یو اے ای (اصل میڈیا ڈیسک) افغانستان کے سبکدوش صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ ’’اگر میں کابل ہی میں رہتا تو پھر میں خونریزی ملاحظہ کرتا۔میں نے سرکاری حکام کے مشورے سے خونریزی سے بچنے کے لیے ملک چھوڑا تھا۔‘‘انھوں نے اپنے ساتھ صدارتی محل سے بھاری رقوم لے جانے کی خبروں کی بھی تردید کی ہے۔
انھوں نے بدھ کو یو اے ای سے ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ ’’اگر لوگ ان کے کابل سے بیرون ملک جانے کی مکمل تفصیل سے آگاہ نہیں تو وہ پھران کے بارے میں کسی فیصلے تک پہنچنے سے بھی گریز کریں۔‘‘
اشرف غنی نے گذشتہ اتوار کو بذریعہ طیارہ بیرون ملک جانے کے بعد پہلی مرتبہ فیس بُک پر ویڈیو کے ذریعے براہ راست گفتگو کی ہے۔انھوں نے اپنے خلاف عاید کردہ ان الزامات کو مکمل طور پر بے بنیاد اورجھوٹ پر مبنی قراردیا ہے جن میں کہا گیا تھا کہ ’’وہ ملک سے غیرملکی کرنسی کی شکل میں بھاری رقوم لے کربھاگ گے ہیں۔‘‘
انھوں نے اپنے اس ویڈیو پیغام کے آغاز میں کہا کہ وہ افغانستان میں رونما ہونے والے حالیہ واقعات کے بارے میں گفتگو کریں گے۔
قبل ازیں بدھ ہی کو متحدہ عرب امارات کی وزارت خارجہ نے پہلی مرتبہ سبکدوش افغان صدراشرف غنی اور ان کے خاندان کوانسانی ہمدردی کی بنیاد پر ملک میں پناہ دینے کی تصدیق کی تھی۔
امارات نیوز ایجنسی (وام) نے ایک بیان میں کہا:’’یو اے ای کی وزارت برائے امورِخارجہ اور بین الاقوامی تعاون اس امر کی تصدیق کرسکتی ہے کہ صدر اشرف غنی اور ان کا خاندان انسانی بنیاد پر ملک میں ہے۔‘‘ لیکن اس نے مزید کوئی تفصیل نہیں بتائی تھی۔
اشرف غنی کو طالبان کے کابل میں داخلے کے بعد بین الاقوامی ہوائی اڈے سے ایک طیارے پر سوار کو بیرون ملک چلے گئے تھے۔تب افغان وزارتِ داخلہ کے ایک سینیرعہدہ دار نے کہا تھا کہ صدر تاجکستان کی جانب گئے ہیں لیکن افغان صدارتی محل نے تب سکیورٹی وجوہ کی بنا پر اس بیان کی تصدیق نہیں کی تھی۔
اشرف غنی نے روانگی کے بعد فارسی زبان میں ایک ویڈیو پیغام جاری کیا تھا۔اس میں انھوں نے کہا تھا کہ ’’وہ ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔وہ اپنے اعمال پراللہ کے سامنے جوابدہ ہیں۔لوگوں کو اس صورت حال میں صبروتحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔اللہ تعالیٰ ان حالات میں ہماری مدد فرمائیں اورافغانستان کے ایک پُرامن مستقبل کی جانب ہماری رہ نمائی فرمائیں۔‘‘
انھوں نے بعد میں فیس بُک پر اپنے صفحے پر ایک تفصیلی بیان بھی جاری کیا تھا اور اس میں کہا تھا کہ ’’طالبان تلوار اور بندوق کی جنگ میں فاتح ٹھہرے ہیں، میں نے دارالحکومت کابل میں خونریزی سے بچنے کے لیے افغانستان چھوڑا ہے۔‘‘
انھوں نے طالبان سے کہا تھاکہ اب وہ افغانستان کے تمام لوگوں، قوموں، مختلف شعبوں، بہنوں اور خواتین کو یقین دہانی کرائیں،انھیں عزت دیں اور عوام کے سامنے ایک لائحہ عمل پیش کریں۔