چینی کا شکار ہوتے ہیں کوئی بڑا تعمیری کام کرنے کی ان میں جرأت پیدا نہیں ہوتی۔
تھے وہ آباء تو تمہارے ہی مگر تم کیا ہو ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظرفردا ہو؟
آج کا جوان اس قدر سست ، کاہل ، آرام پسند ، راحت طلب ہو چکا ہے کہ کوئی کام کرنا تو اس کیلئے موت ہے صبح بستر سے اُٹھتے وقت اپنا کمبل تک تہہ کر کے نہیں رکھ سکتا اپنے روز مرہ استعمال کی اشیاء مثلاً کاپی، قلم، موبائل کا چارجر ، موٹر سائیکل کی چابی وغیرہ تک سنبھال کر نہیں رکھ سکتا گھر داخل ہوتے ہوئے یہ چیزیں جہاں مرضی پھینک دے اور جب ضرورت پڑے تو سارے گھر والوں کی شامت آئی ہوتی ہے گھروں کے مناظر کیا ہیں کہیں ماں آوازیں دے رہی ہوتی ہے بیٹا میں کپڑے دھورہی ہوں یہ دھلے کپڑوں کی بالٹی چھت پہ رکھ آؤ میں اوپر جا کر پھیلا آؤنگی لیکن یہ اپنے ہی خیالوں میں گم ہے جتنی مرضی آوازیں دے لو مجال ہے کان پہ جوں تک رینگے جوں بھی اب کہاں رینگے گی نوجوان تو اب خود رینگتے پھرتے ہیں کانوں میں ٹوٹیاں ٹھونسے ،میوزک سنتے، نہ بیٹھنے کا کوئی باوقار انداز، نہ چلنے کی کوئی ترتیب ،نہ بات کرنے کی کوئی تمیز، نہ لباس پہننے کا کوئی سلیقہ ،نہ اپنے کام سمیٹنے کا کوئی طریقہ ، کوئی لیپ ٹاپ کھولے بیٹھا ہے ،باہر گھنٹی پہ گھنٹی بج رہی ہے دودھ والا کب سے دروازے پہ دستک دئیے جا رہا ہے مگر اس کی مووی سٹاپ نہیں ہو سکتی۔کہیں باپ کب سے پانی مانگ رہا ہے کہ دوائی کھالے ۔بیٹا ایک گلاس پانی دے دو مگر بیٹا اپنے سیل فون پر فیس بک کھولے بیٹھا ہے ایسی ہی صورتحال آئے دن کئی گھرانوں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔
Pakistani Youth
وہ کیا دور تھا جب بچے سکول کالج سے آکر کھیت میں کام کروا دیتے تھے گھروں میں مویشیوں کو چارا بھی ڈال لیتے تھے صبح مسجد سے قرآن بھی پڑھ آتے تھے شام کو میدانوں میں کبڈی جیسی گیم بھی کھیل لیتے تھے اب کھیت تو دور کی بات گھر میں بھی کوئی کام نہ سہی اب ان کی اپنی حالت کیا بن چکی ہے نہ اپنی صحت کی کوئی فکر ، نہ تعلیم میں خاطر خواہ کامیابی، محنت سے جی چراتے ہیں ۔سستی ، کاہلی، تن آسانی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اور فارغ جوان نہ تو کوئی ہنر جانتے ہیں نہ عملی طور پر کوئی ڈیوٹی یا ذمہ داری قبول کرتے ہیں بزنس کر نہیں سکتے ، نوکری پسند نہیں، عیاشی چاہتے ہیں ملک و قوم کی کوئی فکر نہیں ، والدین جو جائیداد چھوڑ کر گئے ہیں وہی فروخت کر کر کے وقت پاس کر رہے ہیں۔
جن کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن تم ہو نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن تم ہو بجلیاں جن میں ہوں آسودہ وہ خرمن تم ہو بیچ کھاتے ہو جو اسلاف کے مدفن تم ہو
یہاں کیا کچھ فروخت نہیں ہو چکا نئی نسل کی آبیاری کرنے والو! کہیں غیرت و جرأت کو فروخت نہ کر دینا جب حکمران اعلیٰ اور افسران بالا تن آسانی اور دولت کی فراوانی میں مبتلا ہوں آئے دن دکانوں پہ تالا اور دفاتر میں جالا ہو ،ہوٹلوں میں خادم و مخدوم ہوں ، سڑک پہ عوامی ٹریفک کا پھنسا ہوا ہجوم ہو، کیا ایسے میں جوان صرف بیٹھے ٹی وی دیکھتے رہیں؟ ہم اپنے جوانوں سے مایوس نہیں بس ان کو اغیار کی سازشوں سے بچا کر صرف منظم کرنے کی ضرورت ہے ان کے اندر بڑی صلاحتیں موجود ہیں۔
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
تو پھر اٹھیے غفلت کو دور کیجئے بری عادات کو چھوڑنے میں دیر نہ لگائیے آج کا کام کل پر کرنے کا رواج ختم کیجئے کامیابی کی بہت بڑی دشمن کام کو ملتوی کرنے کی عادت ہے جو کام آپ آج نہیں کریں گے اسے کل کرنے کیلئے دو گنا محنت، وقت، صلاحیت اور قوت کی ضرورت ہوگی کام کے سلسلے میں اپنے رویے کو بدلیں اسے مصیبت کی بجائے چیلنج سمجھ کر قبول کریں ان شآء اللہ آپ کر لیں گے۔
سوچتے ہی سوچتے زندگی گزر گئی سنبھالتے سنبھالتے ہر اک شے بکھر گئی
بلند پایہ اور عالیشان نعمتیں اور منزلیں ہمیشہ تکلیف دہ اور دشوار راستے سے گزر کر ملتی ہیں۔پست ہمت لوگ ذرا سے سست ہوئے یا آرام طلب بنے تو منزل سے پیچھے رہ گئے۔انسانی جسم یکسانیت سے اکتا جاتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے کائنات کے ذرے ذرے میں تغیر رکھا ہے دن ہے تو رات بھی ہے زمین میں میدان بھی ہیں اور صحرا بھی اگر نشاط اور چستی درکار ہے تو پھر حرکت میں برکت ہے جب تک مسلمان مستعد رہے دشمن کے حملوں سے بھی محفوظ رہے علاقوں کے علاقے بھی فتح کرتے چلے گئے وہ عظیم ہستیاں جنہوں نے کامیابی کے جھنڈے گاڑے ان میں سستی، کاہلی، تن آسانی، آرام طلبی ، کم ہمتی، بزدلی کبھی قریب تک نہیں پھٹکی بلکہ ان کی زندگیاں محنت، مشقت ، ہمت و شجاعت، صبر و استقامت اور جفاکشی سے عبارت ہیں۔
سستی، کاہلی، تن آسانی، آرام طلبی اور لا یعنی کاموں کو چھوڑ کر غم و فکر سے باہر آئیے اللہ کے سامنے ہاتھ اٹھا دیجئے اللہ سے مدد طلب کیجئے ، اس وقت آپکی صلاحیتوں کی ملک و قوم کو ضرورت ہے۔
کہیں فائرنگ تو کہیں دھماکے ہیں کہیں چوری تو کہیں ڈاکے ہیں کہیں معصوم بچوں پہ دہشت گردی ہے کہیں مقابل میں خون سے سرخ وردی ہے جب سے شروع اقتصادی راہ داری ہے بھارت کی مسلسل سرحد پہ بمباری ہے کیوں انڈین فلموں کی مستی فریب دیتی ہے کیا پاکستانی جوانوں کو سستی زیب دیتی ہے